وجود

... loading ...

وجود
وجود

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

منگل 07 مئی 2024 فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

جاوید محمود

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کو بیدار کرنے میں اور دلوں کو بدلنے میں رب العالمین کو ایک لمحہ لگتا ہے۔ 18اپریل سے امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہروں نے شدت اختیار کر لی ہے ۔یہ مظاہرے امریکہ کی معروف یونیورسٹی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ ہار ورڈ اور ییل یونیورسٹی سمیت سمیت آئیوی لیگ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مختلف ریاستوں کی یونیورسٹیوں تک پھیل گئے جن میں امریکہ بھر کی کم از کم 50 یونیورسٹیوں نے شرکت کی ۔ طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی کی جائے۔ اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کی بند کی جائیں اور ان کی یونیورسٹیوں سے ایسے تحقیقی پروگرام کے لیے فنڈنگ ختم کی جائے جو اسرائیل کی جنگی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسی طرح کے مظاہرے تیزی سے بیرون ملک پھیل گئے۔ کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی اور کون کوریٹا یونیورسٹی برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن اور ایڈنبرا یونیورسٹی آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی اور یونیورسٹی آف میلبورن اور فرانس کے شہر پیرس میں سائنس ہو جیسی یونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کے مظاہرے ہوئے۔
یو ایس اے ٹوڈے کی اطلاع کے مطابق لندن سے یورپ بھر میں یونیورسٹی آف کیمپس میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں کئی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی بڑی ریاستوں کے شہروں میں اور یونیورسٹیوں میں فری فری فلسطین فری فری فلسطین کے نعرے گونج رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کے خطبے میں بھی فلسطین کے حوالے سے تفصیلی طور پر بتایا گیا اور زور دیا گیا کہ طالب علموں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہرہ ایک پرانی روایات ہے۔ اپریل 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف کولمبیا کے طالب علموں کے بڑے پیمانے پر احتجاج نے امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا جس نے امریکی معاشرے کی جنگ مخالف آواز کو عروج پر پہنچا دیا اور آخر کار اس وقت کے امریکی صدر جانسن نے صدارتی انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ شاید یہی وہ چیز ہے جو براہ راست امریکی سیاسی حلقوں کی دردناک یادوں کو بیدار کرتی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ اور فیکلٹی ممبرز کے پرامن اجتماعات کے سامنے امریکی حکومت نے( جس نے ہمیں ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کا پرچار کیا ہے) غیر متوقع طور پر کریک ڈاؤن کیا اور سینکڑوں طلبہ اور فیکلٹی ممبرز کو گرفتار کر لیا ۔کولمبیا کی خاتون پروفیسر کو زمین پر پھینکا گیا اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا اور امریکی پولیس نے متعدد یونیورسٹیوں میں مظاہرین کو بھگانے کے لیے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا اور پولیس کی جانب سے طلبہ پروفیسرز اور یہاں تک کہ میڈیا رپورٹرز کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تصاویر امریکہ کے مین ا سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ امریکی کانگرس کے اسپیکر مائک جانسن نے جنگ مخالف مظاہروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے خود کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا نیشنل گارڈ کو بھیجنے کی دھمکی دی اور مظاہرین کو یہود مخالف قرار دے دیا۔طلبہ نے دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے فری فری فلسطین کے نعرے بھرپور طریقے سے لگائے اور فرام ریور ٹو سی فلسطین وِل بھی فری( دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا) اس کے علاوہ اکوپیشن نو مور یعنی قبضہ مزید نہیں اور لندن ٹو غزہ لونگ لیو انتفادہ یعنی لندن سے غزہ تک انتفادہ زندہ بادکے نعرے لگائے گئے۔
امریکہ میں یہود مخالف انتہائی حساس لفظ ہے اور یہ اسرائیل کے لیے بھی مستقل تشویش کا باعث ہے ۔اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے امریکی طالب علموں کو ٹھگ قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔ انٹیلی جنس موساد نے مظاہروں میں شریک طلبہ کو ان کی ڈگریوں اور ملازمتوں سے محروم کرنے کی براہ راست دھمکی بھی دی۔ امریکہ کے مین اسٹریم میڈیا نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی حمایت کا اظہار کیا۔ لوگ یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کہاں ہے؟ آزادیٔ اظہار اور انسانی حقوق کا تحفظ کہاں ہے؟ عالمی میڈیا نے ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ تقریبا 35 ہزار سے زائد ہلاکتوں اور 80 ہزار سے زائد زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ سینیٹر نے اسرائیلی وزیراعظم کو متنبہ کیا کہ وہ امریکیوں کی انٹیلی جنس کی توہین نہ کریں اور یہود مخالف ٹوپیاں پہنا کر امریکی طالب علموں کی توہین بند کریں۔ دوسری جانب احتجاج کرنے والے طلبہ کا منظم انداز امریکی سیاستدانوں کے لیے ایک بہانہ فراہم کرتا ہے جو الزام تراشی بیان بازی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کانگریس کے ریپبلکن رکن کارلوس گیمز نے نیوز ویک کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ چین امریکی کالج کیمپس میں مظاہروں کی حمایت کر رہا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں تو وہ کوئی واضح جواب دینے سے قاصر تھے۔ ادھر امریکی کانگریس کی سابق ا سپیکر نینسی پلوسی نے ان دنوں یہ دعویٰ کیا کہ یہ روس ہی ہے جو فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی میں امریکی طالب علموں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس پر روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جواب دیا کہ اسے صرف امریکیوں اور جمہوریت کی توہین کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی یونیورسٹی میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ ازادی اظہار انسانی حقوق اور اخلاقی انصاف پر ہمیشہ فخر کرنے والا امریکہ اب کمزور اور غیر پر اعتماد ہے۔ انسانی فطرت کی بیداری اور سیاسی حساب کتاب کے درمیان مقابلے میں امریکی معاشرہ زیادہ تقسیم کا شکار بن گیا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے مظاہرے سادہ انسانی شعور سے ہوئے تھے۔ اگر زبردستی کے ساتھ چین سے منسلک کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ چین ہمیشہ امن اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ نہ صرف چین کا انتخاب ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی بھاری اکثریت کا اتفاق رائے بھی ہے جس کی عکاسی نہ صرف 25 مارچ کو منظور کی گئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2728میں ہوئی ہے، بلکہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں نظر آتی ہے۔ راستبازوں کے لیے مدد زیادہ جبکہ ظالموں کے لیے مدد کم ملتی ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل انسانی معاشرے کے مخالف نہ بنیں،اپنے عوام سمیت عالمی برادری کی آواز پر توجہ دیں۔ فوری طور پر جنگ بندی کریں ۔فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کریں کیونکہ مشترکہ طور پر بین الاقوامی انصاف اور عالمی امن کو برقرار رکھنا ہی انسانیت کے لیے صحیح راستہ ہے۔
امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں اور 50سے زیادہ بڑی یونیورسٹیوں میں کھلے عام ”فری فری فلسطین، فری فری فلسطین ”کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اتنی مرتبہ یہ نعرے سنتے ہیں کہ رات سوتے ہوئے بھی میرے کان میں یہ گونجتے ہیں ۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر