وجود

... loading ...

وجود
وجود

ریاستی آداب

بدھ 02 دسمبر 2015 ریاستی آداب

Modi-Nawaz

اگرچہ تاریخ لمحات میں بدل جاتی ہے، ثانیے حالات کو بدل کر انقلاب آشنا کردیتے ہیں۔ اور لمحات صدیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ، مگر پھر بھی صرف ۱۶۰سیکنڈ میں ایسا کیا ہو سکتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ۶۸ برسوں کے ۸۱۹ مہینوں اور چوبیس ہزار ۵۷۰ دنوں میں نہیں ہو سکا۔پاک بھارت وزرائے اعظم کی فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر ایک سو ساتھ سیکنڈ کی ملاقات نے اگر چہ وقتی طور پر پاک بھارت کی ماحولیات میں ایک خوشگوار تاثر پیدا کیا ہے۔ مگر تاریخ کا سبق بالکل دوسرا ہے۔ جس طرح عالمی ماحولیات پر کانفرنسوں نے عالمی ماحولیات کے مسئلے کو حل نہیں کیا اس طرح پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقاتوں نے بھی ان ممالک میں کوئی بنیادی نوعیت کا فرق پیدا نہیں کیا۔

روسی شہر اوفا میں۱۰ جولائی کو نواز مودی ملاقات میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں رواں برس ۲۳ اور ۲۴؍ اگست کو مشیروں کے مابین ملاقات طے ہوئی۔مگر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کو بھارت بلا کر محض اس لئے ملنے سے انکار کردیا گیا کہ اُنہوں نے کشمیری قیادت سے ملاقات کیوں کی؟ بھارت نے اس تنازع کو آخری حد تک ہوا دی تھی۔اس دوران میں بھارت نے سرحدوں کو مسلسل تناؤ اور کشیدگی کی حالت میں رکھا۔ بھارتی ریاستوں میں انتخابات کو ہندو انتہا پسندی کے فروغ کے ساتھ جیتنے کی کوشش کی گئی۔ اور بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ سمیت ہر معاملے میں کنارہ کشی کی راہ اختیارکی۔ نجم سیٹھی اور شہریار خان بھارت جاکر بے عزتی کے ساتھ واپس لوٹا دیئے گیے۔ اگرچہ ان دونوں افراد کو اپنی بے عزتی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا مگر پاکستانیوں نے اسے ایک قومی توہین کے طور لیا ۔ ہمیں اپنے اعلیٰ ترین اور نہایت ’’قابل عزت‘‘ ان کرکٹ حکام سے ابھی بھی ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ پاکستان کو اپنی عزت نہیں فائدہ دیکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس بھارت کے ہندو انتہا پسند اداکار بھی پاک بھارت تعلقات پر ہرزہ سرائی سے باز نہیں رہے۔ انوپم کھیر کا بیان ابھی دوروز قبل کا واقعہ ہے۔یہ ایک اسی فضا تھی جس کے باعث قبل ازیں ستمبر میں اقوام متحدہ کے ۷۰ ویں اجلاس میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے۔دونوں رہنماوؤں نے اس ملاقات میں ہاتھ دکھانے یا دور سے ہاتھ ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔ظاہر ہے اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھنا بالکل بجا ہے کہ اب پیرس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اوفا کی طرز پر بات چیت کا نیا راستاکھولنے کا نیا مطلب کیا ہوگا؟

اگرچہ اس ملاقات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی جو پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ مگر انڈین ڈیفنس ویکلی سے وابستہ راہول بیدی نے انکشاف کیا ہے کہ اس ملاقات سے قبل گزشتہ دوتین ہفتوں سے دبئی اور بینکاک میں بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک میں بات چیت جاری تھی۔ یہ بات چیت بنیادی طور پر ایٹمی مسائل پر مرتکز تھی۔ یہ اس معاملے کا خطرناک پہلو ہے۔ جو پاکستان کے اندر عوامی بداعتمادی میں ہی اضافہ نہیں کرے گا بلکہ عسکری اور سیاسی قیادت کے تنازع میں بھی حدت لاسکتا ہے۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی قیادت بھارت کے مرہونِ منت رہ کر تعلقات کی اس جابرانہ مساوات کو فروغ دینے کی کوشش میں کیوں ہلکان ہورہی ہے؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے پاس کسی بھی معاملے میں پیش قدمی کی یا پہل کاری کی کوئی قوت نہیں۔ ایک آزاد ریاست کے طور پر یہ معاملہ ہمارے قومی وقار کو مجروح کرتا ہے۔ کرکٹ کے تعلقات سے لے کر قومی سلامتی کے مشیروں تک اور اوفا سے لے کر پیرس تک بات چیت کی پہل ، ہاتھ ہلانے یاملانے کی سبقت یا پھر مذکرات کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے سب کچھ بھارت کی پہل کاری پر منحصر ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں صرف اپنی خواہشات اور شکایات کو بیان کرنے سے زیادہ قدروقیمت بڑھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ میاں نوازشریف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد بھارت سے تعلقات کو فروغ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس کے باوجود تاحال اُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آ سکا۔ میاں نوازشریف نریندرمودی کی تقریب ِ حلف برادری میں جس طرح کشاں کشاں گیے اور بھارت میں اپنی سرگرمیوں کو جس بے احتیاطی سے جاری رکھا ، اس نے پاکستان کے قومی وقار کو مجروح کیا تھا۔ دو حریف ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت قومی وقار اور باہمی تاریخ کے تناظر میں تشکیل پاتی ہے۔ افسوس اس نوع کا تدبر قومی قیادت میں کسی بھی سطح پر معدوم ہے۔ اس ضمن میں بھارت کے ساتھ رابطوں کے لیے کچھ ریاستی آداب کو طے کرنے کی ضرور ت ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ملاقات اوباما اور پوٹن کے درمیان بھی تو ہوئی ۔ مگر یہ ملاقات کیسے تھی؟ کیا یہ ون ٹو ون تھی؟ مترجمین کی صورت میں دوسب سے بڑے ملکوں کے درمیان بھی کسی نہ کسی کی موجودگی یقینی رکھی جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات سرگوشیوں کی نذر نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جن حالات سے گزررہا ہے، اگر اُس سے پاکستان گزررہا ہوتا ، تو بھارت کیا کرتا؟

بھارتی تاریخ یہ ہے کہ وہ ایک جبر کے ماحول میں پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھا تا ہے اور پھر اس سے نجات پاکر اپنے تمام وعدوں سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی حکمت عملی پاکستان کو تھکانے کی ہے۔ بھارت اب جب دنیا میں ایک کردار کے لیے کوشاں ہے اور اُسے اندرون ملک بدترین ہندو انتہا پسندی کا سامنا ہے تو پاکستان کو ایک بار پھر بھارت کو اس متضاد صورتِ حال سے نکالنے کی یکطرفہ اور بے نتیجہ مشق سے دور رہنا چاہیے۔ پاکستان کو ملاقات سے بھاگنا نہیں چاہیے مگر اپنے موقف اور حکمت عملی کو ترک بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف اس عرصے میں خود پر اس اعتماد کو گنوا چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر