وجود

... loading ...

وجود
وجود

رفیق اور فریق کون کہاں؟

منگل 23 اگست 2022 رفیق اور فریق کون کہاں؟

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ صحافت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ یہ جتنی ابتر آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سیاست وصحافت کی یہ ابتری اس کی صلاحیت اور صالحیت دونوں ہی کے احوال کو واضح کرتی ہے۔ پاکستانی سیاست وصحافت اپنی بناؤٹ میں ان دنوں نہایت سطحی اور اُتھلی ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات کا دائرہ کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔ سیاست وصحافت کے میدان پہلے جتنے لوگوں کو متاثر کرتے تھے،اس سے کہیں زیادہ بڑے دائرے میں یہ اپنے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اگر چہ اس کا کھوکھلا پن پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں بھی ہے۔ یہ مطالعہ بیک وقت تسلی بخش اور تباہ کن کیوں ہے؟ اس جائزے میں یہ سوال نہایت دلچسپ طور پر موجود رہے گا۔

پاکستانی معاشرے میں سیاسی سطح پر کشاکش اپنی انتہا پر ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کشاکش میں ریاست کا سب سے طاقت ور فریق خود کہیں نہ کہیں اپنی چَھب دکھلا رہا ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب نابیناؤں کے درمیان ہاتھی کو سمجھنے کی مشق نہیں رہی۔ یہ مُشَخَّص ہو گئی ہے۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کا تذکرہ ایک خاص اُسلوب میں ہوتا تھا۔ گاؤں کی الھڑ دوشیزہ جیسے اپنے محبوب کا تذکرہ پلو پکڑے” اِن” اور ”اُن” سے کرتی ہے، سیاست وصحافت کے جغادری بھی اسٹیبلمشنٹ کا تذکرہ اشاروں اور کنایوں میں کرتے تھے۔ اب یہ پردہ اُٹھ گیا ہے۔ نوازشریف نے عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں ”نام بہ نام” الزامات کی ایک فہرست مرتب کر ڈالی۔ اس دوران میں ایک ایسا بیانیہ صحافت میں بھی مرتب ہوا جو پہلی دفعہ بے حجابانہ اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنارہا تھا۔ تب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اہداف میں جن سیاست دانوں اور صحافیوں کو اپنے روایتی بیانیوں اور گرفت کے طریقوں کے نرغے میں لیا ، وہ مسلم لیگ نون کے مقربین میں شامل تھے۔ طاقت کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ ظاہر ہونے کے بعد اپنا خوف کھو دیتی ہے۔ نواز لیگ کے مقربین کے ساتھ یہی ماجرا ہوا۔ جو اُٹھائے (گرفتار کیے) گئے وہ ان کے خلاف پھر بٹھائے نہیں جاسکے۔ اختلاف، طاقت کی بنیاد پر روکا جائے تو یہ مخالفت اور دشمنی کا روپ دھا لیتا ہے، جسے ذہنوں سے جھٹکا اور دلوں سے کُھرچا نہیں جاسکتا۔ انسانی تاریخ کا یہ معلوم نتیجہ ابھی طاقت ورحلقوں کے فہم میں بار نہیں پاسکا کہ انسان جو آزادی یافت کرلیتا ہے، اُس سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ انسانی تاریخ اسی لیے اتنی خونی ہے۔

یاد کیجیے!عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں ہمارے ” صحافتی ہیروز ” کون بنائے گئے؟ اگر کسی کو یاد ہوتو ایک طاقت ور ترین شخص کے اجلاس سے اُٹھ کر ایک نواز لیگ کے مقرب سمجھے جانے والے صحافی نے انکشاف کیا تھا کہ موصوف بڑے اینکرز کے متعلق یہ فرما رہے تھے کہ اُنہیں دیکھتا کون ہے؟ میں تو فلاں یو ٹیوبر کا وی لاگ سن لیتا ہوں، اس سے حالات کا اندازا ہو جاتا ہے۔ بڑے اینکرز اس توہین کو چھپائے نہ چھپا پاتے تھے۔ جبکہ وہی یوٹیوبر اب معتوب ہے۔ اس صحافتی و سیاسی چلن میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر بے حجابانہ ہو نے لگا۔ جس کا لازمی نتیجہ خوف کم ہونے کی صورت میں نکلتا رہا۔ اسی دوران عمران خان کی حکومت اُٹھا پھینکی گئی ، ظاہر ہے یہ کام بغیر امداد کے ممکن نہیں تھا۔ معتوب پی ڈی ایم نے اقتدار کی راہداریوں میں جگہ پانے کے لیے اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانئے کو نئے سرے سے ترتیب دے کر ”نیوٹرل” کی اصطلاح گھڑی۔ یہ وہی کام تھا جو اس سے پہلے عمران خان حکومت میں فرما رہے تھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تعظیم کے لیے بیرونی حالات، پڑوسی دشمنوں اور اندررونی چیلنجوں سمیت نہ جانے کیا کیا موقف پیش کرتے تھے۔ پی ڈی ایم کے اتحاد نے حکومت پانے کے لیے جو ”سجدۂ سہو” کیا، اسے نیوٹرل نام سے مقدس بنانے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے اس بیانئے کو بھک سے اڑایا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لب کھولنے میں انتظار کیا۔اب اسٹیبلشمنٹ کے اہداف بھی بدلنے لگے۔ اچانک معتوب صحافی، محبوب ہو گئے۔ کل جن کے خلاف مقدمات بنتے تھے، وہ محب وطن قرار پانے لگے۔ عمران خان کے دور کے محب وطن ، اب وطن دشمن بیانیوں کے فروغ میں ملوث قرار دیے گئے۔ اورپہلے را کے ایجنٹوں کے ٹوئٹر ہینڈلز کے ذریعے ری ٹوئٹ کے شجرے بنا کر بے نقاب کیے جانے والے صحافی اب اچانک حب الوطنی کا بوجھا کندھے پر اُٹھانے لگے۔ یہ عکس برعکس صورتِ حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی کہ ابھی تک کون کس صف میں ہے یہ فہرست پوری طرح مرتب بھی نہیں ہوسکی؟
اب صورت حال کیا ہے؟ کل عمران خان کے مقرب صحافی جن صحافیوں کی گرفتاری کے جواز تراشتے تھے، اب وہی صحافی ان کی گرفتاریوں کے حیلے تراشتے ہیں۔ کل جن صحافیوں نے نوازشریف اور مریم نواز کی گرفتاریوں پر بغلیں بجائی تھیں ، اب اُنہیں شہباز گِل کی گرفتاری کے چرکے سہنے پڑرہے ہیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں کی گرفتاری کے دھڑکے لاحق ہیں۔ اس کھیل کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیں۔ ابھی اسے سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کی واضح تقسیم کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ مگر اس کا ایک اور تناظر بھی ہے۔ اس کھیل میں مخالف فریق اب سیاسی جماعت یا حکومت نہیں سمجھی جارہی بلکہ اسٹیبلشمنٹ قرار دی جارہی ہے۔ پہلے یہ کام حکومتی جماعت کے کندھے استعمال کرتے ہوئے ہوتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے مگر فرق یہ ہے کہ اب استعمال ہونے والی جماعت مخالفت کا اُتنا بڑا ہدف نہیں رہی، جتنی اسٹیبلشمنٹ خود بن گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہر جماعت کو اپنی مخالفت کے ساتھ ایک ایسا ورثہ گرفتاریوں ، مقدمات اور دیگر مظالم کی صورت میں دے دیا ہے کہ اب یہ سب اس ورثے کا اشتراک رکھتی ہیں۔ نواز لیگ سے تحریک انصاف تک سب رہنما ایک جیسے سلوک سے دوچار ہیں۔ اسی طرح صحافیوں کی ان جماعتوں سے تقرب کی تقسیم کو دھیان میں رکھتے ہوئے الگ الگ ادوار میں ان سے سلوک کی تفصیلات جمع کرلیں، یہ بھی ایک جیسی نکلیں گی۔ گویا ایک دوسرے کے خلاف صف آرا سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مخالفت میں ایک جیسے ورثے کے ساتھ یکساں جذبات کی تہہ داریاں بھی پیدا کرچکی ہیں۔ اگر چہ اس مشترکہ ورثے کو سیاسی جماعتوں کے رہنما اور منقسم صحافی ابھی ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ مگر وقت کے بہاؤ میں یہ ورثہ مشترکہ سمت کے ساتھ ایک لائحہ عمل میں ڈھلنے کے امکانات بھی رکھتا ہے۔ طاقت کی سب سے بڑی کجی یہ ہے کہ وہ سوچنے کا کام بھی دماغ کے بجائے ہاتھ سے لیتی ہے۔ چنانچہ حالیہ کھیل میں بھی سیاست کے آسمان پر جو بجلیاں چمک رہی ہیں اورجو طوفان پل رہے ہیں، وہ اُن کے احاطۂ ادراک میں نہیں آرہے۔
ایک چیز تو ابھی بھی نظر آ رہی ہے کہ کوئی بھی جماعت اسٹیبلشمنٹ کا سارا بوجھ اُٹھانے کو تیار دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت میں ہونے کے باوجود نواز لیگ کے اندر اس دھماچوکڑی کے حوالے سے ایک مختلف رائے بھی پائی جاتی ہے۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کو اب صحافیوں اور سیاسی جماعتوں میں کسی بھی فریق سے یکسو رفیق میسر آنے کے امکانات نہایت محدود ہو چکے ہیں۔ اس اہم ترین نکتے کو نظرانداز کرکے جو کھیل اس وقت کھیلا جارہا ہے، اس کی عمر نہایت کم دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ستم ظریفیٔ حالات کا نشانا ابھی تحریک انصاف ہے، مگر وقت کے اصل نشانے پر اسٹیبلشمنٹ ہے۔ کاش یہ نکتہ ہاتھ کے دماغ کے بجائے دماغ کے ہاتھ، کے ہاتھ لگ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان وجود - هفته 17 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر