وجود

... loading ...

وجود

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

جمعرات 03 نومبر 2022 خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے”حرفِ انکار” سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں، جو تاریخ کی گپھاؤں میں بُکل مارے بیٹھی مقتدر قوتوں کی جنبشِ ابرو سے جنمتی ، اشاروں کے پنگھوڑوں میں جھولتی اور اُن کی آرزؤں کے جھکڑوں میں ڈولتی ہے۔
موٹے پیٹوں کے لشکر اور خانہ ساز دانشور سیاست سے اعلانِ لاتعلقی کو ایک مقدس فرمان کے طور پر پیش کرنے میں جُتے ہیں، ضمانت کوئی نہیں کہ اگلے دوہفتوں میں وہ اسی موقف پر قائم بھی رہیں گے کہ نہیں۔ مریم نواز نے جس ‘نواز بیانیے’ کو اُبال دیا ہے، وہ اب باسی کڑھی ہے، جسے لندن کی یخ بستہ ہواؤں میں آگ دینے سے جوش پیدا ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ تاریخ ان بیانیوں کو روندتی ہوئی آگے نکل رہی ہے۔ 3 نومبر2007ء سیاست کی منڈیر پر کوے کی طرح کائیں کائیں کرتا رہے گا۔ ابھی یہ تاریخ طلوع ہونے میں کچھ ماہ باقی تھے۔ اسی سال 9 مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری آرمی چیف ہاؤس راولپنڈی طلب کیے گئے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز، چیف جسٹس سے خائف تھے، وہ کراچی اسٹیل ملز کو اونے پونے فروخت کرچکے تھے اور اس کے عوض ایک بھاری رقم ہڑپ چکے تھے۔ اعلیٰ حکام فرماتے ہیں کرپشن کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر اسی کرپشن نے پاکستان کے معاشی امکانات اور میدانِ سیاست کو آکاس بیل کی طرح جکڑ لیا ہے۔
کراچی اسٹیل کے سودے کی تکمیل پر بضد شوکت عزیز مسلسل کانا پھوسی سے پرویز مشرف کو افتخار محمد چودھری کے خلاف اُکسا چکے تھے۔ امریکا کی ہیبت سے دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بے خود مشرف بیرونی سہاروں کے اعتماد پر چیف جسٹس کی طلبی اکثر فرمانے لگے تھے۔ مگر یہ طلبی کچھ زیادہ تلخ ثابت ہوئی۔ مشرف نے کراچی اسٹیل کے سودے پر اُن کے سوموٹو کو اپنی مرضی سے نمٹانے کا کہا۔ کچھ عدالتی معاملات مزید تھے، اس پر ہدایت دینے کی کوشش کی، چیف جسٹس تب ایک اعلیٰ فوجی رابطے میں آ چکے تھے۔ جنرل مشرف کے لیے راستے مسدود کرنے کا ادارہ جاتی عمل شروع ہو چکا تھا مگر وہ نہیں جانتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں”گھر پھونک تماشا دیکھ” کی روش پر گامزن مشرف امریکا پر حد سے زیادہ اعتماد کرتے تھے، غلط فہمی ایسی کہ حامد کرزئی کی طرح امریکی صدر کو دوست سمجھ بیٹھے۔ ابھی تو صرف ہلکی پھلکی یقین دہانیوں سے کام چلایا جاتا ہے اور امریکی صدر سے ملنے کی براہِ راست عیاشی بھی کوئی ایسی میسر نہیں۔ الغرض چیف جسٹس کے رویے کو دیکھ کر مشرف آپے سے باہر ہو گئے، انہیں ایک گالی بہن سمیت دے ڈالی۔ چیف جسٹس بپھر گئے، وہی گالی دُہرا بیٹھے۔ مشرف چیف جسٹس کو دیگر جرنیلوں کے سپرد کرتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ تمام جرنیلوں میں ایک ایسے تھے، جو خاموش بیٹھے رہے، وہی چیف جسٹس کی طاقت تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ پر ”نو” لکھ کر لائے تھے۔ چیف جسٹس کی جب تادیب وتنبیہ ہورہی تھی، تو نظر بچا کے وہ ہاتھ دکھاتے تھے، جس پر ”نو” لکھا تھا، چیف جسٹس کا حرفِ انکار وہی ”نو” تھا۔ اس سے مزاحمت کے استعارے تراشنے والے بیچارے ہی لگتے ہیں۔ اس نشست کے خاموش جرنیل جب جانے لگے، تو واحد وہی تھے، جنہوں نے جسٹس افتخار چودھری سے ہاتھ ملایا ، اور اسے ذرا سا دبا دیا، پیغام واضح تھا، راحت اندوری کہاں یاد آئے:

راز جو کچھ ہو ، اشاروں میں بتا بھی دینا
ہاتھ جب اُن سے ملانا تو دبا بھی دینا

تاریخ میں یہ ہاتھ ہمیشہ حرکت میں رہا ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں یہی ہاتھ کارگزار رہا۔ مارچ 2007ء سے دسمبر 2013ء تک اس ”بابرکت ہاتھ” نے پاکستان کی سیاست کے رخ ورخسار، نقش ونگار اور خدوخال سنوارے۔ اس دوران میں شوکت عزیز رخصت ہوئے، جنرل پرویز مشرف کو نوسال اور 53 روز بعد اپنی وردی اُتارنی پڑی۔ خاموش جرنیل نے طاقت کی سب سے بڑی جادوئی چھڑی سنبھال لی۔ جنرل کیانی نے اپنے ہاتھوں کو جنبش دیتے ہوئے پانچ وزرائے اعظم کا بندوبست دیکھا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے رات گئے ایک توسیع لی۔ یوسف رضا گیلانی عدالت کے ہاتھوں گھر پہنچے۔ راجہ پرویز اشرف آ دھمکے۔ جنرل کیانی اپنے منصب پر تھے، خاموش۔ بولتا صرف ہاتھ تھا۔ کم لوگ آگاہ ہیں، اس دوران جنرل کیانی سادہ لباس میں ماڈل ٹاؤن میں نوازشریف سے ملے۔ تاریخ کے عینی شاہد کے طور پر اس خاکسار نے یہ تمام عرصہ لاہور اور اسلام آباد میں گزارا تھا۔ انتخابات سے قبل اور نگراں بندوبست سے پہلے ہی اگلے انتخاب کے بعد کے تمام مراحل ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی اس اس اہم ملاقات میں طے ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ نگرانوں کے ناموں پر بھی میاں صاحب کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی۔ معلوم نہیں سیاست سے یہ ہاتھ کب لاتعلق ہوا؟ اگر چہ سلیکٹڈ تو عمران خان کو کہا گیا، جسے سیاست میں فوج لائی نہ جس کی مقبولیت میں کبھی فوج نے حصہ ڈالا، انتخابات صرف 2018ء میں تو نہیں ہوئے۔ یہ مئی 2013ء میں بھی ہوئے تھے۔ جن کے نگرانوں کو بھی میاں صاحب کی مرضی سے مقرر کیا گیا تھا۔ نگران نظام کے قیام سے قبل لاہور کے گلی کوچوں میں نوازشریف کی حکومت کے قیام کے فیصلے کی باز گشت موجود تھی۔ ہاتھ وہی خفیہ تھے۔ فیصلے وہیں ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کھیل کو نوازشریف، زرداری اور باقی لوگوں کے حق میں سلیکشن کے زمرے میں نہیں لیا جاتا۔ یہ ایک استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے تاریخ میں 1988، 1990،1993، 1997، 2002، 2008اور 2013ء کے سات انتخابات کے ذریعے بننے والی کسی حکومت کے وزیراعظم سے لاڈ پیار کا وہ مفہوم نہیں نکالا گیا، جو عمران خان کے حصے میں آیا۔ ذرائع ابلاغ عصبیت کے شکار ہی نہیں اس منافع بخش کھیل کے شراکت دار بھی ہیں۔ مقتدر راہداریوں میں معاملات کی اپنی تہہ داریاں ہوتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ماضی سے اپنے لمحہ موجود میں آجائیں، جو مقتدر اداروں اور عمران خان کی آپا دھاپی کا شکار ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ہمارے معزز ڈی جی آئی ایس آئی کا تب کے وزیراعظم عمران خان سے پورا مکالمہ کیا ہوا تھا، جنرل ندیم انجم کا مگر ارشاد ہے کہ عمران خان کرپشن کو پہلا جبکہ وہ معیشت کو پہلا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، مگر معیشت کا مسئلہ کرپشن ہی ہے۔ ماضی کو ماند یادداشتوں میں پھر اجاگر کیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے! اگر کراچی اسٹیل ملز کی ڈیل کے پیچھے کرپشن نہ ہوتی تو شوکت عزیز اس ڈیل کے باعث جنرل مشرف کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے متنفر نہ کرتے۔ پھر آرمی چیف ہاؤس میں 9 مارچ 2007ء کی وہ جبری ملاقات نہ ہوتی، جس میں گالی دینے اور سننے کے بعد ناقابل مفاہمت ماحول بنا، جس کے نتیجے میں 3 نومبر کی وہ تاریخ طلوع ہوئی، جو”ایمرجنسی پلس ” کے نام سے مارشل لاء کی چَھب رکھتی تھی۔ آگے تاریخ ہے۔ اس کھیل سے اُبھرنے والے جنرل کیانی نے پھر چھ برس تک ایک طاقت ور آدمی کے طور پر تمام سیاسی امور اپنی گرفت میں رکھے۔ تاریخ میں یہ پہیہ کسی پریس کانفرنس سے اُلٹا نہیں گھومے گا۔ کرپشن صرف معیشت کے لیے نہیں سیاست کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ جسے کالی دولت سے گرفت میں رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ گھوڑوں کی منڈی میں بھی یہی دولت استعمال ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے سندھ ہاؤس کے مناظر سامنے ہیں۔ اہلِ فلسفہ سمجھتے ہیں کہ نیوٹرل کا لفظ بھی اپنے باطن میں نیوٹرل نہیں، پھر بھی نیوٹرل ہونا ایک وعدہ ہے اور عمل ایک اشارہ۔ یہ وعدہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی اس کی گواہی نہیں دیتا۔ داغستان کا نامور ادیب مستقبل کی آہٹوں کو ماضی سے سنتا ہے، کہتا ہے: اگر تم ماضی کو پستول کا نشانا بناؤ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانا بنائے گا”۔ 3 نومبر ماضی ہے، مستقبل سامنے پڑا ہے۔ یقین کے برخلاف یقین کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ چچا غالب اگر چہ بہکاتے ہیں

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

بس کر دیں سر جی!! وجود - منگل 11 اکتوبر 2022

طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...

بس کر دیں سر جی!!

جبلِ نور کی روشنی وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...

جبلِ نور کی روشنی

پہلا سوال وجود - منگل 04 اکتوبر 2022

صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی م...

پہلا سوال

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال