وجود

... loading ...

وجود
وجود

آپ اُٹھا لاتے ہیں ، جو تیر خطا ہوتا ہے !

پیر 25 اپریل 2016 آپ اُٹھا لاتے ہیں ، جو تیر خطا ہوتا ہے !

کیا نوازشریف اب اپنے لمحۂ برحق سے دوچار ہونے والے ہیں! تقدیر کی آواز دائم کہیں سے گونجتی ہے،مگرکوئی گوشِ ہوش تو رکھتا ہو!

آدمی اپنی تباہی کے اسباب خارج میں ڈھونڈتا ہے ،مگر یہ ہمیشہ داخل میں ہوتے ہیں۔ انسان کا خارج محض اس میں مددگار ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا:

آہ یہ ظالم تلخ حقیقت، جو بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے ، طوفاں سے ٹکرائے کم

امریکا کے سابق صدر نکسن نے اپنی مشہور عالَم کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں یہ نکتہ کسی اور طرح سے واشگاف کیا ہے۔
’’لیڈر کو اپنے مخالف سے اتنی کڑی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی جتنی خود اپنے مصنوعی اور تباہ کن خیالات سے لڑنی
پڑتی ہے۔‘‘

نکسن تاریخی تجربات کی روشنی میں اس پر اضافہ کرسکتے تھے کہ جو لیڈر بھی اس صورت حال سے دوچار ہو جائے ، اُس کی ناکامی نوشتہ ٔ دیوار ہوتی ہے۔ کیا نوازشریف کا خطاب اس کی ایک مثال ہے؟ اب کامل تیئس برس ہوتے ہیں ، نوازشریف نے 16؍ اپریل کو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ کسی سے ڈیکٹیشن لیں گے اور نہ اسمبلیاں تحلیل کریں گے اور نہ ہی استعفیٰ دیں گے۔‘‘ پھر کیا ہوا تھا؟ صرف دو روز بعد یعنی 18؍ اپریل کو صدر غلام اسحق خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ

’’اُن کی (نوازشریف) کی ہٹ دھرمی ، ضد اور عاقبت نااندیشی کا کچھ اندازہ آپ کو سابق وزیراعظم کی
کل کی تقریر سے ہو گیا ہوگا۔‘‘

1993 ء سے 2016ء کے درمیان مملکت خداداد پاکستان کے زمین وآسمان بدل گیے یہاں تک کہ شریف خاندان کی دولت کے انبار بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیے مگر نوازشریف سیاسی طور پر جہاں تھے وہیں رہے۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھرخود کو 1993ء اور 1999ء کے اُسی اُسلوب میں خود کو ڈھال لیا ، جو اُنہیں خود شکنی سے دوچار اور پھر آخرِ کار لاچار کردیتا ہے۔ اُنہوں نے پاناما لیکس پر چند دنوں میں قوم سے دوسرے لایعنی خطاب میں وہی رویہ نیے الفاظ میں ظاہر کیاکہ ’’میں گیڈر بھبھکیوں میں نہیں آؤں گا۔‘‘نوازشریف کی سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ اپنے ہی خلاف سازش کرنے کے سب سے بڑے ماہر ہیں۔

کیوں نہ ہوں گے ہدفِ ناوک ِ بیداد کہ ہم
آپ اُٹھا لاتے ہیں ، جو تیر خطا ہوتا ہے

نوازشریف کا خطابِ لاجواب و بے حساب اپنے اندر خود کش بارود کے ایسے ہی شرارے اور دھماکے رکھتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ وقت گزاری کی بنیادی حکمت عملی کے تحت وہ ایسے اقدامات کا دانستہ اعلان کرتے ہیں جو بآلاخر مسترد کر دیئے جائیں۔ اور پھر اُنہیں نیے اعلان کے لیے مہلت ملتی رہے۔ پاناما لیکس پر اپنے پہلے خطاب میں اُنہوں نے ایک ریٹائرڈ جج کی پھلجڑی چھوڑی اور خود رولیکس گھڑی اور اپنے قامت کا لباس سینے والے درزی سے ملنے لندن تشریف لے گیے اور قوم کو طبی معائنے بلکہ بقول راست گو چودھری نثار’’ معالجیـ‘‘ کے اُدھیڑ بُن میں چھوڑ گیے۔اِس طرح معالجے کے بہانے قوم سے ہمدردی اور ماں کی دست بوسی کی نمائش میں قوم کو الگ تڑکے بلکہ چرکے لگائے۔ دنیا میں واحد نوازشریف ہی وہ آدمی ہے جو اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی دنیا تواپنی اپنی مائیں چھوڑ کر بس اُن کی اپنی ماں سے محبت کی ادائے خاص سے محبت کرتی ہے۔ ماں کی دست بوسی کی تصویر کے سیاسی استعمال کی ایسی توہین آمیز مثال پاکستانی سیاست میں خال خال ہی ملتی ہے۔

نوازشریف کے خطاب میں پاناما لیکس پر تحقیقات کا معاملہ ایک ایسے وقت میں چیف جسٹس پر چھوڑا گیا جب وہ صرف ایک روز بعد ترکی کے دورے پر چلے گیے جہاں سے اُن کی واپسی یکم مئی تک متوقع ہے۔ اس طرح پہلے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کی پھلجڑی چھوڑ کر وقت گزارا گیا اور اب چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کی بات انیس روز گزار کراُس وقت مانی گئی جب وہ ترکی کے دورے پر جانے والے تھے۔ پھر اس کمیشن کے قواعد وضوابط دانستہ ایسے بنائے گیے ہیں کہ اِسے حزب اختلاف مان کر ہی نہ دیں۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر کمیشن کے قواعد وضوابط کی بحث میں لمبا وقت گزارلیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کسی ناقابل آغاز نکتے سے ہی اس کا طوعاً وکرھاً آغاز ہو بھی جائے تو پھر کمیشن کے مینڈیٹ کو قیام پاکستان سے آج تک کے تمام معاملات کی چھان بین تک توسیع دے کر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اگر اس ملک پر خدانخواستہ حسین نواز کے بھی بیٹوں کے بیٹے آخر حکومت کر جائیں یا ’’جمہوری اقتدار ‘‘مریم نواز کی نسل کو ’’وراثتاً‘‘ منتقل ہوجائے اور وہ بھی ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ کے تسلسل کی خاطر وضع داری میں اپنی چار نسلوں تک دُکانِ اقتدار بڑھا جائے تو بھی کمیشن کا فیصلہ نہ آپائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ خود نوازشریف بھی یہی چاہتے ہیں کہ حزب اختلاف اس کمیشن کو ماننے سے انکار کردیں اور وقت گزاری ایک سیاسی شغل کے طور پر جاری رہے یہاں تک کہ جولائی کا مہینہ گزر جائے اورنیے فوجی سربراہ کا اعلان کر دیا جائے۔ نوازشریف نے اس بنیادی حکمت عملی کے ساتھ محض ماضی کی شکایتوں کو دُہرا کر اُن کے اقتدار سے دوہرے ہو جانے والے عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

نوازشریف نے اپنے خطاب میں خانگی جھگڑوں والا رویہ اختیار کیا ہے جس میں ساس بہو کے متعدد جھگڑوں اور صلح وصفائی کے بعد جب ایک بار پھر نیا جھگڑا ہوتا ہے تو دونوں ہی اپنی شکایتوں کا آغاز پہلے جھگڑے سے کرتی ہیں۔ اس کے باوجود کے دونوں میں اُس جھگڑے کے بعد متعدد مرتبہ صلح صفائی بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف نے اپنے خطاب میں ساس بہو والے جھگڑوں کے انداز میں شکایتیں ہی نہیں کیں بلکہ وہ ان شکایتوں میں ساس بہو والے ہی حافظے کے بھی حامل دکھائی دیئے۔ جنہیں دوسری کی زیادتی یاد رہتی ہے مگر اپنی کرنی بھول جاتی ہے۔ اُنہیں یہ تو یاد ہے کہ بے نظیر کے دور حکومت میں اُن کے کاروبار کے ساتھ کیا زیادتیاں ہوئیں۔ مگر اُنہیں یہ یاد نہیں کہ اُن کے دورِ حکومت میں بے نظیر کے ساتھ کیا زیادتیاں ہوئیں۔ پھر اُنہیں یہ بھی یاد نہیں کہ ان دوطرفہ زیادتیوں کے بعد اُنہوں نے ایک میثاقِ جمہوریت بھی کر لیا تھا اور اُس پر دستخط کے بعد اپنے اپنے قلم بھی ایک دوسرے کو تحفتاًدے دیئے تھے۔ نوازشریف کو یہ تو یاد ہے کہ مشرف نے اُنہیں’’جبراً‘‘ ملک سے نکال باہر کیا تھاجس پر وہ ’’مسکراتے مسکراتے‘‘ اور لجاتے لہراتے ملک سے باہر چلے گیے تھے۔ مگر یہ یاد نہیں کہ اُس کے بعد وہ پھر اقتدار میں آگیے ہیں اور اُنہوں نے بھی مشرف کو چلتے مقدمات میں باہر جانے کا راستہ دے دیا ہے۔ ساس بہو والی شکایتوں میں ساس بہو والا حافظہ بھی ہو جاتا ہے اور عملاً معاملہ اُس روسی کہاوت کی طرح ہو جاتا ہے جس میں ایک ساس یہ کہتی ہے کہ ’’ جب میں بہوتھی تو مجھے ساس اچھی نہیں ملی اور جب ساس بنی تو مجھے بہو اچھی نہیں ملی۔‘‘نوازشریف کے خطاب کی بھی تفہیم اس سے مختلف نہیں۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں روسی کہاوت کی ساس بن کر صرف اتنا کہا ہے کہ جب ہم حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو حکومت اچھی نہیں ہوتی۔ اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو حزب اختلاف اچھی نہیں ہوتی۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس وجود - منگل 01 فروری 2022

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات  نااہلی کے خلاف درخواست واپس

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر