وجود

... loading ...

وجود
وجود

دورہ

پیر 26 اکتوبر 2015 دورہ

nawaz-obama

ابھی ذرا انتظار کرنا ہوگا جب امریکا میں کوئی کتاب منظرعام پر آئے۔ وہ بتائے گی کہ پاکستانی وزیراعظم میاں نوازشریف سے بات چیت سے قبل اوباما کو پاکستان کے بارے میں کیا آگاہی دی گئی تھی؟ آخری تجزیئے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں کوئی چیز بھی شفاف نہیں۔ اور اس میں جمہوری اور فوجی حکومتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ذرا جمعرات،۶؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو یاد کیجیے!جب صدر منتخب ہونے کے دو دن بعد شکاگو میں نومنتخب امریکی صدر بارک اوباما کو۶۵ سالہ ڈائریکٹرنیشنل انٹلیجنس میک کونیل نے ایک تفصیلی بریفنگ دی تھی۔ اگلے پچھتر دنوں میں دنیا کے سب سے طاقت ور منصب پر براجمان ہونے والے اوباما کی تب عمر صرف سینتالیس برس تھی۔ ذرا ٹہریئے! ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس کا منصب امریکی طاقت کے ستونوں میں کیا اہمیت رکھتا ہے ، اس کو جان لیتے ہیں۔ دنیابھر میں امریکی جاسوسی کی تمام کارروائیوں ، اُس کے خفیہ ایجنٹوں کی تفصیلات اور خفیہ دنیا میں امریکی کھیل کی تمام مکاریوں کے متعلق اگر کوئی ایک شخص پوری دنیا میں پوری طرح آگاہ ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف ’’ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس‘‘ ہوتا ہے۔ اور کوئی نہیں، سی آئی اے کا سربراہ بھی نہیں۔ بسا اوقات خود صدرِ امریکا بھی نہیں۔ اِسی لیے امریکی صدر کو نیشنل انٹلیجنس کی زبان میں’’The Firs Customer ‘‘ یعنی پہلا گاہک کہا جاتا ہے۔

تب امریکا کے پہلے گاہک اوباما کو ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس میک کونیل نے دنیابھر میں پھیلے ہوئے خفیہ امریکی کھیل سے آگاہ کیا اور پھر پاکستان کے بارے میں بھی بتایا۔ میک کونیل نے نو منتخب صد رکو بتا یا کہ

’’پاکستان امریکا کا بے ایمان اتحادی ہے ۔۔۔۔پاکستانی جھوٹ پر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

میک کونیل امریکا کی عراق اور افغانستان جنگ کے عروج کے ایام میں امریکی صدر کو یہ کہہ رہے تھے کہ

’’امریکی سلامتی کو فوری خطرات نہ تو افغانستان سے لاحق ہیں اور نہ ہی عراق سے ، اس وقت اصل خطرہ پاکستان
سے ہے۔ اس کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور اس کے پا س سو کے قریب ایٹم بم ہیں۔‘‘

امریکی مصنف باب وڈ ورڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میک کونیل نے اس بریفنگ میں خاص طور پر آئی ایس آئی کے بارے میں یہ کہا کہ

’’Dealing with the ISI would break your heart if you did it long enough‘‘

(آئی ایس آئی کے ساتھ کچھ عرصے تک معاملات کرتے ہوئے آپ کو دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔ )

پاک امریکا تعلقات کے باب میں ہم ایک بنیادی بات نظر انداز کرتے ہیں کہ امریکا پاکستان کو مسائل کے حل کے طور پر نہیں بلکہ مسائل کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ بھی ایک غلط تصور ہے کہ امریکا کے اس نقطۂ نظر کی تشکیل مکمل طور پر بھارت کے مرہون منت ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی تمام تو کوششیں اِسی رخ پر ہوتی ہیں مگر امریکی نقطۂ نظر کی تشکیل میں کچھ اور محرکات بھی ہیں۔
۲۰۰۸ء کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنے برسوں کی خوں ریزی کے باوجود بھی امریکی طرز فکر و عمل میں آج بھی کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔سب کچھ جوں کا توں ہے۔پاکستان مسائل کے حل کے طور پر نہیں ، مسائل کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پھر سوال بالکل سادہ رہ جاتا ہے، وزیر اعظم نوازشریف نے دورۂ امریکا کیوں کیا ہے؟ اُ ن سے ایک روز قبل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر چار روزہ دورہ کرکے وطن پہنچے۔ اُن کی آمد کا انتظار کرنے کے لیے وزیراعظم نے اپنے دورے کو ایک روز ملتوی کیا ۔ پھر

اُن کی واپسی کے چند روز بعد چیف آف آرمی اسٹاف امریکا روانہ ہو جائیں گے۔ درمیان میں میاں نوازشریف نے ایسا کیا کردیا ہے جو پہلے اور بعد میں جانے والے نہیں کر پائیں گے۔

پاکستانی وزیر اعظم میاں نوازشریف نے ایک ایسے صدر سے ملاقات کی ہے جو عملاً اب اپاہج ہونے لگا ہے۔ اپنی آٹھ سالہ میعادِ صدارت کے اس آخری سال اوباما کا حال وہی ہو چکا ہے جو روایتاًوائٹ ہاؤس سے جاتے ہر صدر امریکا کا ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر چاہتے ہوئے بھی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کراسکا۔ اور اُنہیں اپنے ہی اعلان کر دہ منصوبے سے انحراف کرتے ہوئے امریکی افواج کی افغانستان کی مدتِ قیام میں توسیع کرنی پڑی۔یہ وہی صدر ہے جس نے امن کا نوبیل انعام لے رکھا ہے اور جس پر اب نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کو بھی افسوس ہے۔ (افغان پالیسی اس کی ایک مثال ہے)

امریکا کی پاکستان میں تمام دلچسپی صرف افغانستان کے تناظر میں ہے جہاں وہ پاکستان کو مسئلے کے حل کے بجائےمسئلے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔

یاد کیجیے! سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے پاکستان کے دورے میں یقین دلایا تھا کہ افغان جہاد میں پاکستان کو تنہا چھوڑنے کے نہایت غلط نتائج نکلے تھے، لہذا اب امریکا پاکستان کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ مگر یہ اس کے بعد ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکطرفہ تعاون پاکر پاکستان کو نظر انداز کر دیا گیا اور بھارت کے لیے ایک پسندیدگی پر مبنی پالیسی بنا لی گئی۔ اگر چہ امریکا نے عین افغان جنگ کے دوران میں ہی پاکستان کے حوالے سے اپنے تیور بدل لیے تھے اور بھارت کے لیے یہ جنگجو شہزادی کنڈولیزارائس نے کہا تھا کہ یہ ایک منفرد ملک کے ساتھ ہمارے منفرد تعلقات ہیں۔

افغانستان میں امریکی پالیسی کی تبدیلی کے بعد اب ایک بار پھرامریکا کو پاکستان کی ضرور ت ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان کے لیے اہداف ہیں اور وہ اس کی تکمیل بھی کرانے کے قابل ہے مگر ہمارے پاس کیا ہے؟امریکا کی پاکستان میں تمام دلچسپی صرف افغانستان کے تناظر میں ہے جہاں وہ پاکستان کو مسئلے کے حل کے بجائے مسئلے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے ہمارے گلوں میں لٹکے ڈھولوں سے بجانے کے لیے جو کچھ بھی ہو مگر امریکی کانوں تک اُس کی آوازیں نہیں پہنچتیں۔ اوباما نے پچھلے دنوں افغان پالیسی کے بیان میں پاکستان کا ذکر اسی تناظر میں کیا ہے۔اس ضمن میں بھی سمجھنے کا نکتہ یہی ہے کہ افغان پالیسی پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر پینٹاگون کی پالیسی غالب ہے ۔پاکستان کے ساتھ امریکا کے تمام معاملات سلامتی کے حوالے سے قائم ہیں ۔ یا اُس کے گرد مرتکز ہیں۔ چنانچہ یہاں جمہوری حکمرانوں سے زیادہ فوجی حلقوں سے معاملات میں امریکا زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ اسی کا اشارہ فارن پالیسی میگزین کی تازہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ مذاکرات زیادہ تر سلامتی معاملات پر مرتکز ہوں گے۔ چنانچہ دونوں ممالک کے رہنماوؤں کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ جوہری طور پر اِسی نکتے کے گرد گردش کرتا ہے۔ جس میں پاکستان نے امریکی خواہشات کے مطابق امریکا کو حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے متعلق نئی یقین دہانیاں کر ادی ہیں۔ ان میں سے پہلا نکتہ امریکا کی نئی افغان پالیسی اور دوسرا بھارت سے امریکی تعلقات کی نئی تہہ داریوں کا تناظر رکھتا ہے۔ پاکستان کے اپنے زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ چنانچہ ایک سال بعد جب امریکا کا نیا صدر منتخب ہوگا تو ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس اُس پہلے امریکی گاہک کو یہ پھر بتا رہا ہوگا کہ

’’پاکستان امریکا کا بے ایمان اتحادی ہے ۔۔۔۔پاکستانی جھوٹ پر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
باقی اعلامیے میں جمہوریت ، تجارت اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کی جو ستائش کی گئی ہے تو اس طرح کی شاعری عام طور پر اس نوع کے اعلامیوں میں ہی کی جاتی ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا وجود - منگل 25 اکتوبر 2022

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کی اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک ب...

عمران خان نااہلی پاکستان کا اندرونی معاملہ، دخل اندازی نہیں کرسکتے، امریکا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ وجود - منگل 27 ستمبر 2022

امریکا میں چار بہنوں نے 389 سال کی مجموعی عمر کا گینیز عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا ہے۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا شہر سیو فالز سے تعلق رکھنے والی چاروں بہنوں کی مجموعی عمر 22 اگست کے مطابق 389 سال اور 197 دن ہے۔ ان بہنوں میں 101 سالہ آرلووین جانسن، 99 سالہ مارسین جانسن، 96 سالہ ڈو...

چار بہنوں کا 389 سال کی مجموعی عمر کا عالمی ریکارڈ

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

پاکستان ، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات مکمل ، نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے، ترجمان افغان طالبان وجود - هفته 18 جون 2022

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے پاکستان اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے درمیان کابل میں دو دن قبل مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں، ممکن ہے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مذاکرات ناکام ہوئے تو کسی کو افغان سرزمین پاکستان ...

پاکستان ، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات مکمل ، نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے، ترجمان افغان طالبان

ون ڈے رینکنگ: پاکستان نے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی وجود - هفته 18 جون 2022

پاکستان نے آئی سی سی کی تازہ ترین ون ڈے رینکنگ میں ایک درجہ مزید ترقی کرتے ہوئے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی۔ گزشتہ روز سری لنکا نے دوسرے ایک روزہ میچ میں آسٹریلیا کو 26 رنز سے شکست دے کر 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز ایک، ایک سے برابر کردی تھی، سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹ...

ون ڈے رینکنگ: پاکستان نے آسٹریلیا سے تیسری پوزیشن چھین لی

مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر