وجود

... loading ...

وجود
وجود

اب نوازشریف کا لبرل پاکستان

هفته 07 نومبر 2015 اب نوازشریف کا لبرل پاکستان

کیا یہی ہمارا مقدر تھا؟ میاں نواز شریف اور اُن کا خاندان؟ اب اُن کے خیالات بھی اس ملک پر حملہ آور ہیں۔یہ اُن کی حکومت بھگتنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ہر طرف بکھرے ہوئے موضوعات میں یہ خواہش کبھی نہ تھی کہ میاں نواشریف کو ایک موضوع کے طور پر کبھی ترجیحاً اختیار کرنا پڑے، اُن کے دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں کو خود اُن کی تحریروں کا آئینہ دکھانا پڑے،وزیراعظم میاں نواشریف کے تضادات کو بے نقاب کرنا پڑے، جن کے خیالات سے لے کر روایات تک سب اقتدار کے دروازے سے بہ صورتِ بارات نکل کر بہ طرزِ طلاق ٹوٹتے پُھوٹتے اور بکھرتے چلے جاتے ہیں۔ جن کے نظریئے، سوچ کے سرچشمے اور فکر ونظر کے چولے طاقت کے مراکز کے آگے سجدہ ریز ہوکر بھیس بدل لیتے ہیں۔

اب میاں نوازشریف نے ایک نئی پھلجڑی چھوڑی ہے کہ عوام کا مستقبل ’’لبرل پاکستان‘‘ ہے۔ اگر چہ اُن کا پورا بیانیہ ہی اعتراضات کے طوفان اُٹھا تا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ڈھائی سال میں ترقی کے تمام اہداف حاصل کر لیے، عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے۔‘‘ معلوم نہیں کیوں میاں نوازشریف نے ترقی کے جو اہداف حاصل کئے ہیں، اُس کا پتا ابھی تک دستر خوانی قبیلے کے دانشوروں کو نہیں چلا، وگرنہ وہ ڈھول باجے کے ساتھ یہ راگ اب تک کتنی ہی بار جھومتے جھامتے گا، گُنگُنا چکے ہوتے۔ مگر یہ موضوع یہاں موزوں طور پر زیربحث ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اس بیانئے میں عوام کے مستقبل کی آمریت نما جمہوریت کے ساتھ وابستگی بھی موضوع بحث نہیں۔ یہاں پر اس پورے بیانئے کا محض ایک جز یعنی’’عوام کامستقبل لبرل پاکستان ہے ‘‘کو زیر غور لانا مقصود ہے۔

بش دہشت گردی کی جنگ کو کروسیڈ کہہ رہا تھا تو پاکستان کو لبرل بنانے کی جدوجہد بھی اُسی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لبرلزم کی تکرار میں ایک نامیاتی رشتہ ہے

لبرل پاکستان کی بات میاں نواشریف نے اُسی دن کی ہے جس دن وزیرمملکت سائرہ افضل تارڑ نے جنرل پرویز مشرف کو سینیٹ میں ’’رول ماڈل‘‘ کہہ کر چیئرمین سینیٹ رضاربانی سے ایک جوابی سوال کی صورت میں ڈانٹ کھائی۔ اب محترمہ نے وضاحت بھی فرما دی ہے۔ میاں نواز شریف نے اگر چہ نام نہیں لیا مگر لبرل پاکستان کی اصطلاح کی ساری گونج گمک مشرف کے عرصۂ اقتدار میں ہی پیدا ہوئی۔ ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ نامی حیا باختہ حسینہ نے بھی اُسی دور میں اپنی چھب دکھلاکر قیامتیں ڈھائی تھیں۔ تب پاکستان کو امریکی مقاصد کی ڈھب پر لانے کے لیے ایک ذہنی غسل دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ایک افغان جنگ میں جب لڑائی کے لیے بنیادی ہتھیار کے طور پر اسلام کی ضرورت تھی، تو جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسندی امریکی باجگزاری کے کام آئی، مجاہدین امریکا کے بانیوں کے ہم پلہ سمجھے گئے۔ اُن کی قبائلی روایات کبھی اعتراض کا موجب نہ بنیں۔ اُن کے معاشرے میں عورت کا مقام تب کبھی زیرِ بحث نہ آیا۔ افغان معاشرے میں کبھی جھانک کر نہ دیکھا گیا کہ اُن کی بچیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہور ہی ہیں یا نہیں۔ پھر اچانک دور تبدیل ہوا۔ اور امریکی مقاصد بدل گئے۔جنرل ضیاء قرآنی آیات پڑھتے تھے، نیا جنرل مشرف کتوں کو بانہوں میں بھر کر تصویریں اُتارتا نظر آنے لگا۔ اب وہی مجاہدین یک بیک دہشت گرد ہو گئے۔ یہ میاں نوازشریف کے دستر خوانی قبیلے کے ہی دانشور تھے، جو پاکستان کی فضاوؤں سے اڑان بھرتے طیاروں کی گنتی گنتے اور افغانوں کے بہتے خون کا روز حساب کرکے قوم کو بتا تے تھے کہ جرنیلی اقتدار نے مسلمانوں کا خون کتنا ارزاں کر دیا۔ ڈرون کے فتنے نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں۔ زیادہ پُرانی بات نہیں تب ہی روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرل پاکستان پر تنقید کے طوفان میں مشرف کے چہرے کو گم کرنے کے جتن کئے گئے تھے۔

میاں نواز شریف جب عوام کے مستقبل کو لبرل پاکستان کے ساتھ منسلک کر رہے تھے تو معلوم نہیں، اُن کے قریب کھڑے کسی وزیر مشیر نے اُن کے کان میں سرگوشی کی یا نہیں کہ حضور یہ پرویز مشرف کے دور کے جنتر منتر ہیں۔ لبرل پاکستان کے ساز پر تب امریکیوں سے سازباز کر کے جمہوریت کے خلاف آمریت کے لیے سندِ جواز حاصل کیا گیا تھا۔ لبرل پاکستان کی ہی دُھن پر روشن خیال اعتدال پسندی کی رقاصہ اپنے بدن کے زاویئے بُنتی تھی۔ اور اس حال میں خود ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ زن بھی گلاس سر پر رکھ کر ہاتھ پاؤں ہِلاتا اورٹھمکے لگاتا تھا۔ یہ بڑا ہی معرِکَہ آرا دور تھا۔ تب کی اپنی داستانیں تھیں۔اُس دور کے لبرل پاکستان کی اپنی نورجہائیں تھیں۔ اور اپنے معرکہ روح وبدن تھے۔ جو دن بہ دن بڑھتے پھیلتے ہی چلے گئے تھے۔ تب عتیقائیں محفل آرا تھیں اور عافیائیں امریکی جیلوں میں بھیج دی گئی تھیں۔ معلوم نہیں کسی نے میاں نوازشریف کے کان میں سرگوشی کی تھی یا نہیں کہ تب آپ جدہ کے سرور پیلیس میں تھے۔ اور آپ کے ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں، یہی بیچارے عوامل لبرل پاکستان کے نام پر اپنے دانتوں سے کھول رہے تھے۔

یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ جب میاں نوازشریف یہ فرما رہے تھے کہ لبرل پاکستان عوام کا مستقبل ہے، تو کسی نے اُن کے کان میں کہا کہ حضورِ ذی وقار یہ مستقبل، ماضی میں بھگتایا جا چکا ہے، جس کے اثرات کی بہار میں بگرام کی ایک قیدی نمبر ۶۵۰ کا ذکرِ خیر بار بار، بتکرار، بصد اصرار کیا جاتا تھا۔ ہم آپ کے نمک خوار تو اِسے لبرل پاکستان کے خلاف ایک مقدمہ بنا کر پیش کرتے تھے اور صورِ اسرافیل پھونکتے تھے۔تب آپ کے رخِ انور پر بھی اُن کا ذکر درد کی سلوٹیں اُبھار دیتا تھا۔ ہم نے اُسے بہن کہا، بیٹی کہا، حضور کچھ رحم نما توجہ فرمائیں۔ اپنے نمک خواروں کو رسواکرنے کا اہتمام تو نہ کریں۔ ہم نے کبھی ایک عیسائی بنیاد پرست، کیلی فورنیا کے امریکی شہری گیری فالکنر سے عافیہ صدیقی کا موازنہ کرکے اس حکومت کو کیا کیا کوسنے نہیں دیئے تھے۔تب شہابی آنکھوں، گلابی گالوں اور سنہری بالوں والی افغان بچیاں ہمارے سربلند قلم میں سیاہی بھرنے کے کام آتی تھی۔ تب بش کی جلائی گئی آگ کو ہم نے کروسیڈ کے نام سے لبرل پاکستان والے مشرف کے خلاف ایک مذہبی جذبہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔

مشرف کے خلاف طرح طرح کے نکات پیدا کرنے والے اس دستر خوانی قبیلے کے کسی دانشور نے اب تک یہ نکتہ میاں نوازشریف کے گوش گزار کیا یا نہیں کہ جب بش اس جنگ کو کروسیڈ کہہ رہا تھا تو پاکستان کو لبرل بنانے کی جدوجہد بھی ایک ساتھ شروع ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لبرلزم کی تکرار میں ایک نامیاتی رشتہ ہے۔اس رشتے کی وضاحت اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی لوگوں کے خون بہانے سے ہوتی ہے۔ جو دونوں طرف سے ایک مذہبی عقیدے کے تحت جاری ہے۔ مگر جس کی وضاحت کے لیے ایک لبرل نظریہ بھی درکارہے۔ اس لبرل ازم کی اپنی علمیات اور مابعد الطبیعات ہے۔ جو ایک مستقل موضوع ہے، اسے کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ کی وضاحت اپنی جگہ مگر میاں نواز شریف کے لبرل پاکستان کا تصور مشرف کے لبرل پاکستان سے کس طرح مختلف ہو گا؟ یہ اصطلاح تو اپنی اصل میں ایک ہی طرح کے نتائج پیدا کرتی ہے۔ تو کیا اقتدار کے لیے نوازشریف کے جسم میں مشرف کی روح حلول کر جائے گی؟ یوں بھی مشرف آج کل وہ گفتگو فرما رہے ہیں جو بے اقتدار نوازشریف کبھی فرمایا کرتے تھے، تو کیا اس ملک کے مفادات کے لیے ہماری تہذیب ہماری اقدار اور ہماری اصطلاحات حزب اختلاف کے خزاں رسیدہ موسموں کے لیے ہی کارآمد ہے؟کیا یہ بھی لبرل ازم کی ہی ایک قسم ہے؟


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر