وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

منگل 07 مئی 2024 مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

معصوم مرادآبادی

کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ، لیکن اس کہاوت میں اب الیکشن بھی شامل ہوگیا ہے ۔ عام انتخابات کے دومرحلوں کی پولنگ مکمل ہوچکی ہے ۔ دونوں ہی مرحلوں میں پولنگ کا فیصد کم رہا اور یہ بی جے پی کے لیے خاصی تشویش کی بات ہے ۔ عام خیال یہ ہے کہ اس بار بی جے پی کے حق میں کوئی لہر نہیں ہے ۔ الیکشن جیتنے کے لیے اس نے جو ہتھکنڈے اپنائے تھے وہ پوری طرح فیل ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اپنے آزمودہ ایجنڈے پرواپس آگئی ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت کاوہی آزمودہ ایجنڈا، جس کے ذریعہ اس نے تمام سیاسی قوت حاصل کی ہے ۔ اس بار بی جے پی براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے ۔ اس کا اصل نشانہ کانگریس ہے یا مسلمان؟ یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا، لیکن اتنا واضح ہے کہ وہ کانگریس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کررہی ہے ،جس سے ملک کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے ۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے نتیجے میں کہیں کوئی فساد برپا نہ ہوجائے ۔پچھلے ایک ہفتہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی، بی جے پی صدر جے پی نڈا، وزیرداخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیانوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کا لب لباب یہ ہیکہ کانگریس اگر اقتدار میں آگئی تو وہ ملک کی ساری دولت ہندوؤں سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ ملک میں شرعی نظام قایم ہوجائے گا اور پسماندہ ذاتوں کو ملنے والا ریزرویشن ان سے چھین کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے گزشتہ جمعہ کو بہار کے ارریہ ضلع میں اپنی انتخابی ریلی کے دوران کہا کہکانگریس کرناٹک کی طرح اوبی سی کوٹے کے تحت مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہتی ہے ، وہ بہار میں بھی ایسا ہی کرے گی۔ مستقبل میں وہ ایس سی ایس ٹی کو ملنے والے ریزرویشن میں کٹوتی کرکے وہ بھی مسلمانوں کو دے سکتی ہے ۔حالانکہ کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا نے وزیراعظم کے اس بیان کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے انھیں چیلنج بھی کیا ہے لیکن وزیراعظم مسلمانوں کے خلاف بیان بازی میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز اور مسلم مخالف بیان دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف ہزاروں شکایتیں درج کرائی جاچکی ہیں، لیکن وہاں بھی کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں نہیں آرہی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے کی بجائے ان کی پارٹی بی جے پی کو ایک ایسا نوٹس جاری کیا ہے جس میں وزیراعظم کا نام تک نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی لیڈرکی اشتعال انگیزی کے خلاف درج کرائی گئی شکایتوں کی پوچھ گچھ اس کی پارٹی سے کی جارہی ہے اور اس میں بھی اس کا نام درج نہیں ہے ۔الیکشن کمیشن کا موجودہ کردار کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ بیان بازی کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعظم نریندرمودی اس وقت پوری طرح الیکشن کے موڈ میں ہیں۔وہ جب اس حالت میں ہوتے ہیں تو انھیں وزیراعظم کے عہدے کاوقار ملحوظ نہیں رہتا۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بقول خود وہ ایک سو چالیس کروڑ ہندوستانیوں کے وزیراعظم ہیں اور ان ہی کے قول کے مطابق یہ تمام ہندوستانی ان کا اپناکنبہ ہیں۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کسی نے ان کیذاتی خاندان کے بارے میں سوال اٹھایا تھا تو انھوں نے خم ٹھونک کرکہا تھا کہ تمام ہندوستانی ان کے خاندان کا حصہ ہیں، جن کی تعداد ایک سو چالیس کروڑ ہے ۔اگر ان کا یہ بیان صحیح ہے تو پھر انھوں نے اپنے ہی خاندان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کو گھس پیٹھیا کیوں قرار دیا ہے ؟سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان مسلمانوں کو اپنے خاندان کا حصہ نہیں سمجھتے جن کے خلاف انھوں نے گزشتہ اتوار کو راجستھانمیں آخری درجے کی اشتعال انگیزی کی ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس کانگریسکی آڑ میں نشانہ بنارہے ہیں جو اس وقت مسلمانوں سے کوسوں دور ہے اوروہ ان کا نام لینے سے بھی ڈررہی ہے ۔یہ کانگریس پارٹی کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اس کا اقلیتی ڈیپارٹمنٹ بالکل ٹھپ پڑا ہوا ہے اور وہاں کوئی سرگرمی نہیں ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے عام انتخابات میں اس ڈیپارٹمنٹ میں خاص سرگرمی دیکھی جاتی تھی۔ اتنا ہی نہیں کانگریس نے اپنے تمام مسلم چہروں کو گھر بٹھا دیا ہے اور ان سے کوئی کام نہیں لیا جارہا ہے ۔ ایسا اس خوف سے کیا گیا ہے کہ کہیں بی جے پی کانگریس پر مسلم پرستی کا الزام لگاکر ہندوؤں کو ورغلانے کا کام نہ کرے ، لیکن کانگریس کی بدبختی یہ ہے کہ مسلمانوں سے دوری بنانے کے باوجود بی جے پی اس پر مسلسل مسلمانوں کی ‘منہ بھرائی’کے الزامات لگارہی ہے ۔ایک ایسی منہ بھرائی جس کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ بی جے پی نے حکمت عملی کے تحت اس وقت مسلمانوں کو ملک میں بیگانہ بنادیا ہے ۔ ایسا بیگانہ کہ کوئی بھی سیکولر پارٹی ان کانام لینے سے ڈرتی ہے ۔کانگریس ہی نہیں سماجوادی پارٹی،آرجے ڈی، این سی پی، اورترنمول کانگریس سب کا یہی حال ہے۔
وزیراعظم مودی نے حالیہ الیکشن میں سب سے پہلے کانگریس کو اس کے انتخابی منشور کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا تھا کہ اس پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔حالانکہ اس منشور میں مسلمانوں کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں ہے ۔بار بار کے مطالبوں کے باوجود وزیراعظم کانگریس کے منشور میں مسلم لیگ کی چھاپ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے ۔اب انھوں نے اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا ہے کہکانگریس اس ملک کے ہندوؤں سے سب کچھ چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ یہاں تک کہ عورتوں کا منگل سوتر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ انھوں نے گزشتہ اتوار کو راجستھان کے بانسواڑہ میں کانگریس کا نام لے کر کہا کہ پہلے جب ان کی سرکار تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے ۔ اس کا مطلب یہجائیداد اکٹھا کرکے کس کو بانٹیں گے ؟ جن کے زیادہ بچے ہیں، ان کو بانٹیں گے ، گھس پیٹھیوں کو بانٹیں گے ۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو بانٹ دیا جائے گا۔ آپ کو منظور ہے ؟اتنا ہی نہیں وزیراعظم مودی نے اس کے دوروز بعد جے پور کی انتخابی ریلی میں دلتوں اور آدیواسیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے ہوئے کہا کہ”کانگریس دلتوں اور آدی واسیوں کا ریزرویشن ختم کرکے مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے ۔
وزیراعظم کے اس بیان کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ انتہائی قابل اعتراض اور لائق مذمت ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نے اس ملک کے آئین پر ہاتھ رکھ کر یہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ ملک کے سبھی باشندوں کے ساتھ انصاف کریں گے اور ان کے ساتھ مذہب، ذات پات اور عقیدے کی بنیاد پر کوئی بھیدبھاؤ نہیں کریں گے ۔لیکن جب ہم اس کی روشنی میں ان کے بیان کا جائزہ لیتے ہیں تو بڑی مایوس کن صورتحال ابھرتی۔ اس بیان میں انھوں نے دستور کی ہی دھجیاں نہیں اڑائی ہیں بلکہ حکمرانی کے اصولوں کو بھی پاش پاش کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس بیان پر پورے ملک میں شدید ردعمل ہوا ہے اور سبھی سیکولر اور انصاف پسند عناصر نے اس کی پرزور مذمت کی ہے ۔ مگر اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی سردمہری ناقابل فہم ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن نے واضح طورپر کہا تھا کہ کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت برداشت نہیں کی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، لیکن اب جبکہ وزیراعظم کے انتہائی اشتعال انگیز بیان کے خلافہزاروں شکایتیں درج ہوچکی ہیں توالیکشن کمیشن نے راست کارروائی کرنے کی بجائے بی جے پی کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم کے خلاف کارروائی جوکھم نہیں اٹھانا چاہتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر