وجود

... loading ...

وجود
وجود

ذمہ داری

جمعرات 18 فروری 2016 ذمہ داری

nawaz and nab

ایک دانشور نے کہا تھا کہ’’ میں انصاف کو مانتا تو ہوں مگر اس کے دفاع سے زیادہ مجھے میرے عزیزوں کا دفاع عزیز ہے۔‘‘وزیراعظم میاں نوازشریف نے چیئرمین نیب کو ڈانٹا ہے تو بآنداز دگر یہی کہا ہے۔

قومی مقدر پر چھائے تاریک سائے محیط سے محیط تر ہو رہے ہیں۔ اور رہنماوؤں کو اپنی اپنی اور اپنوں اپنوں کی پڑی ہے۔ ہم ایک غیر ہموار اخلاقی جغرافیہ میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک ہی جماعت کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ادوار کے بیانئے الگ الگ ہیں۔ جماعتیں صوبائیت کی شکار ہیں۔اور تمام کے تمام اہل اقتدار زمانہ جاہلیت کے عربی مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ

اُنصر اخاکَ ظالمااو مظلوما
(اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم)

عافیہ صدیقی کی مظلومیت یہ نہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہ اُس مظلوم عورت کو امریکی پروپیگنڈے کی یلغار میں رہنا پڑا۔ ایک سفاکانہ قید بھگتتے ہوئے اُسے اور اُس کے خاندان کو وہ تیر بھی سہنے پڑے ہیں جو امریکی سرمائے کی گود میں پلنے والے ذرائع ابلاغ کی کمانوں سے نکلتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کا ماجرا کیا ہے؟ مسلم لیگ نون برسراقتدار آنے سے پہلے آسمان سر پر اُٹھائے پھرتی تھی۔ پھر اقتدار میں آکر وہ اس مسئلے کو فراموش کر بیٹھی۔پیپلزپارٹی سوشل اقدار پر یقین رکھنے والی جماعت کے طور پر اپنا تعارف کراتی ہے مگر 1993ء میں اُس کی حکومت نے 27سرکاری اداروں کی نجکاری کی، مگر حزب اختلاف کے طور پر اُس نے ہمیشہ یہی منجن بیچا کہ قومی ادارے تو ماں کا زیور ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی کے دور میں ہونے والی نجکاری کے تمام عمل پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرتی رہتی ہے۔ مگر خود اپنے ادوار کی ثابت شدہ بدعنوانیوں پر بھی اُنگلی اُٹھانے نہیں دیتی۔ اس سے جمہوریت کی ماں مرجاتی ہے ۔ اور ترقی کی دیوی روٹھ جاتی ہے۔ بس یہی وہ غیر ہموار اخلاقی جغرافیہ ہے جس نے قومی زندگی کو بھی تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے۔ مگر میاں نوازشریف کے معاملے میں یہ واقعہ مزید بھیانک بن کر سامنے آتا ہے۔

وزیراعظم نوازشریف کی چیئرمین نیب کو ڈانٹ ڈپٹ محض طریقہ کار اور نیب کے تیور واطوار سے متعلق کوئی سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں پاکستان کے پورے سماج سے جڑے ایک سنگین مسئلے کا متعفن اندازِ فکر پوری طرح جھلکتا ، چھلکتا اور اُبلتا ہے۔ کاش وزیراعظم میاں نوازشریف اس موقع پر یہ بات نہ کہتے۔ وزیر اعظم کو نیب کی حرکتوں پراب جاکر تکلیف ہوئی ،جب معاملہ اُن کے اپنے حلقہ انتخاب یعنی صوبہ پنجاب تک جا پہنچا ہے۔ اُن کے ادوارِ اقتدار میں ہمیشہ دوسرے صوبے نیب کا نشانہ بنتے رہے۔ اس دورِ اقتدار میں بھی یہی ماجرا

ہے۔ کاروباری حلقے چیخ رہے ہیں ، ابھی دوروز پہلے کی بات ہے کہ سراج قاسم تیلی نے کہا کہ کیا سب کچھ کراچی میں خراب ہے، کیا سارے قوانین صرف کراچی کے لئے ہیں؟ تب شیر لسی پی کر اونگھ رہا تھا۔ کبھی اہلِ پنجاب نے غور ہی نہیں کیا کہ نوازشریف جب وفاق میں کوس لمن الملک بجاتے ہیں تو کراچی کے سرمایہ کار پریشان کیوں رہتے ہیں؟ ایف بی آر کا سارا دباؤ صرف کراچی کے کاروباری حلقوں پر ہی کیوں ہوتا ہے؟اس ضمن میں مایوسی اس قدر پھیل گئی ہے کہ نہایت سنجیدہ اور ایماندار کاروباری افراد بھی اب ملک میں رہنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ کچھ ہفتوں سے مسلسل ایسے افراد کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ نوازشریف اور اُن کے سمدھی اسحاق ڈار کے اقدامات کو دوسرے صوبوں کے ساتھ تعصبات کی بھیانک مثالیں دے کر دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ دو جمع دو چارکی طرح کے واقعات اور مثالیں دیتے ہیں۔ جن سے انکار کی خواہش کے باوجود انکار ممکن نہیں ہوتا۔

نوازشریف کو نیب سے شکایات ہیں مگر ایف آئی اے ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں کیا کرتی پھر رہی ہے؟ کبھی وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے’’ ایماندار‘‘وزیر داخلہ نے اس پر غور بھی کیا ہے۔ آصف علی زرداری کی طرف سے اُٹھائے گئے ڈاکٹر عاصم کے معاملے کو ایک طرف رکھیے، اس میں کچھ اور کھلاڑی بھی ملوث ہیں۔ مگر بول کے معاملے میں اس حکومت نے کیا کیا ہے؟ ایک ہی الزام میں کراچی اور اسلام آباد میں یکساں مقدمات درج ہوئے ، اب سات ماہ سے اوپر ہوتے ہیں ، ایف آئی اے نے مذکورہ ملزمان کے خلاف فردِ جرم تک عائد نہیں کی۔ مگر اس سے زیادہ بھیانک بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں درج مقدمے کے ملزمان کو ضمانتیں دے دی گئیں۔ اور اُسی مقدمے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو ضمانتیں نہیں مل رہیں۔ ریاست کے پاس ایک ہی الزام پرمبنی ایک ہی مقدمے میں ایک شہر کے ملزمان کو ضمانت دینے اور دوسرے شہر کے ملزمان کو ضمانتیں نہ ملنے کا کوئی اخلاقی جواز تو ہونا چاہئے۔ اگر نہیں تو پھر تعصبات کے دیو دھمالیں ڈالتے رہیں گے۔ ایف آئی اے کو قرار پھر بھی نہیں آرہا۔ اب اُس نے ایک دوسرا مقدمہ اے کے ڈی سیکورٹیز کے حوالے سے قائم کیا ہے جو اپنی نوعیت میں صرف پاکستان نہیں پوری دنیا کا منفرد مقدمہ ہے۔ ایف آئی اے اس میں بھی شہادتوں اور ثبوتوں کی حصولیابی میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اب ملزمان کو جیل میں پھنسائے رکھنے اور کچھ حکومت کے’’ دوستوں‘‘کو خوش رکھنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ ان دونوں مقدمات میں اٹارنی جنرل کا دفتر انصاف کی راہ میں رکاؤٹ بن کرکھڑا ہے۔ کیا وزیراعظم نوازشریف کو یہ چیزیں پریشان نہیں کرتیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی اور ملک میں ہو رہا ہے؟ حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے ’’ایماندار‘‘ وزیرداخلہ کوبھی پریس کانفرنسوں میں اپنی راست بازی کے تقریریں جھاڑنے کے علاوہ اور کسی چیز کی فکر نہیں۔ مگر اس ناہموار اور طاقت پر استوارمتعصبانہ اور جانبدارانہ طرزِعمل کو پاکستان کے موجودہ حالات میں کب تک جاری رکھا جاسکے گا؟ جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے خلاف جائز احتسابی عمل کو بھی صوبائیت کا مسئلہ بنادیتی ہے۔ جبکہ عام کاروباری افراد کے احتساب میں تمام ناجائز حربوں کے لئے سرکاری اداروں کے استعمال پر ذرا بھی نہیں ہچکچاتی۔ مورخ لارڈ ایکٹن نے ان حالات کو سمجھ کر ایک نتیجہ بیان کیا ہے کہ

’’حکومتوں کی طرف سے قانونی ذمہ داری پورے کرنے میں کمی پھر تاریخی ذمہ داری پوری کرکے کرنا پڑتی ہے۔‘‘
کیا پاکستان تاریخی ذمہ داری پوری کرنے کے دور میں داخل ہورہا ہے۔وزیراعظم کی چیئرمین نیب کو متعصبانہ سرزنش اسی کی نشاندہی کرتی ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

غیر قانونی لائسنس، زائد اثاثے، نیب کا عثمان بزدار کو گرفتار کرنے کا فیصلہ وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو غیر قانونی لائسنس اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نیب ذرائع نے بتایا کہ نیب ہیڈ کوارٹر نے نیب لاہور کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کے لیے 15 دن کا وقت دے...

غیر قانونی لائسنس، زائد اثاثے، نیب کا عثمان بزدار کو گرفتار کرنے کا فیصلہ

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

زائد اثاثوں کا الزام، نیب نے منظور وسان کے خلاف نیب انکوائری بند کر دی وجود - جمعه 02 ستمبر 2022

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر منظور وسان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی انکوائری شواہد نہ ملنے کے باعث بند کر دی۔ آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس میں نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا کہ منظور وسان کے...

زائد اثاثوں کا الزام، نیب نے منظور وسان کے خلاف نیب انکوائری بند کر دی

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

مخلوط حکومت جلد فیصلے نہیں کرسکتی، موجودہ حالات میں الیکشن واحد حل ہے، مریم نواز وجود - جمعرات 12 مئی 2022

پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج کا سربراہ محترم ہیں، پاکستانی فوج کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو ہر قسم کے داغ سے پاک ہو، نقل کے عادی شخص کو فوج کے آئینی دائرے میں رہ کرکام کرنے سے تکلیف ہے، مخلوط حکومت مختصر وقت میں فیصلے نہیں کرسکتی ،موجودہ حالا...

مخلوط حکومت جلد فیصلے نہیں کرسکتی، موجودہ حالات میں الیکشن واحد حل ہے، مریم نواز

نیب نے مختلف محکموں سے فرح خان کی جائیداد کی تفصیلات مانگ لیں وجود - بدھ 11 مئی 2022

قومی احتساب بیورو( نیب )نے فرح خان کے خلاف تحقیقات میں مختلف محکموں سے فرح کی جائیداد اور بینکوں سے اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشن کا ریکارڈ مانگ لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول کی سہیلی فرح خان اور اس کے شوہر کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کے معاملے میں نیب نے مختلف محکموں کو فرح...

نیب نے مختلف محکموں سے فرح خان کی جائیداد کی تفصیلات مانگ لیں

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر