وجود

... loading ...

وجود
وجود

مبینہ ملاقات

پیر 19 ستمبر 2022 مبینہ ملاقات

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل اور چھور ہو۔ ایک ہی معاملے میں عدالتی فیصلے الگ الگ آسکتے ہیں۔ ایک ہی شخص ایک دور میں معتوب اور پھر اچانک محبوب بن سکتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کسی صبح محب وطن اور شام وطن دشمن قرار پاسکتی ہے۔ اقتدار سے آج بے دخل ہونے والے کل پھر پزیرائی پاسکتے ہیں۔ اقتدار کے دروبست میں زندہ کل اپنے لاشے کے ساتھ دفنائے جاسکتے ہیں۔ ادارہ جاتی نظم میں مردود، کل مقبول ہوسکتے ہیں۔آج کے مقبول کل راندہ ٔدرگاہ ہوسکتے ہیں۔ آج جن کو ہرطرف سے پروانۂ گرفتاری تھمایا جارہا ہے، کل وزارتوں کے قلمدان تھامے مقتدر راہداریوں میں اِترا سکتے ہیں۔ آج اقتدار میں غرّانے والے کل جیل کی کال کوٹھریوں میں فریادیں کرتے سنائی دے سکتے ہیں۔ جب سیاسی روز مرہ کی کوئی مستقل نہاد ، بنیاد نہ ہو، جب فیصلوں کی بنیاد وقتی ضرورت اور ادنیٰ مفادات ہو، تو پھر ادارے، سیاسی نظام،عدل گاہیں اوراحتسابی بندوبست میں سے کسی کی بھی کوئی قدروقیمت باقی نہیں رہ جاتی۔ اُصول و ضوابط سے خالی فضاء میں ابہام سازگار اور افواہیں مدد گار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں۔
حالیہ دنوں میں سیاسی و صحافتی اُفق پر ایک مبینہ ملاقات کا خوب چرچا ہے۔ اس حوالے سے ابہام کی دھند میں افواہوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔اس ملاقات کو محض بنی گالہ اور پنڈی کے درمیان صرف رابطہ نہیں سمجھا جارہا۔ چنانچہ حالات میں ایک بھونچال آنا فطری امر تھا۔ یہ ملاقات، عمران خان کے دورِ حکومت میں ایک اہم شخصیت کی لندن میں نوازشریف سے ملاقات کی خبروں جیسی ہی ہیں۔ تب اُس ملاقات پر جو رائے ایک حلقے میں پائی جاتی تھی، وہی رائے اب دوسرے حلقے میں اِ س نئی ملاقات کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ تب اُس ملاقات سے امکانات کی ایک نئی دنیا تراشنے والے بھی تھے،اور اُسے “رات گئی بات گئی” کے بمصداق ہوا میں اڑانے والے بھی تھے۔ فریقین کی تبدیلی سے اب یہی ہنگامہ بنی گالہ اور پنڈی کے درمیان رابطے پر بپا ہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی ملاقاتیں افواہوں میں رہتی اور بدلتے حالات میں دکھائی دیتی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کیا ایسی کوئی ملاقات ہوئی ہے، بلکہ اب سوال یہ رہ گیا ہے کہ کیا ایسی کوئی ملاقات دراصل لندن میں ہونے والی ملاقات کی طرح حالات بدلنے کا باعث بن سکتی ہے؟ اس ضمن میں عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جبر تو نون لیگ سمیت ملک کی اکثر جماعتوں کے ساتھ بھی تھا جو فوجی قیادت کو کھلے عام موضوع بناتی رہی۔ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کی تنزلی کا ماجرا نوازشریف اور اُن کے خاندان کے ساتھ تعلقات کی ابتری جیسا نہیں ۔ پھر یہ کیوں باور کیا جانے لگا کہ اب عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔ اس حوالے سے حالات کے جبر پر بھی توجہ نہیں دی گئی، جو گاہے فیصلہ کن عامل کے طور پر بروئے کار آتا ہے۔
پاکستان میں کوئی شے مستقل نہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست بھی عمران خان کے دور میں کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔ ذرا ذہنوں کو تازہ کیجیے!یہ حکومتی بندوبست عمران خان سے چھین کر ایسے تیرہ جماعتی اتحاد کی نذر کیا گیا جس کی کوئی مشترک بنیاد نہیں تھی۔ پی ڈی ایم اپوزیشن میں تھی تو عمران خان مخالفت اُن کا مشترکہ وصف تھا، مگر جب یہ حکومت میں آئے تو یہ مشترکہ بنیاد بھی تحلیل ہو گئی۔ کیونکہ اس بندوبست میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کا بھی حصہ رہیں۔ یوں حزب اختلاف کے ہنگام پی ڈی ایم کا عمران خان کی مخالفت کا واحد مشترک رنگ بھی اب اقتدار میں آ کر اس سے اُکھڑ گیا ہے۔ یہ اتحاد جب اپوزیشن میں تھا تو اُن سے وابستہ سیاست دانوں سے بار بار ایک سوال ہوتا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں پیش نہیں کرتے؟ تب پی ڈی ایم رہنماؤں کا جواب ہوتا تھا کہ اس فیصلے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا، جب تک کچھ قوتیں عمران خان کی حمایت ترک نہیں کردیتیں۔ چنانچہ پی ڈی ایم نے عمران خا ن کے خلاف فیصلہ کن معرکہ کسی “اشارے” پر ہی برپا کیا تھا۔ اگر چہ اُنہیں نیوٹرل کہا گیا، مگر اس سے مراد دراصل حمایت کا “اُلٹ پھیر” تھا۔ اس پورے پسِ منظر میں ایک “اہم شخصیت” کی لندن میں ملاقات انتہائی اہم اور فیصلہ کن عامل کے طور پر کام کر رہی تھی۔ یہ صورتِ حال اب عمران خان کے اپوزیشن میں آنے کے بعد کوئی بدل نہیں گئی۔ تب پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ اُن اصل قوتوں کے خلاف دباؤ بڑھا رہی تھی، جو عمران خان کے حکومتی بندوبست کی اصل پشت پناہ تھیں۔ عمران خان بھی کچھ مختلف نہیں کررہے تھے۔ عمران خان بھی موجودہ سیاسی بھان متی کے کنبے کو ہدف نہیں بنارہے، بلکہ اُن قوتوں کو تاک تاک کر نشانے پر لے رہے تھے، جو اس بندوبست کے اصل معمار و محافظ ہیں۔ یہ موجودہ حکومت اور اُن کے محافظ معماروں کی بدقسمتی ہے کہ ایک حقارت آمیز حکومت کرنے کے باوجود عمران خان بوجوہ عوام میں نہ صرف مقبول بلکہ محبوب رہنما کے طور پر بھی اُبھر نے لگے۔ اس اعتبار سے حکومت کو حکومت راس نہیں آسکی مگر عمران خان کو اپوزیشن خوب راس آئی۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کو اب نظرانداز کرنا کسی قوت کے بس کی بات نہیں، جس میں ایک احتجاجی تحریک بننے کے بے شمار امکانات بہر صورت موجود ہیں۔ یہ صورت حال حکومت سے زیادہ اس کے پشت پناہوں کے لیے پریشان کن ہے۔ اس فضا میں پنڈی اور بنی گالہ کا مبینہ رابطہ صرف حال احوال پوچھنے کے لیے نہیں ہو سکتا۔
کیا پنڈی اور بنی گالہ کے رابطے میں ایسی کوئی بجلیاں ہیں جو موجودہ حکومت کے بندوبست پر گرسکتی ہیں؟ اس کا اندازا نوازشریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری سے زیادہ کس کو ہوگا؟ آخر وہ سب ایسے ہی رابطوں سے تو یہاں تک پہنچے ہیں۔ مذکورہ ملاقات کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات میں رونما ہونے والے واقعات میں کچھ نئے اشارے ملنے شروع بھی ہو گئے۔ مریم نواز کی تیوری پر اچانک بَل پڑنے لگے۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کو لاڈلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اگر ایسا نہ ہو تو اس کو ڈیل کرنا چٹکیوں کا کام ہے”۔ اس دوران میں اچانک عمران خان پاکستان کے مرکزی ذرائع ابلاغ کے دھارے میں دکھائی دیے۔ اُن کا ایک انٹرویو موضوع بحث بنا جس میں اُنہوں نے فوجی سربراہ کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں تقرری پر سوال اُٹھا دیا۔ عدالتوں سے ملنے والی راحت کو بھی کچھ حلقوں میں اسی نقطہ نظر سے دیکھا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے صدر مملکت نمودار ہوئے اور پہلی مرتبہ ایک زبردست سیاسی بیان داغا۔ ایک اہم شخصیت کی لندن میں ملاقات تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر منتج ہوئی تھی۔ اب ایک دوسری ملاقات کے چرچے ہیں۔ اور اس کے فوراً بعد عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر انتخابات کی تاریخ طلب کی گئی ہے۔ تحریک انصاف اشارے دے رہی ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں اگر انتخابات کی تاریخ نہ دی گئی تو پھر اسلام آباد کی جانب مارچ کی تاریخ دی جائے گی۔ پاکستان کے اہم ترین فیصلے ایک بار پھر بڑی تقرری کے گرد گھومنے لگے ہیں۔ ماضی قریب کے واقعات میں سیاسی ہنگامے اس دوران دو آتشہ ہوتے رہے ہیں۔ کیا مبینہ ملاقات سیاسی اُلٹ پھیر کا پھر اشارہ دیتی ہے؟


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

بس کر دیں سر جی!! وجود - منگل 11 اکتوبر 2022

طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...

بس کر دیں سر جی!!

جبلِ نور کی روشنی وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...

جبلِ نور کی روشنی

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر