وجود

... loading ...

وجود
وجود

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں!

جمعرات 08 اکتوبر 2015 خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں!

A Muslim pilgrim prays at the top of Mount Noor in Mecca

رات کی محیط تر تاریکیوں میں بھی اُن کی آواز روشنی کا کام دیتی ہے۔ دنیائے انسانیت میں دوسرا کوئی بھی نہیں، بخدا کوئی بھی نہیں!وہ کچھ نہ بولتے تھے، جب تک کہ اُن کے دل پر الہام بسیرا نہ کر لے یا القا کی چادر تن نہ جائے۔ مگر کیوں ، کیوں خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الھم حقائق الاشیاء کما ھی

(اے میرے رب مجھ پر مظاہر کی حقیقت ویسے ہی کھول دے، جیسی کہ وہ فی الواقع ہے)

ظاہر کتنا بڑا دھوکا ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں سے دوچار دل اور حواس خمسہ کا قیدی دماغ ، کیسے فیصلہ کریں، جب ایک مصنوعی دنیا گردوپیش بن جائے۔ یوں ہی بس ایک خیال سا آتا ہے کہ انسان ظاہر کا فیصلہ بھی حاضر حقیقتوں کے ذریعے کرنے سے عاجز ہے تو وہ غائب پر کیسے فیصلہ کر سکتا ہے؟ مگر یہ ’’بیچارے‘‘ عقل کے مارے کیا کریں؟ اب دیکھیں کیسے انکشافات ہیں جو روز کراچی میں ہوتے ہیں مگر قومی دانش گھاس چرتی ہے اور کوئی سوال نہیں اُٹھاتی؟

اس سے ذرا قبل تمہیداً مصطفی اکیول کی کتاب کے اوراق اُلٹتے ہیں جو مسلم معاشروں میں شدت پسندی کے مظاہر کا جائزہ لیتا ہے اور آشکار کرتا ہے کہ یہ شدت پسندی جسے اسلام کے طفیل سمجھا گیا ، دراصل وہاں پہلے سے موجود قبائلی روایات کے باعث تسلسل سے چلی آتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایک دفاع ہے مگر پھر بھی معذرت خواہانہ ، کہ تشدد انسانی نفسیات کے اندر انسانی معاشروں کے امتیاز کے بغیر ہر جگہ ایک ہی طریقے سے موجود ہے اور ایک ہی طرح کی تاریخ بھی رکھتا ہے۔ مگر چھوڑیئے! وہ امریکا کے سدا بہار اداکار الپچینو کا ایک زبردست فقرہ ہمیں کتاب کے آغاز میں پڑھواتا ہے کہ

’’کوئی بھی چیز وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے۔‘‘

کیا یہ ایک سرسری سی بات ہے جسے قومی دانش نے نظر انداز کیا۔ سندھ رینجرز کا اعلامیہ ہماری قومی بصیرت وبصارت کا ہی نہیں اجتماعی دیانت کا بھی جنازہ ہے۔گزشتہ دنوں سندھ رینجرز نے اپنے ایک اعلامیے میں یہ انکشاف کیا کہ گلشنِ معمار سے اکبر حسین اور کونین حیدر رضوی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ رینجرز کے دعوے کے مطابق اکبر حسین ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا ایک اہدافی قاتل( ٹارگٹ کلر) ہے۔ جس نے رضا حیدر اور ساجد قریشی نامی ایم کیو ایم کے ہی دو اراکین اسمبلی کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ اُس کی دیگر وارداتوں کی تفصیلات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُس نے ہی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے انتخابی کیمپوں پر بموں سے حملے کیے۔ لیکن ان تمام کارروائیوں کی خاص بات کیا ہے؟ دراصل یہ تمام کارروائیاں وہ ہیں جس کے بعد کسی بھی تاخیر کے بغیر طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اور اس پر پورے پاکستان میں ایک خاص ماحول بنا یا گیا تھا۔ تب ان ہی سطور میں قارئین کو بار بار ، بتکرار اور بصد اصرار یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ طالبان کی طرف سے ذمہ داری لینے کا پورا نظام مشکوک ہے اور ان کارروائیوں کی قبولیت کے پورے عمل میں ایک خطرناک سازش موجود ہے۔ مگر تب دانشوروں کے پیٹ میں ایک اور مروڑ اُٹھا ہوا تھا۔ اور وہ اس پورے مصنوعی ماحول کی تخلیق میں ملک کی خدمت کے نام پر نامعلوم کن کی خدمت کررہے تھے؟ذرا واقعات کی تفصیلات پر غور کریں تو اندازا ہو کہ کس طرح قوم کو ایک مصنوعی بخار اور نفرت کی آگ میں دہکایا گیا۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی رضا حیدر کو کراچی کے ایک معروف علاقے ناظم آباد میں ۲؍ا گست ۲۰۱۰ء کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ تب پولیس نے رضاحیدر کے قاتلوں کی تلاش میں کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی تھی۔ اگرچہ تب بھی اُن کے پاس ایک ایسابصری فیتہ (ویڈیو فوٹیج) موجود تھا جس میں واضح طور پر جائے واردات سے ذرا دور اور غالب لائبریری کے پاس ایک موٹر سائیکل اور سفید کار میں سوار کچھ ملزمان کو دیکھا جاسکتا تھا جو گاڑیاں چھوڑ کر ویگنوں میں فرار ہورہے ہیں۔ بعد ازاں پولیس نے بھی دعویٰ کیا کہ رضا حیدر کے قاتل ایک موٹر سائیکل اور سفید کار میں ہی سوار تھے۔اب ذرا دیکھیے! کسی قتل سے بھی کہیں زیادہ منظم ذہن اس قتل کی ذمہ داری کہیں پر منتقل کرنے کے لیے کیسے بروئے کار آتا ہے؟

رضا حیدر کے قتل سے پہلے حملہ آوروں نے اﷲ اکبر کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ مقتول ایک خاص فرقہ وارانہ پس منظررکھتا تھا۔ اس لیے یہ نعرہ قتل کی اس واردات کو ایک مخصوص خانے میں ڈالنے اور اس کی تفتیش کو غلط سمت پر موڑنے کے لیے قاتلوں کی جانب سے ایک زبردست چال تھی۔ چنانچہ بہت آسانی سے اس واردات پر پولیس کی جانب سے لشکری جھنگوی نامی تنظیم کا نام ثبت کر دیا گیا۔جو کسی بھی واردات کے بعد صرف مکھی پر مکھی مارنے کے علاوہ اور کچھ کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور متعدد واداتوں کی تحقیقات میں وہ ایسے قاتلوں کو پیش کرتی رہی ہے جو واردات سے قبل ہی اُن کی تحویل میں رہے ہوتے ہیں۔ اب ذرا یہ بھی دیکھیے کہ اس واردات کے بعد شہر کراچی کے ساتھ کیا ہوا؟ کراچی کو تین روز تک ہنگاموں کا شکار رکھا گیا۔ جن میں پچاس کے قریب افراد قتل کر دیے گیے۔ رضاحیدر کے قتل میں تو کوئی فرقہ واریت ثابت نہیں ہوئی مگر اس ردِ عمل کی لہر میں ہونے والی قتل وغارت گری میں فرقہ واریت پوری طرح موجود تھی۔ لطف کی بات یہ تھی کہ اس قتل کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ۔ رضا حیدر کے قاتل کی طرح دس روز قبل ہی رینجرز نے ایک اور قاتل کو گرفتار کیا تھا ، اُس کا تعلق بھی متحدہ قومی موومنٹ سے تھا ، رینجرز نے اپنی تفتیش میں یہ انکشاف کیا کہ مذکورہ قاتل نے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایم کیو ایم کے ایک اور رکن اسمبلی منظر امام کو قتل کیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُن کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی تھی۔ اب تازہ انکشافات کی روشنی میں رینجرز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ منظر امام کا قتل بھی طالبان نے نہیں ، بلکہ متحدہ قومی موومنٹ نے کیا ہے۔

ان وارداتوں کو ایک پیمانہ بنا کر حالات کا جائزہ لیاجائے تو ہمارے گردوپیش میں ہونے والے اکثر واقعات دراصل ایک زبردست فریب کاری سے پیدا کیے گیے ہیں۔

کچھ یہی ماجرا رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی کا ہے۔ساجد قریشی کو اُن کے پچیس سالہ بیٹے کے ہمراہ ۲۱؍ جون ۲۰۱۳ء کو نارتھ ناظم آباد میں ہی قتل کر دیاگیا تھا۔ ساجد قریشی کو ابھی انتخابات میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے صرف ایک ماہ ہوا تھا اور وہ نمازِ جمعہ پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان کے قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے ’’خوش دلی‘‘ سے قبول کی تھی۔ تب پورے ملک میں اس دلیل کو بہت فروغ دیا گیا کہ طالبان کا کوئی مذہب نہیں، وہ مسجد سے باہرنکلنے والوں کو بھی نہیں بخشتے۔ اب رینجرز کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کا قتل بھی ایم کیوایم نے کیا ہے، کسی اور نے نہیں۔ یہاں یاد رہنا چاہیے کہ ساجد قریشی کے قتل کے صرف ایک ماہ بعد پولیس کے کرائم انوسٹی گیشن محکمے (سی آئی ڈی) کی حراست میں کالعدم تنظیم کے ایک مبینہ کارکن کی ہلاکت پر اس کی جواب دہی کے بجائے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزم ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ساجد قریشی کے قتل میں ملوث تھا۔ طالبان کے نام پر پولیس نے شہرکراچی میں نامعلوم کتنے ہی بے گناہوں کو کسی تفتیش وتحقیق کے بغیر موت کی نیند سلا دیا۔ آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔

اُن ہی دنوں انتخابات کے گرم ماحول میں ایم کیوایم یہ دعویٰ کررہی تھی کہ وہ طالبان کی زد پر ہے ۔ کیونکہ وہ ایک سیکولر جماعت ہے۔ تب ۲۰۱۳ء کے عام انتخابات سے قبل ایم کیوایم کے آٹھ انتخابی کیمپوں پر حملے ہوئے تھے جس میں متحدہ کے بے گناہ کارکن ہلاک وزخمی بھی ہوتے رہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بھی طالبان نے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ قبول کی ۔ مگر اب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ تمام حملے بھی کسی اور نے نہیں خود متحدہ کے اہدافی قاتل اکبر حسین نے کیے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانشوروں کی فوج ظفر موج اس پر خاموش کیوں ہے؟ وہ ایک مخصوص متعصبانہ ماحول کے فروغ میں شریک ہونے پر کسی ندامت کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہے؟

اگر صرف ان ہی وارداتوں کو ایک پیمانہ بنا کر حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے گردوپیش میں ہونے والے اکثر واقعات دراصل ایک زبردست فریب کاری سے پیدا کیے گیے ہیں۔ اس میں ایک خاص نوع کی روش کو ’’حب الوطنی‘‘سے منسلک کرکے دراصل مخصوص لوگوں کو اہداف بنانے کا قومی جواز ایسے تراش لیا گیا ہے کہ اس پر کسی قانون کے آگے جواب دہی کا مسئلہ باقی نہ رہے۔ یہ چند واقعات نہیں، بلکہ اکثر معاملات کچھ اسی نوع کے ہیں ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم جواز جوئی کی فریب کاری کے اس جدید میکانیکی عمل کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اپنے اپنے تعصبات کے اسیر رہتے ہیں۔یہ خوامخوہ نہیں کہا گیا کہ کوئی بھی چیز وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے اور الفاظ کو معانی دینے والے سرکار دوعالم ﷺ کا یہ فرمان کتنے جہان معانی کھولتا ہے کہ

’’اے میرے رب مجھ پر مظاہر کی حقیقت ویسے ہی کھول دے، جیسی کہ وہ فی الواقع ہے۔‘‘


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے پچھتا رہے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا آج ہم پچھتا رہے ہیں، ہم حکومت چھوڑ دیں یہ کہنا بہت آسان ہے جو بھی وعدے ہم سے کیے گئے پورے نہیں ہوئے۔ ایک انٹرویو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیوایم پاکستان کے ساتھ جو مسائل آ رہے ہیں اس کی وجوہات ب...

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے پچھتا رہے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

نسرین جلیل منہ دیکھتی رہ گئی، کامران ٹیسوری گورنر سندھ تعینات وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کامران خان ٹیسوری سندھ  کے اچانک  گورنر تعینات کر دیے گئے۔ گورنر سندھ  کے طور پرعمران اسماعیل کے استعفے کے بعد سے یہ منصب خالی تھا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد مرکز میں پی ڈی جماعتوں کو حمایت دینے کے ...

نسرین جلیل منہ دیکھتی رہ گئی، کامران ٹیسوری گورنر سندھ تعینات

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 19 ستمبر 2022

یہ تصویر غور سے دیکھیں! یہ عمران فاروق کی بیوہ ہے، جس کا مرحوم شوہر ایک با صلاحیت فرد تھا۔ مگر اُس کی "صالحیت" کے بغیر "صلاحیت" کیا قیامتیں لاتی رہیں، یہ سمجھنا ہو تو اس شخص کی زندگی کا مطالعہ کریں۔ عمران فاروق ایم کیوایم کے بانی ارکان اور رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ اُس نے ایم کیوای...

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

متحدہ نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بھلا دیا، شمائلہ عمران کا شکوہ وجود - اتوار 18 ستمبر 2022

متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ عمران نے پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ نے ان کے شوہر کو بھلا دیا ہے۔ متحدہ کے شریک بانی ڈاکٹر عمران فاروق کی 12ویں برسی پر شمائلہ عمران نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ یا رب میرے لیے ایسا دروازہ کھول دے جس کی و...

متحدہ نے ڈاکٹر عمران فاروق کو بھلا دیا، شمائلہ عمران کا شکوہ

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

کامران ٹیسوری ڈپٹی کنوینئر بحال، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان ناراض وجود - هفته 10 ستمبر 2022

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں کامران ٹیسوری کی ڈپٹی کنوینئر کی حیثیت سے بحالی پر کئی ارکان ناراض ہوگئے، سینئر رہنما ڈاکٹر شہاب امام نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر شہاب امام نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو میرا تحریری استعفیٰ جلد بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے...

کامران ٹیسوری ڈپٹی کنوینئر بحال، ایم کیو ایم کے سینئر ارکان ناراض

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر