... loading ...
چرچل نے کہا تھا: رویہ بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر یہ ایک بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ ‘‘دہشت گردی کے متعلق ہمارا رویہ کیاہے؟ اگر اس ایک نکتے پر ہی غور کر لیاجائے تو ہماری قومی نفسیات ، انفرادی عادات اور اجتماعی حرکیات کا پورا ماجرا سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار آج سے تو نہیں ہے۔1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یہ ...
دستر خوانی قبیلے کی یہ خواہش ہے کہ عام لوگ اس نظام کی حفاظت کے لیے ترک عوام کی طرح قربانی دیں۔ اُس نظام کی حفاظت کے لیے جس کے وہ دراصل فیض یافتہ ہیں مگر عام لوگ اسے جمہوریت کے نام پر بچائیں۔ حریتِ فکر وہ سرشار کرنے والا جذبہ ہے جسے انسان اپنے شرف کے ساتھ منسلک کرکے دیکھتا ہے۔ سرم...
یادش بخیر !میں اُن اوراق کو پلٹ رہا ہوں۔ جو کبھی ایک کتاب کا مسودہ تھے۔ کتاب چھپ نہ سکی، کیونکہ میر خلیل الرحمان بہت طاقتور تھے اور پاکستان کے کسی پبلشنگ ہاؤس میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اُن کے حکم کی سرتابی کرتے۔ کتاب کا مسودہ دربدر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ حُسن اتفاق سے اس خاکسار کے...
یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہو...
امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر ن...
یہ ہونا تھا! پاکستان کو اس کی تاریخ اور تہذیب سے کاٹنے کے ایک طویل اور مسلسل چلے آتے منصوبے میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی ہے۔ اس لیے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ پیمرا حمزہ علی عباسی پر پابندی کو مستقل برقرار رکھ پاتا۔ درحقیقت اس نوع کے اقدامات کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہ...
سوال اُٹھانا جرم نہیں مگر یاوہ گوئی!سوال علم کی کلید ہے۔ انسانی علوم کی تمام گرہیں سوال کی انگلیوں سے کُھلتی ہیں۔ مگر سوال اُٹھانے والے کے لیے ایک میرٹ بھی مقرر ہے۔ سوال جاہل کا نہیں عالم کا ہوتا ہے۔ استاد نے فرمایا کہ سوال پہاڑ کی چوٹیوں کی طرح ہوتے ہیں اور جواب پہاڑ کے دامنوں ک...
نوازشریف سے گورنر ہاؤس پنجاب میں ملنے والے صحافیوں اور اینکرز کے رشحات ہائے قلم اور تڑاق پڑاق زبانوں سے جو کچھ برآمد ہوا ہے ، اس کا جائزہ لیا جائے تو بآسانی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمران برباد کیوں ہوتے ہیں؟ اور وہ کیوں امید ِ لطف پہ ایوان کجکلاہ میں بیٹھی مخلوق پر...
قسمت ہمیشہ یاوری نہیں کرتی۔ بآلاخر آدمی کو اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے اُصول زیادہ کڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حیات کے اجتماعی شعبوں میں ناانصافی کا مرتکب بے نقاب ہوئے بغیر نظروں سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ کائنات کے سب سے محبوب انسان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشاد مبارک ہ...
کیا نوازشریف اب اپنے لمحۂ برحق سے دوچار ہونے والے ہیں! تقدیر کی آواز دائم کہیں سے گونجتی ہے،مگرکوئی گوشِ ہوش تو رکھتا ہو! آدمی اپنی تباہی کے اسباب خارج میں ڈھونڈتا ہے ،مگر یہ ہمیشہ داخل میں ہوتے ہیں۔ انسان کا خارج محض اس میں مددگار ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا: آہ یہ ظالم تل...
افسوس منفعت بخش رجحانات نے ہمیں بھی کہیں کا نہ چھوڑا!شاعر پر تب وہ گھڑی اُتری تھی جب اُس نے راز فاش کردیا! گندم نے ہمیں خلدِ بریں کا نہیں رکھا لیکن غمِ گندم نے کہیں کا نہیں رکھا شریف خاندان کے حامی دانشوروں کا مسئلہ ’’گندم‘‘ کا نہیں’’غم گندم کا ہے! افسوس، افسوس تاری...
ارسطو نے قبل از مسیح کی دانش میں یہ راز منکشف کررکھا ہے کہ ’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات( یعنی چھوٹے )ہی پھنستے ہیں۔بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔‘‘ مشرف چلا گیامگر نوازشریف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو قانون کا سامنا کر س...
خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے گرہ کشائی کی: کسی آدمی پر بھروسا نہ کرو، جب تک کہ اُسے طمع کی حالت میں آزما نہ لو۔ ‘‘ رہنما کے لیے معیار اور بھی کڑے رکھے گئے۔ اُن کے باب میں کسی رعایت کا دروازہ تو کجا کھڑکی تک کھلی نہ چھوڑی گئی۔ مگر پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں تمام رعایتیں صرف ...
کیا ہمارے پاس کوئی اور چارہ کار رہ گیا ہے؟ نئے سامراج کو آداب!اب یہ سوال غیر متعلق ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کس کا ہے؟ یہاں ایک رائیونڈ محل ہے۔جو شریف برادران کی والدہ کے نام ہے۔ محل وقوع اور تعمیر کے اعتبار سے یہ ایک مختلف دنیا ہے۔ جہاں نوازشریف کبھی مودی اور کبھی شرمیلا ٹیگو ر س...
خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کی حکمت نہیں چلتی، اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی۔‘‘میاں نواز شریف کی حکومت ، حکمت سے خالی اور اخلاقیات سے عاری ایک خوف ناک انجام کا چہرہ دیکھنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے تمام ذرائع سے ایک ایک کرکے دور ہوچکی ہے یا کردی گئی ہے...
ایک دانشور نے کہا تھا کہ’’ میں انصاف کو مانتا تو ہوں مگر اس کے دفاع سے زیادہ مجھے میرے عزیزوں کا دفاع عزیز ہے۔‘‘وزیراعظم میاں نوازشریف نے چیئرمین نیب کو ڈانٹا ہے تو بآنداز دگر یہی کہا ہے۔ قومی مقدر پر چھائے تاریک سائے محیط سے محیط تر ہو رہے ہیں۔ اور رہنماوؤں کو اپنی اپنی اور...
عقل کے اندھوں نے ہر چیز کو اُلٹا دیکھنے کی عادت پیدا کردی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ اداروں کے خسارے میں جانے کا نہیں بلکہ حکومتوں کی طرف سے بدعنوانی شعار کرنے کا ہے۔ اداروں کے خسارے کا سبب بھی خراب طرزِ حکمرانی ہے ۔ مگر اس کی ذمہ داری اُٹھانے کے بجائے حکومتیں اداروں کے مالیاتی خسارے ...
نجکاری سرمایہ داری نظام کا وہ منحوس گرداب ہے جس میں وہ پوری ریاست کو اپنا لقمۂ تر بناتی ہے۔ اس کے لئے عجیب عجیب بیانیے تخلیق کئے گئے ہیں۔ حکومتوں کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا فریب خوردہ فقرہ نجکاری کے جواز میں کہا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر یہ عامیانہ طرز فکر وہی لوگ اختیار ک...
اچھے بُرے کا بظاہر تاثر کی سطح پر ہونا اُس کی اصل حقیقت کا اعلان نہیں کرتا۔ایک زیادہ گہرے تجزیئے میں اچھی نظر آنے والی بعض بظاہر چیزیں زیادہ بُری بھی ثابت ہوتی ہیں ۔ نجکاری کا معاملہ اپنے بعض پہلووؤں میں کچھ اسی حقیقت کا عکاس ہے۔ نجکاری کے موقف کی حمایت بہت وسیع ہے۔ مگر اس م...
ایک اچھی زندگی موجود نہیں ہوتی، یہ مرحلہ وار ہوتی ہے۔ اسی لئے اچھی زندگی کو سمت میں ڈھونڈا جاتا ہے منزل میں نہیں۔ کاش زندگی کا یہ فلسفہ اجتماعی زندگی میں یاد رہتا۔ جمہوریت پسند ہی نہیں لوہے کی حکمرانی کے خواہاں بھی ایک طرح کے مغالطوں سے دوچار ہیں۔ منزل شاید دونوں ٹھیک دکھاتے ہیں ...
کیا ہم اپنی زندگی سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، ہمارا سچ افراد پر کیوں انحصار کرتا ہے؟ یہ تو زوال کی کہانی اور موت کی نشانی ہے۔ کوئی بھی نظام اگر افراد پر انحصار کرتا ہے، اپنے اُصولوں پر نہیں تو یہ اسباب مرگ میں سے سب سے بڑا سبب ہوگا۔افراد پر منحصر اس پورے نظام کے لئے عزیر بلوچ ...
جنرل راحیل شریف کی توسیع کے معاملے کو دراصل سیاسی حکومت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کاایک گورکھ دھندہ بنایا۔ یہ طاقت سے نہیں ایک طاقت ور کردار سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ کیا وزیر اعظم نے کہیں میکاؤلی کو بھی سن رکھا ہے جو کہتا ہے: ’’Politics have no relation to morals.‘‘ (سیاست کا اخلاقی...
عسکریت پسند ہم پر ہی نہیں ہمارے تصورات پر بھی حملہ آور ہیں اور اس میں کامیاب بھی!! پاکستان میں اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا دہشت گردی، تصور ِ حکمرانی، خاندانی سیاست، سیاسی و عسکری قیادتوں کے فاصلے؟ ہم ایک نہیں، مسائل کے انبار تلے دفن ہیں۔ مگر مسئلوں کاایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسئلے کو...
؍ دسمبر کے بعد اب 20؍ جنوری! یہ صرف تاریخ کا فرق ہے! اور کچھ نہیں۔ ایام کے اُلٹ پھیر میں ہم جہاں تھے وہیں پڑے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول سے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی تک ایک ہی کہانی ہے جو مسلسل چلی آتی ہے۔ کوئی غورو فکر نہیں۔ یکطرفہ بیانئے اور وہی پامال فقرے۔ بندوق زندگی کا سب...