... loading ...
ابھی ذرا انتظار کرنا ہوگا جب امریکا میں کوئی کتاب منظرعام پر آئے۔ وہ بتائے گی کہ پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف سے بات چیت سے قبل اوباما کو پاکستان کے بارے میں کیا آگاہی دی گئی تھی؟ آخری تجزیئے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں کوئی چیز بھی شفاف نہیں۔ اور اس میں جمہوری اور فوجی حکومتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ذرا جمعرات،۶؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو یاد کیجیے!جب صدر منتخب ہونے کے دو دن بعد شکاگو میں نومنتخب امریکی صدر بارک اوباما کو۶۵ سالہ ڈائریکٹرنیشنل انٹلیجنس میک کونیل نے ایک تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ اگلے پچھتر دنوں میں دنیا کے سب سے طاقت ور منصب پر براجمان ہونے والے اوباما کی تب عمر صرف سینتالیس برس تھی۔ ذرا ٹہریئے! ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس کا منصب امریکی طاقت کے ستونوں میں کیا اہمیت رکھتا ہے ، اس کو جان لیتے ہیں۔ دنیابھر میں امریکی جاسوسی کی تمام کارروائیوں ، اُس کے خفیہ ایجنٹوں کی تفصیلات اور خفیہ دنیا میں امریکی کھیل کی تمام مکاریوں کے متعلق اگر کوئی ایک شخص پوری دنیا میں پوری طرح آگاہ ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف ’’ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس‘‘ ہوتا ہے۔ اور کوئی نہیں، سی آئی اے کا سربراہ بھی نہیں۔ بسا اوقات خود صدرِ امریکا بھی نہیں۔ اِسی لیے امریکی صدر کو نیشنل انٹلیجنس کی زبان میں’’The Firs Customer ‘‘ یعنی پہلا گاہک کہا جاتا ہے۔
تب امریکا کے پہلے گاہک اوباما کو ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس میک کونیل نے دنیابھر میں پھیلے ہوئے خفیہ امریکی کھیل سے آگاہ کیا اور پھر پاکستان کے بارے میں بھی بتایا۔ میک کونیل نے نو منتخب صد رکو بتا یا کہ
’’پاکستان امریکا کا بے ایمان اتحادی ہے ۔۔۔۔پاکستانی جھوٹ پر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
میک کونیل امریکا کی عراق اور افغانستان جنگ کے عروج کے ایام میں امریکی صدر کو یہ کہہ رہے تھے کہ
’’امریکی سلامتی کو فوری خطرات نہ تو افغانستان سے لاحق ہیں اور نہ ہی عراق سے ، اس وقت اصل خطرہ پاکستان
سے ہے۔ اس کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور اس کے پا س سو کے قریب ایٹم بم ہیں۔‘‘
امریکی مصنف باب وڈ ورڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میک کونیل نے اس بریفنگ میں خاص طور پر آئی ایس آئی کے بارے میں یہ کہا کہ
’’Dealing with the ISI would break your heart if you did it long enough‘‘
(آئی ایس آئی کے ساتھ کچھ عرصے تک معاملات کرتے ہوئے آپ کو دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔ )
پاک امریکا تعلقات کے باب میں ہم ایک بنیادی بات نظر انداز کرتے ہیں کہ امریکا پاکستان کو مسائل کے حل کے طور پر نہیں بلکہ مسائل کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ بھی ایک غلط تصور ہے کہ امریکا کے اس نقطۂ نظر کی تشکیل مکمل طور پر بھارت کے مرہون منت ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی تمام تو کوششیں اِسی رخ پر ہوتی ہیں مگر امریکی نقطۂ نظر کی تشکیل میں کچھ اور محرکات بھی ہیں۔
۲۰۰۸ء کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنے برسوں کی خوں ریزی کے باوجود بھی امریکی طرز فکر و عمل میں آج بھی کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔سب کچھ جوں کا توں ہے۔پاکستان مسائل کے حل کے طور پر نہیں ، مسائل کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
پھر سوال بالکل سادہ رہ جاتا ہے، وزیر اعظم نوازشریف نے دورۂ امریکا کیوں کیا ہے؟ اُ ن سے ایک روز قبل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر چار روزہ دورہ کرکے وطن پہنچے۔ اُن کی آمد کا انتظار کرنے کے لیے وزیراعظم نے اپنے دورے کو ایک روز ملتوی کیا ۔ پھر
اُن کی واپسی کے چند روز بعد چیف آف آرمی اسٹاف امریکا روانہ ہو جائیں گے۔ درمیان میں میاں نوازشریف نے ایسا کیا کردیا ہے جو پہلے اور بعد میں جانے والے نہیں کر پائیں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم میاں نوازشریف نے ایک ایسے صدر سے ملاقات کی ہے جو عملاً اب اپاہج ہونے لگا ہے۔ اپنی آٹھ سالہ میعادِ صدارت کے اس آخری سال اوباما کا حال وہی ہو چکا ہے جو روایتاًوائٹ ہاؤس سے جاتے ہر صدر امریکا کا ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر چاہتے ہوئے بھی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کراسکا۔ اور اُنہیں اپنے ہی اعلان کر دہ منصوبے سے انحراف کرتے ہوئے امریکی افواج کی افغانستان کی مدتِ قیام میں توسیع کرنی پڑی۔یہ وہی صدر ہے جس نے امن کا نوبیل انعام لے رکھا ہے اور جس پر اب نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کو بھی افسوس ہے۔ (افغان پالیسی اس کی ایک مثال ہے)
یاد کیجیے! سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے پاکستان کے دورے میں یقین دلایا تھا کہ افغان جہاد میں پاکستان کو تنہا چھوڑنے کے نہایت غلط نتائج نکلے تھے، لہذا اب امریکا پاکستان کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ مگر یہ اس کے بعد ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکطرفہ تعاون پاکر پاکستان کو نظر انداز کر دیا گیا اور بھارت کے لیے ایک پسندیدگی پر مبنی پالیسی بنا لی گئی۔ اگر چہ امریکا نے عین افغان جنگ کے دوران میں ہی پاکستان کے حوالے سے اپنے تیور بدل لیے تھے اور بھارت کے لیے یہ جنگجو شہزادی کنڈولیزارائس نے کہا تھا کہ یہ ایک منفرد ملک کے ساتھ ہمارے منفرد تعلقات ہیں۔
افغانستان میں امریکی پالیسی کی تبدیلی کے بعد اب ایک بار پھرامریکا کو پاکستان کی ضرور ت ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان کے لیے اہداف ہیں اور وہ اس کی تکمیل بھی کرانے کے قابل ہے مگر ہمارے پاس کیا ہے؟امریکا کی پاکستان میں تمام دلچسپی صرف افغانستان کے تناظر میں ہے جہاں وہ پاکستان کو مسئلے کے حل کے بجائے مسئلے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے ہمارے گلوں میں لٹکے ڈھولوں سے بجانے کے لیے جو کچھ بھی ہو مگر امریکی کانوں تک اُس کی آوازیں نہیں پہنچتیں۔ اوباما نے پچھلے دنوں افغان پالیسی کے بیان میں پاکستان کا ذکر اسی تناظر میں کیا ہے۔اس ضمن میں بھی سمجھنے کا نکتہ یہی ہے کہ افغان پالیسی پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر پینٹاگون کی پالیسی غالب ہے ۔پاکستان کے ساتھ امریکا کے تمام معاملات سلامتی کے حوالے سے قائم ہیں ۔ یا اُس کے گرد مرتکز ہیں۔ چنانچہ یہاں جمہوری حکمرانوں سے زیادہ فوجی حلقوں سے معاملات میں امریکا زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ اسی کا اشارہ فارن پالیسی میگزین کی تازہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ مذاکرات زیادہ تر سلامتی معاملات پر مرتکز ہوں گے۔ چنانچہ دونوں ممالک کے رہنماوؤں کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ جوہری طور پر اِسی نکتے کے گرد گردش کرتا ہے۔ جس میں پاکستان نے امریکی خواہشات کے مطابق امریکا کو حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے متعلق نئی یقین دہانیاں کر ادی ہیں۔ ان میں سے پہلا نکتہ امریکا کی نئی افغان پالیسی اور دوسرا بھارت سے امریکی تعلقات کی نئی تہہ داریوں کا تناظر رکھتا ہے۔ پاکستان کے اپنے زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ چنانچہ ایک سال بعد جب امریکا کا نیا صدر منتخب ہوگا تو ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس اُس پہلے امریکی گاہک کو یہ پھر بتا رہا ہوگا کہ
’’پاکستان امریکا کا بے ایمان اتحادی ہے ۔۔۔۔پاکستانی جھوٹ پر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
باقی اعلامیے میں جمہوریت ، تجارت اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کی جو ستائش کی گئی ہے تو اس طرح کی شاعری عام طور پر اس نوع کے اعلامیوں میں ہی کی جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں، ممکن ہے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان ...
پاکستان نے آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے رینکنگ میں ایک درجہ مزید ترقی کرتے ہوئے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ گزشتہ روز سری لنکا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں آسٹریلیا کو 26 رنز سے شکست دے کر 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر کردی تھی، سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹ...