وجود

... loading ...

وجود
وجود

لیاقت علی خان اور امریکا

پیر 17 اکتوبر 2022 لیاقت علی خان اور امریکا

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں بدلا، حکمرانوں کی امریکی تحویل میں رہنے کی آرزو اورعسکری اشرافیہ کی واشنگٹن کی سرپرستی میں رہنے کی خواہش کا سراغ ہماری تاریخ کے ابتدائی صفحات سے ہی مل جاتا ہے۔
لیاقت علی خان ابتدا میں امریکا سے تعلقات رکھنے کے خواہاں تھے۔ مگر امریکا سے تعلقات کے ابتدائی ماہ وسال میں ہی انہیں اندازا ہو گیا کہ امریکا سے تعلقات پاکستان کے لیے نقصان دہ رہیں گے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری اشرافیہ کی طرح وہ دنیا کا کوئی طفیلی تناظر نہ رکھتے تھے۔ آزادی کی جدوجہد میں شریک رہنما کو امریکا کا ”طرزِ دوستی” نئے انداز کی غلامی جیسا لگنا شروع ہو گیا تھا۔ امریکا کو بھی اندازا ہو گیا تھا کہ لیاقت علی خان وہ واحد رہنما ہیں جو پاکستان کو امریکا کی طفیلی ریاست بننے کی راہ میں چٹان کی طرح کھڑے ہو سکتے ہیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے فوری بعد یہ رائے پاکستان ، بھارت اور افغانستان کی فضاؤں میں موجود تھی کہ امریکا اس میں ملوث ہے۔ پاکستان اور بھارت میں قائم امریکی سفارت خانے یہی رپورٹیں امریکا کو بھیج رہے تھے۔ اگر امریکی سازش کا سراغ لگانا ہو تو اور کچھ نہ کیجیے صرف 16 اکتوبر 1951ء سے 29 دسمبر 1953 تک کے وہ خفیہ ٹیلی گرام پڑھ لیں جو کراچی اور نئی دہلی کے سفارت خانوں سے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیے جاتے رہے۔ امریکا لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق ہر اس پہلو میں دلچسپی لیتا رہا جو کسی بھی زاویے سے کہیں پر بھی موضوع بحث بنا۔ اب یہ تمام خفیہ ٹیلی گرام امریکا کے نیشنل آرکائیوز میں دستیاب ہیں۔ جن میں سے اکثر کے تراجم مختلف کتابوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے صرف سولہ روز بعد 30 اکتوبر 1951 کا ایک ”خفیہ ٹیلی گرام” ملاحظہ کیجیے جو نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے سے واشنگٹن بھیجا گیا۔ ”بھوپال کے بائیں بازو کے اردو روزنامہ ”ندیم” نے 24 اکتوبر کے شمارے میں ایک مضمون اس سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے، ”کیا لیاقت علی خان کا قتل امریکا کی گہری سازش کا نتیجہ ہے”۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے دفتر کے مطابق برطانیا نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کے لیے دباؤ ڈالا۔ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر اثرورسوخ استعمال کرکے اس پر دباؤ ڈالے کہ ایران تیل کے چشمے امریکا کے حوالے کر دے۔ لیاقت علی نے امریکا کی درخواست مسترد کر دی۔ امریکا نے کشمیر پر خفیہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی۔ لیاقت نے کہا پاکستان نے امریکا کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا، باقی کشمیر بھی حاصل کر لے گا۔ لیاقت نے امریکا سے ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ لیاقت کا مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا۔ امریکا کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے، وہ چکنا چور ہو گئے۔ امریکا نے لیاقت کو قتل کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ امریکا چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ عالمی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ امریکا پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا۔ جیسا کہ ایران ، عراق اور اردن میں امریکا کامیاب رہا۔ امریکی حکمرانوں نے یہ ذمہ داری امریکی سفارت خانے کابل کو سونپی۔ امریکی سفارت خانے نے پشتون رہنماؤں سے رابطے کیے (تاکہ لیاقت علی خان کی واحد رکاؤٹ کو ختم کیا جاسکے)۔ امریکی سفارت خانے نے پشتون رہنماؤں کو یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی کو قتل کرا دیا جائے تو امریکا 1952ء تک پختونستان قائم کرا دے گا۔ پشتون رہنماؤں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے بھی موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتہ نہ چل سکے۔ امریکی حکومت کے لیاقت کے ساتھ اختلافات گراہم (GRAHAM) کی رپورٹ سے ظاہر ہوئے، جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔ گراہم نے اچانک پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ حالانکہ پہلے کبھی اس نے اشارہ نہیں دیا تھا۔ لیاقت کے جسم سے ملنے والے خالی کارتوس امریکی ساختہ تھے، جن کو اعلیٰ امریکی افسر استعمال کرتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ ملزم امریکا ہے، جس نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایسے جرم کیے ہیں۔ واشنگٹن کے سانپ ڈالر سامراج نے ایسے گھٹیا ہتھکنڈے ماضی میں بھی استعمال کیے ہیں”۔ (ٹیلی گرام ختم)
لیاقت علی خان کے قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کردیا گیا تھا، جو اس منصوبے کا حصہ تھا۔ مگر قاتل کے حوالے سے اس قدر دھول اڑائی گئی کہ اس پر کوئی واضح رائے قائم نہ ہو سکے۔ بالکل ابتدا میں بیان کیا گیا کہ قاتل کا تعلق خاکسار تحریک سے ہے۔ پھر کہا گیا کہ قاتل دراصل ایک افغان باشندہ ہے۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ وہ غیر افغان ہے، مگر اس کا تعلق دراصل پشتونوں سے ہے۔ پھر قاتل کے متعلق یہ کہا گیا کہ وہ قادیانی ہے۔ جبکہ 1951 میں قادیانیت کے حوالے سے کوئی بحث مرکزی منظرنامے پر موجود ہی نہیں تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے صرف دو روز بعد ہی افغان پریس یہ واضح کررہا تھا کہ قاتل سید اکبر ولد ببرک خان ہے، سید اکبر نے اپنے بھائی زمارک کے ساتھ مل کر 1944ء میں افغان حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ وہ المارہ جادران کا رہائشی تھا۔ جو افغانستان کے جنوبی صوبہ میں واقع ہے۔ سرکاری فورسز کے ہاتھوں شکست کے بعد دونوں ہی بھائی فرار ہو گئے۔ دونوں نے خود کو برطانوی فرنٹیئر اتھارٹی کے سامنے پیش کیا۔ جس کے بعد یہ ایبٹ آباد میں نظر بند کیے گئے۔ (جی ہاں وہی ایبٹ آباد جہاں امریکا نے اسامہ بن لادن کی موجودگی کا ڈراما رچا کر حملہ کیا تھا)۔ سید اکبر اور ان کے بھائی کو یہاں باقاعدہ تنخواہیں دی جانے لگیں۔ تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان نے ان کو سیاسی پناہ دی۔ ایک ٹیلی گرام یہ واضح کرتا ہے کہ افغان قونصلر لیاقت علی خان کے قاتل کو باقاعدہ پیسے دیا کرتا تھا۔ ایک ٹیلی گرام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ افغان حکومت نے تقریباً 120 معروف قاتلوں کو جیلوں سے اس بنیاد پر رہا کردیا تھا کہ وہ پاکستان جا کر عوامی نمائندوں کو قتل کریں۔
پاک امریکا تعلقات واضح طور پر دو تین مرکزی نکات سے جڑے ہیں۔ امریکا پاکستان کی جانب اس لیے متوجہ ہوا کہ اُسے روس اور مشرق وسطیٰ کے خلاف یہاں مستقل اڈے چاہئے تھے۔ ممالک تبدیل ہوگئے، امریکا کی یہ ضرورت اب بھی جوں کی توں موجود ہے۔ نوکرشاہی، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان پہلے دن سے امریکا کی چاکری کرنے کو تیار تھے۔ امریکا نے پہلے دن سے محفوظ طور پر عسکری اشرافیہ سے اپنے تعلقات مستحکم کیے جو امریکا کی مرضی کے نتائج دینے کی قدرت رکھتی ہے۔ امریکا کو یہ یقین جنرل ایوب خان کے زمانے سے ہے، آج بھی وہ تمام معاملات عسکری اشرافیہ کے ساتھ ہی طے کرتی ہے۔ پاکستانی سیاست اور ریاست کا کوئی گوشہ، حصہ اور منطقہ ایسا نہیں، جہاں امریکا گھسا ہوا نہ ہو۔ اُن لوگوں کی بات چھوڑیں جو اپنے سیاسی تعصبات میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ اُنہیں امریکا کی پاکستان دشمنی بھی اپنے سیاسی رجحانات کے باعث پریشان نہیں کرتی اور وہ اسے ان دیکھا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ لیاقت علی خان ہی ابتدائی رکاؤٹ بنے تھے، راستے سے ہٹا دیے گئے۔” The Sovereignty Lost” کے مصنف شاہد الرحمان لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کی شہادت سے صرف چار روز قبل امریکی اہلکار وارن (Warren)سے اُن کی ملاقات ناخوشگوار طور پر ختم ہوئی تھی۔ وارن مشرق وسطیٰ کے دفاع کے لیے پاکستانی کردار پر زور دیتا رہا، لیاقت علی خان کشمیر پر زور دیتے رہے۔ اس صورتِ حال میں اشارے موجود ہیں کہ تب لیاقت علی خان پاکستان، ایران اور مصر کے مشترکہ دفاع کا ایک بلاک تشکیل دینے کے خواہش مند تھے۔ امریکا کسی طور تیار نہ تھا۔ باقی تاریخ ہے۔
٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

بس کر دیں سر جی!! وجود - منگل 11 اکتوبر 2022

طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...

بس کر دیں سر جی!!

جبلِ نور کی روشنی وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...

جبلِ نور کی روشنی

پہلا سوال وجود - منگل 04 اکتوبر 2022

صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی م...

پہلا سوال

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر