وجود

... loading ...

وجود
وجود

تعاقب

منگل 26 اپریل 2016 تعاقب

nawaz-sharif

قسمت ہمیشہ یاوری نہیں کرتی۔ بآلاخر آدمی کو اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے اُصول زیادہ کڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حیات کے اجتماعی شعبوں میں ناانصافی کا مرتکب بے نقاب ہوئے بغیر نظروں سے اوجھل نہیں ہوپاتا۔ کائنات کے سب سے محبوب انسان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’کوئی اس دنیا سے اُٹھے گا نہیں یہاں تک کہ وہ جیسا ہے، دنیا پر ظاہر نہ کردیا جائے۔‘‘نوازشریف کے لبرل ازم نے اُنہیں اُس چھتری سے محروم کر دیا جو کبھی اُن کی نگہبان بن سکتی۔ اب وہ ہیں اور اپنے انجام کی طرف بڑھتے خود اُن کے اپنے اقدام۔نواز شریف کے خلاف اُن کی سیاسی زندگی میں خود اُن سے بڑھ کر اور کسی نے سازشیں نہیں کی۔ متنوع موضوعات کا شاعر شبنم رومانی، دیکھیے کہاں یاد آیا!

میرا دشمن ہے دوسرا ہر شخص
اور وہ دوسرا تو میں بھی ہوں
آئنہ ہے سب کی کمزوری
آپ کیا، خود نما تو میں بھی ہوں

آسمان سے آنے والی باقی تین کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں! مگر اب بھی حکمت کے کچھ موتی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں کائنات کے رب کی رہنمائی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ توریت میں لکھا ہے کہ ’’اہلکار کی ہر وہ بے انصافی اور ظلم جو حکمران کی نظروں میں آجائے اور حکمران پھر بھی خاموش رہے، تو اُسے حکمران کی ہی بے انصافی اور ظلم میں شمارکیا جائے گا۔‘‘ یہاں اہلکاروں کا بھی نہیں بیٹوں کا معاملہ ہے، اور بیٹوں کا بھی نہیں خو دنوازشریف کا معاملہ ہے۔ آخر کیسے تیرہ برس کے بچے، کروڑ پتی ہو سکتے ہیں کہ بیرون ملک جائیدادیں بنا لیں۔ یہ معاملہ دروغ در دروغ کی چادر میں لپٹا ہوا ہے۔ جسے جتنا کھولا جائے میاں نوازشریف خود کُھلتے بلکہ کَھلتے چلے جائیں گے۔ وزیر اعظم نوازشریف اپنے عجیب وغریب فیصلوں پر مُصرہیں اور اُن کے ڈھندورچیوں، طبلچیوں اور بغلچیوں نے اُن کی دیانت و امانت کا بار اُٹھاتے ہوئے آسمان بھی سر پر اُٹھا لیا ہے۔

مسئلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نہیں، خود نوازشریف کا ہے۔ وہ اکثر ایک جملے کی جُگالی فرماتے رہتے ہیں کہ اُنہوں نے اقتدار کی نہیں ہمیشہ اقدار کی سیاست کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کون سی اقدار اُنہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ملزم کے طور پر اپنے طریقۂ تفتیش اور اپنے منصفیں خود چُنیں ۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین یہ کہیں کہ اُن کی تفتیش رینجرز نہیں پولیس کے سپر د کی جائے۔یا ایان علی یہ کہے کہ مجھے فلاں نہیں فلاں عدالت میں لے جایا جائے۔ نوازشریف نے جوڈیشل کمیشن کا مینڈیٹ وسیع کرتے ہوئے اُسے پاکستان کے تمام ادوار کے تمام ہی افراد پر محیط کردیا ہے یعنی

ہمارے شوق کے آسودہ و خوش حال ہونے تک
تمہارے عارض وگیسو کا سودا ہو چکا ہو گا

نوازشریف جس مسئلے سے دوچار ہیں ، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اُسی سے دوچار ہیں۔کیا اُنہوں نے یہ دلیل اختیار کی ہے کہ جدید تاریخ میں 1721ء سے شروع ہونے والے برطانوی وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے والے اب تک تقریباً 53وزرارئے اعظم اور پارلیمنٹ کے اراکین ، ذرائع ابلاغ ، کاروباری حضرات اور باقی سب لوگوں کو بھی ایک جوڈیشل کمیشن کے سامنے پھینکا جارہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے ایک سادہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے اثاثے اور ٹیکس ریٹرن عوام کے سامنے رکھ دیئے۔ کیا وزیراعظم نوازشریف کی اقدار کی سیاست اُنہیں اس سے روکتی ہے؟ دراصل سیاست دانوں کے نام پر یہ مخلوق صرف جھوٹ ہی بولنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے کسی معاملے کو بھی عوام کی نظروں میں شفاف طریقے سے لانا ہی نہیں چاہتے۔

جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات بھی دنیا کی انوکھی تحقیقات ہونگیں ، جس میں ملزمان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بجائے عام لوگوں پر یہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ ان ملزمان کو ذرا ثبوتوں کے ساتھ گناہ گار تو ثابت کرکے دکھائیں۔ اس کا جائز طریقہ یہ تھا کہ جن افراد کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں وہ کمیشن کے سامنے پیش ہو کر یہ ثابت کرتے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں، کیسے کمائے گیے ہیں اور کیوں چھپائے گیے ہیں؟ اور کمیشن اُن کے موقف کی روشنی میں اپنی تحقیقات کرتا! مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کے نتیجے میں تمام حقائق عریاں بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی ابہام کے بغیر یہ امر واضح ہے کہ جوڈیشل کمیشن دراصل تحقیقات کے لیے نہیں بلکہ تحقیقات کے عوامی مطالبے پر مٹی ٖڈالنے کے لیے ہے۔ جس کا اظہار خود نوازشریف کے طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔ نوازشریف نے پاناما لیکس کے بعد جتنے بھی اقدامات اُٹھائے ہیں ، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کی افتاد طبع دراصل کن طغیانیوں ، جولانیوں اور روانیوں میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ اُنہوں نے لندن جاتے ہوئے ماسکو میں ایک مختصر اورمشکوک قیام کیا۔ نوازشریف نے لندن میں گھڑیاں خریدیں اور اپنے درزی سے ملاقات کی۔ حیرت انگیز طور پر اُن کے طبی معائنے کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ تمام ذمہ دار ذرائع متفق ہیں کہ نوازشریف کا دورہ لندن دراصل دوبنیادی مقاصد کے تحت تھا۔ اولاً : نوازشریف پاکستان میں بڑھتی ہوئی مشکلات کے باعث ایک مرتبہ پھر عالمی ضمانتوں کے لیے کوشاں تھے۔ جس کا اندازہ آئندہ چند دنوں میں تب ہو گا جب امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس امریکی صدر اوباما کا ایک خصوی پیغام لے کر پاکستان کا رخ کریں گی۔ ثانیاً: پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے یہ ضمانت لی جائے کہ اُن کی جماعت حزب اختلاف کے احتجاجی منصوبے میں شامل نہیں ہوگی۔بظاہر نوازشریف ان دونوں مقاصد کی تکمیل کے بعد خود بخود ہی کسی طبی معائنے کے بغیر ہی ٹھیک بلکہ ٹھیک ٹھاک ہو کر پاکستان لوٹے ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے نوازشریف کی لندن روانگی سے ذرا قبل حسین نواز کو سعودی عرب یہ جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنی آف شور کمپنیوں میں موجود رقوم کے لیے سعودی عرب سے ایسی کوئی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ یہ رقم پاکستان سے نہیں بلکہ سعودی عرب سے گئی ہے۔ اس ضمن میں اطلاع یہ ہے کہ یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا۔ سعودی عرب اب شریف خاندان کوپاکستان میں اثاثہ سمجھنے کے بجائے بوجھ سمجھنے لگا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس نوع کے بندوبست سے نوازشریف پاناما لیکس کے مسئلے سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشاد مبارک پھر دُہرالیجئے کہ’’کوئی اس دنیا سے اُٹھے گا نہیں یہاں تک کہ وہ جیسا ہے، دنیا پر ظاہر نہ کردیا جائے۔‘‘

بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ تقدیر نے اپنا تعاقب شروع کردیا ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس وجود - منگل 01 فروری 2022

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات  نااہلی کے خلاف درخواست واپس

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر