وجود

... loading ...

وجود
وجود

حب الوطنی

پیر 11 جنوری 2016 حب الوطنی

pakistan

سیموئل جانسن نے 7؍ اپریل 1775ء کی ایک شام کو وہ فقرہ کہا تھا جسے دنیا کی قومی ریاستوں کی کشاکشِ تاریخ میں ایک دوام ملنا تھا کہ

“Patriotism is the last refuge of a scoundrel.”

( حُب الوطنی ایک بدمعاش کی آخری جائے پناہ ہے۔)

تاریخ میں واضح نہیں کہ انگریز ادیب سیموئل جانسن نے جب یہ الفاظ کہے تو اُن کے ذہن میں کیا پس منظر تھا ۔ مگر ہمارے سامنے تو اب تلخ حقائق کی ایک دنیا آباد ہے اور شاعر کی یہ بغاوت بھی کہ

آج تم مجھ سے میری جنسِ گراں مانگتے ہو
حلفِ ذہن و وفاداریٔ جاں مانگتے ہو؟

وقت آگیا کہ سب سے حساس سوال کا اب سامنا کیا جائے۔ ہم نے وطن سے محبت کو کسی ارزل سطح پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ الامان والحفیظ! بنگلہ دیش سے افغانستان تک اور کشمیر سے کراچی تک ایک ہی تو ماجرا ہے۔ ہمارا اپنے شہریوں کے ساتھ کیا سلوک رہا ہے اور ہما را اب بھی اُن سے مطالبہ کیا ہے؟ کسی نے جاکر شاہ زیب خانزادہ کی زبان نہیں روکی، وہ کیا بکواس کررہا تھا؟ متحدہ جہاد کونسل کا وجود پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بار بار اسی نوع کی بات دہرائی ۔اچھا کب کھلا تجھ پر یہ رازاقتدار سے پہلے کے بعد ۔۔۔۔؟ الطاف حسن ندوی کشمیری نے اس حوالے سے کتاب چہرہ(فیس بک) پرکشمیر کے حریت پسند رہنما سید صلاح الدین سے ایک بالکل سادہ اور سامنے کا سوال کیاہے کہ

’’آپ نے یقینی طور پر جیو ٹی وی پر رات کو نشر ہونے والے پروگرام’’ آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ دیکھاہو گا،
جس میں پٹھان کوٹ حملے پر گفتگو کے دوران میں یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ متحدہ جہاد کونسل کا وجود پاکستان کے
لئے نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔اس کے برعکس آپ نے پچیس برس کی جدوجہد میں ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ کشمیری
مجاہدین پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 11؍ستمبر کے بعد جب طالبان اورالقائدہ کا بے رحمی کے ساتھ قتل عام شروع
ہوا تھا، توہم نے پورے پانچ برس تک مسلسل اپنے مضامین میں یہ لکھا کہ کشمیری پاکستان کے لئے کوئی خاص مہمان
نہیں ہیں۔ بلکہ جب تک ان کی ضرورت رہے گی بس تب ۔۔۔۔۔اب شاید ہمارے لئے بھی سوچنے کا موقع ہے کہ
اگر کہیں سب سے پہلے پاکستان ہے تو ہمارے لئے بھی سب سے پہلے کشمیر!!!

کتاب چہرہ پرا س تحریر کے ٹنگتے ہی اس پر تبصروں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ جس میں زیادہ تر لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش اورافغانستان کے بعد اب کشمیر پر بھی دورخے پن سے دوچار ہونے جارہا ہے۔ اور اچھے طالبان اور بُرے طالبان کی طرح کشمیر میں بھی اچھے اور بُرے کشمیری کی بدبودار تقسیم سے دوچار ہونے والا ہے۔ عملاً اس کا بدترین مظاہرہ حریت کانفرنس کے اندر ایک متوازی درجہ بندی کی شکل میں پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے اسی ذہنیت کے عملی مظاہرے کے بعد یہ کہا کہ ’’کشمیری حریت پسندوں میں اب بھارتی ایجنٹ داخل ہو چکے ہیں۔‘‘ آخر اس سے مراد کیا ہے؟ کشمیری جب تک پاکستانی اداروں اور کسبی کی حیا رکھنے والے سیاست دانوں کی مرضی سے چلتے ہوں تو وہ بھارتی ایجنٹ نہیں ہوں گے مگر جُوں ہی وہ اپنی تحریک کے بارے میں اپنے ہی نقطۂ نظر سے حرکت میں آئیں گے تو اُن کی قربانیوں کو ایک طرف رکھ کر اُنہیں بھارت سے کسی تال میل کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ یہ بیان دراصل کوئی سوچا سمجھا نہیں بلکہ ہماری قومی عادت کے باعث خود بخود ایک بیانیہ بن جاتا ہے۔ کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون دیا ہے۔ یہاں آٹھ ہزار عورتوں کی آبروریزی ہوئی ہیں۔ دس ہزار افراداب بھی لاپتہ ہیں۔ بھارتی فوجوں کی گولہ باری اور مختلف آپریشنز سے کشمیر کی ایک لاکھ عمارتیں زمیں بوس ہوئی ہیں۔ تو کیا یہ شاہ زیب خانزادہ اور خواجہ آصف طے کریں گے، کہ کشمیری کیسے حرکت میں آئیں؟کیا وہ اپنی جنگِ حریت لڑنے کے لئے نظام الاوقات کا تعین دوکوڑی کی اوقات نہ رکھنے والے اینکرز اور سیاست دانوں سے کرائیں گے؟

الطاف حسن کشمیری کا یہ طرزِ فکر ہمارے طرِ ز عمل کی پیداوار ہے۔ جس میں افراد کے قومی مفاد کے لئے بہیمانہ استعمال کے بعد اُنہیں ریاست پر بوجھ سمجھ کر جب چاہا اُتار پھینکا گیا۔ انسان کوئی مشین نہیں ہوتے جنہیں جب چاہا بٹن دبا کر چالو کر دیا جائے اور جب ضرورت نہ ہو تو بٹن دبا کر بند کردیا جائے۔ انسانی قافلے جب کسی نظریئے ،کسی مقصد یا کسی بھی ہدف کے لئے حرکت میں آتے ہیں تو وہ اُس نظریئے ، مقصد اور ہدف کے لئے ایک بیانیہ، ایک نفسیات اور ایک نوع کی اپنی حرکیات کا دائرہ بنا لیتے ہیں۔ اِسی پر اُن کی حیات انحصار کرتی ہے۔ وہ اس دائرے میں زندگی اور موت کو گلے لگاتے ہیں۔ اسی مدار میں اُن کا ایثار ، اُن کی زورآوری، اُن کی برداشت ،اُن کی فیصلہ سازی ، اُن کی رعایت اور اُن کی سخت کوشی کی عکس وبرعکس جبلتیں حرکت کرتی ہیں۔ اُنہیں استعمال کرنے والے اپنے اہداف سے الگ بھی ہو جائیں تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اپنے اہداف بدل دیں۔ وہ پھر بغاوت کرتے ہیں۔کشمیر کے باب میں اب ہماری قومی نفسیات آخری درجے کی بہیمت اور خود غرضی کا مظاہرہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ مگر کیا یہی ہمارا قومی رویہ نہیں ہے؟

بنگلہ دیش میں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں پر جو کچھ بیت رہی ہے ، اُس نے پاکستان کے اندر کوئی حرکت پیدا نہیں کی۔وہاں ایک کے بعد ایک رہنما کو سولی پر چڑھایا جارہا ہے ،بنگلہ دیش کو یہ ہمت اس لئے ہو سکی ہے کہ اُسے اس دیدہ دلیری پر کسی بھی تحّدی کا سامنا نہیں ۔ چنانچہ وہ اس گنجائش کا پورا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس پر پاکستان نے او آئی سی ، اقوام عالم اور خطے میں کیا سفارتی حکمت عملی اب تک اختیار کی ہے؟کچھ نہیں تو پاکستان بنگلہ دیش سے اپنے ہر قسم کے سفارتی تعلقات توڑنے کا تو اعلان کر ہی سکتا تھا۔ یہ بات بھی کتاب چہرہ(فیس بک) پہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ’’مطیع الرحمان نظامی کے خلاف 665صفحات کی عدالتی رپورٹ میں 435مرتبہ پاکستان کا لفظ استعمال ہو اہے، کیا یہ پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے؟‘‘افغانستان کے اندر اب عام لوگوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا ہے۔ اس کاپیغام نہایت خطرناک ہے۔ پاکستان ایک ناقابل اعتبار ملک کے طور پر اپنے ہر تعلقدار کے سامنے اُبھر رہا ہے۔یہ بات صرف بیرون ملک پاکستان کے تعلقداروں تک محدود نہیں۔ خود ملک کے اندر بھی بہت تیزی سے یہی رائے جنم لے رہی ہے۔ اس پر رائے اگلی تحریر کیلئے اُٹھارکھتے ہیں۔یہاں تو بس ایک نکتہ بیان کرنا ہے کہ پنجاب کے ایک دانشور نے کہا تھا کہ جب حقانی گروپ کوبھی پاکستان تنہا چھوڑ دے گا تو پھر یہ رائے بنائی جاسکے گی کہ ہم ناقابل ِ اعتبار لوگ ہیں۔ اب یہ بات اس سے بھی کہیں آگے بڑھتی جارہی ہے بنگلہ دیش کی بات تو چھوڑئیے اس کائنات کا کوئی خد اہے تو وہ اس کا ہم سے حساب بھی لے ہی لے گا،مگر اب کشمیری بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جا رہا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا حب الوطنی کے کاروبار میں پاکستان خسارے میں رہا؟سیموئل جانسن کو خود کلامی کے انداز میں بڑبڑا لیجئے!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر