وجود

... loading ...

وجود

حقیقتِ تصوف

جمعه 01 نومبر 2024 حقیقتِ تصوف

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

احسان یا بہ الفاظِ متعارف تصوف کیاہے ؟ انسانی روح کا اپنے مطلوبِ حقیقی سے ملنے کا شدید اشتیاق؟ تصوف کیاہے ؟ اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال، شریعت اسلامی اس کی اساس اور قرآن و حدیث اس کا سرچشمہ؛ چناں چہ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ:
‘‘ایں راہ کسے یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد وسنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بردست چپ و در روشنائی
ایں دوشمع می رود تانہ در مغاک شبہت افتد نہ درظلمت ِبدعت۔
( اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں ہاتھ میں لیے
ہواور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے ؛ تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے )۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری جو متقدمین صوفیاء میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل تھے فرماتے ہیں: أصُوْلُنَا سَبْعَۃُ أشْیَاءَ: التَّمَسُّکُ بِکِتَابِ اللہِ وَالاقْتِدَاءُ بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأکْلُ الْحَلاَلِ وَکَفُّ الأذیٰ وَاجْتِنَابُ الْمَعَاصِی وَالتَّوْبَۃُ وَأدَاءُ الْحُقُوْقِ (التاج المکلل)
‘‘ہمارے سات اصول ہیں:کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف
نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی’’۔
سلطان الہند شیخ معین الدین اجمیری کا یہ مقولہ تاریخِ اجمیر میں درج ہے :
‘‘اے لوگو تم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ترک کرے گا، وہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
سے محروم رہے گا’’۔
حضرت میر سید اشرف سمنانی مدفون کچھوچھا ضلع فیض آباد فرماتے ہیں:
یکے از ہم شرائطِ ولی است کہ: تابعِ رسول علیہ السلام قولاً وفعلاً واعتقاداً بود (لطائف اشرفی)
(ولی کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قول، فعل اور اعتقاد میں پیروہو)۔
تصوف دراصل وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہوجائے ، وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تو بارگاہِ خداوندی میں نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ قبلہ رو ہے یا نہیں، جائے نماز اورکپڑے پاک ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھ کہ تیرا تصور پاک ہے یا نہیں، دل مالکِ کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار رکھتا ہے کہ مقصودِ اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ ہونے پائے ، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ بِشر حانی کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں؛ مگر بِشر اللہ سے واقف ہیں۔ عارف ہندی اکبرالہ آبادی مرحوم نے بہت خوب کہا ہے ۔
قرآن رہے پیش نظر ، یہ ہے شریعت
اللہ رہے پیش نظر ، یہ ہے طریقت
اس حقیقت کویوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فقیہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ، اے بندے اللہ کا نام لے ، اور صوفی بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ کا نام لے؛ مگر اس طرح کہ وہ تیرے دل میں اتر جائے ، یعنی صوفی کا کہنا یہ ہے کہ صرف زبان سے اللہ کا نام لینا کافی نہیں ہے ، زبان کے ساتھ تیرا دل بھی ذاکر ہونا چاہیے ؛ حاصلِ کلام یہ نکلا کہ تصوف یا احسان دل کی نگہبانی کا اصطلاحی نام ہے ، حدیث جبرئیل میں اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ کا جملہ اسی دل کی نگہبانی کی انتہائی بلیغ اور پیغمبرانہ تعبیر ہے ،امام العرفاء سیدُ الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر جملے سے احسان یا تصوف کی پوری حقیقت بیان فرمادی ہے ؛ کیوں کہ راہِ تصوف کے تمام جہد و عمل، ذکر وفکر، محاسبہ و مراقبہ وغیرہ کا منشاء و مقصد یہی ہے کہ دل مشاہدہ و حضور کی متاعِ عزیز سے ہم کنار ہوجائے ۔
تصوف کی مستند کتابوں مثلاً قوتُ القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حُلیۃُ الأولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالۃ القُشَیریۃ از امام قشیری کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری مدفون لاہور، تذکرۃ الاولیاء از شیخ فرید الدین عطار، عوارف المعارف از شیخ سہروردی، فوائد الفواد ملفوظات شیخ نظام الدین اولیاء، خیرالمجالس ملفوظات شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں؛ بلکہ عملاً بھی کتاب و سنت کی تلقین ملے گی،اور معتمد طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اکابر صوفیاء کے مجاہدات، ریاضات اور مراقبات کی اساس و بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات ہی ہیں، اور ان کی پاکیزہ زندگیاں اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں۔
اسلامی تعلیمات میں محبتِ الٰہی، مکارمِ اخلاق اور خدمتِ خلق کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے ، تصوف کی تعلیمات بھی انھیں ارکانِ ثلثہ پر مبنی ہیں، تاریخی شواہد کی بنیادپر بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرات صوفیاء ہی نے اپنی عملی جدوجہد کے ذریعہ ہر زمانے میں اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کو زندہ رکھا، صوفیاء سے بڑھ کر تبلیغ اور تعمیرِ سیرت کا فریضہ کسی جماعت نے انجام نہیں دیا، متکلمین، معتزلہ اور حکماء نے صرف دماغ کی آبیاری کی جب کہ صوفیاء نے دماغ کے ساتھ دل کی تربیت اوراصلاح کی اہم ترین خدمت بھی انجام دی اوریہ بات کسی بیان و تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ اسلام میں اصلی چیز دل ہے ، نہ کہ دماغ؛ اگر دل فاسد ہوجائے تو دماغ کا فاسد ہوجانا یقینی ہے ، چناں چہ نبیِ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ألاَ انَّ فِی الجَسَدِ مُضْغَۃٌ اذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الجَسَدُ کُلُّہ وَاذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ ألاَ وَھِیَ الْقَلْبُ
(انسان کے جسم میں ایک عضو ہے اگر وہ صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اوراگر
وہ فاسد ہوجائے تو سارا جسم فاسد ہوجائے ، آگاہ ہوجاؤ:وہ قلب ہے )۔
حضرات علمائے کرام نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جب کہ حضرات صوفیاء نے اپنے اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار سے اسلام کی صداقت کو مبرہن اور آشکارا کیا، اس لیے تصوف یا طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے ؛ بلکہ صحیح معنوں میں تصوف اسلام کا عطر اور اس کی روح ہے ؛ لیکن کوئی انسانی تحریک خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط، عمل و رد عمل کا بازیچہ بنتی ہے تواس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی؛ چنانچہ متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہیں؛ لیکن آگے چل کر جب علم کلام کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا تو یہی علم کلام مسلمانوں میں ذہنی انتشار برپا کرنے کا سبب بن گیا، یہی حال تصوف کا بھی ہوا کہ تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہر دلعزیزی دیکھ کر جاہل یا نقلی ارباب غرض، صوفیوں کے بھیس میں اس جماعتِ صوفیہ صافیہ میں درآئے اور اپنی مقصد برآری کے لیے شریعت و طریقت میں تفریق کا نظریہ شائع کردیا، مجاز پرستی، قبرپرستی، نغمہ و سرود کو روحانی ترقی کا لازمی جزو بنادیا اور دنیاپرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی مگر ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محققین صوفیا نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے ، اور ان فاسد عناصر کو تصوف سے خارج کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔
اس جعلی اور غیر اسلامی تصوف کی بنا پر سرے ہی سے تصوف کا انکار کردیا جائے اوراسے نوع انسانی کے لیے بمنزلہ افیون بتایاجائے اور الزام عائد کیا جائے کہ تصوف زندگی کے حقائق سے گریز کی تعلیم دیتا ہے اوراس نے مسلمانوں کے قوائے عمل کو مضمحل یا مردہ بنادیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور اسلامی تصوف پر ظلم ہوگا۔
بدقسمتی سے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ جو براہ راست اسلام اوراسلامی مآثر کا مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین اور عیسائی مصنّفین کے واسطہ اورانھیں کی مستعار عینک سے اسلامی علوم و معارف کو دیکھنے کا عادی ہے ، اسلامی تصوف پر اسی قسم کے بیجا اور غلط اعتراضات کرتا رہتا ہے ، یہ بات حق و صداقت اورانصاف و عدالت سے کس قدر بعید ہے کہ ہدفِ ملامت تو بنایا جائے اسلامی تصوف کو اور قبائح مدنظر رکھی جائیں غیراسلامی تصوف کی، اسلام کے ان نادان دوستوں نے اپنے اس رویہ سے نہ صرف علم و تحقیق کا خون کیا؛ بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کو تصوف کی حسنات و برکات سے محروم کردیا۔ فَالیَ اللہِ المُشْتَکیٰ
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم وجود اتوار 08 دسمبر 2024
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم

حسرتوں کے مینار وجود اتوار 08 دسمبر 2024
حسرتوں کے مینار

آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی! وجود اتوار 08 دسمبر 2024
آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی!

مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر وجود اتوار 08 دسمبر 2024
مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر

خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن وجود اتوار 08 دسمبر 2024
خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر