وجود

... loading ...

وجود
وجود

رخصت

پیر 21 مارچ 2016 رخصت

Pervez-Musharraf

ارسطو نے قبل از مسیح کی دانش میں یہ راز منکشف کررکھا ہے کہ
’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات( یعنی چھوٹے )ہی پھنستے ہیں۔بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے
ہیں۔‘‘

مشرف چلا گیامگر نوازشریف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو قانون کا سامنا کر سکیں۔ یہ ایک دوسرے کے مخالف مگر ایک دوسرے کے محافظ بھی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ایسے نظام میں زندگی کرتے ہیں جو ایک دوسرے کی بقا کے ساتھ مربوط رہ کر اُنہیں ایک دوسرے کی مخالفت کی اجازت دیتا ہے۔ افسوس ہم اِن سیاست دانوں کے دعووں پردھیان دیتے ہیں مگر ان کے کردار پر نہیں۔ یہ مخلوق الفاظ کی خراچ مگر عمل کی قلاش ہے۔ جب قانون کا سامنا کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو کوئی سقراط نہیں بنتا۔ سب مشرف اور نوازشریف بن جاتے ہیں۔ کسی کی کمر میں درد ہوتا ہے اور وہ دبئی کا راستا لیتا ہے اور کوئی والدین کی ضعیف العمری میں اپنے ضعفِ کردار کو چھپاتے ہوئے سرور پیلیس کی راہ لیتا ہے۔ اقتدار کی لیلیٰ روٹھ جائے تو یہ ایسے مجنوں نہیں جو گلیوں میں پتھر کھائیں ۔ آسودگی ان کی منزل ہے۔ قانون کی بالادستی کی بات کرنے پر اب لوگوں کو قے آجاتی ہے۔ عدل گاہوں کی دار مصلحت پر اب انصاف کی گردن لٹکائی جاچکی ہے۔ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے۔ اور چہرہ نہایت بھیانک لگتا ہے۔ منصفوں کے کان میں کسی کو سرگوشی کرنی چاہیے کہ یہ لاشہ اب دفنا دینا چاہئے اس میں بُو آنے لگی ہے۔

یہ کام صرف مسلم لیگ نون ہی کر سکتی ہے کہ وہ مشرف کی رخصتی کو بھی اپنا کارنامہ بنا کر رکھ دیں۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی پریس کانفرنس کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ عوام اُنہیں مشرف پر مقدمہ بنانے کی بھی داد دیں اور اب اُنہیں ا س مقدمہ کا سامنا کیے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر بھی داددیں۔کبھی پارلیمنٹ میں اُنہوں نے آئین کی دفعہ چھ پر عمل درآمد کے لیے پرجوش تقریر کی تھی اور باور کرایا تھا کہ اگر ایک دفعہ اس پر عمل ہو جائے تو کبھی کوئی جنرل نظام کے ساتھ چاند ماری نہ کرسکے گا۔اب ہم ایک ایسے نظام میں جی رہے ہیں جسے دراصل سیاست دانوں اور خود وزیرداخلہ اور ان کی سیاسی حکومت کی چاند ماری سے بچانے کا چیلنج درپیش ہے۔ جمہوریت کو جرنیلوں سے کہیں زیادہ ان بدعنوان سیاست دانوں اور لٹیرے حکمرانوں سے خطرہ درپیش رہتا ہے جو اپنی بداعمالیوں کی بھی تقدیس کرنے پر قادر ہیں۔

مسلم لیگی سیاست کا یہ نفاق ختم ہو کر نہیں آرہا کہ وہ دعوے صاحبانِ عزیمت کے کرتے ہیں اور اقدامات ایسے اُٹھاتے ہیں کہ اُ س کے لیے حالت اضطرار کی تاویلیں بھی کم پڑنے لگتی ہیں۔ مسلم لیگ نون نے ہی جنرل مشرف کے عدالتی محاسبے کے دعوے کیے تھے۔ خواجہ آصف پارلیمنٹ میں گرجا برسا کرتے تھے۔ احسن اقبال نوجوانوں اور ٹیلی ویژن کی رنگین اسکرین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر مشرف عدالتی احتساب سے بچ گیا تو وہ اتنی بھی تبدیلی نہ لاسکنے پر حکومت چھوڑ کر گھر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ خواجہ سعد رفیق چائے سے زیادہ کیتلی کو گرم رکھا کرتے تھے۔وہی مشرف کو کہا کرتے تھے کہ مرد بنیں مرد، مرد۔ حیرت ہے مشرف کی ذراسی مردانگی پر انہیں لجا آنے کے بجائے زیادہ ادائیں دکھا ناآگئیں۔ ان کے ذوق جمال و کمال کی داد دیتے ہوئے اُس بازار کی حیا چاہئے۔ اب یہ سب دن رات کتاب الحیل پر گزارا فرماتے ہیں۔ جنہیں خلوت میں بیٹھ کر بھی شرم آنی چاہیے وہ معلوم نہیں کیسے جلوت میں پورے آب وتاب سے زندگی گزارتے ہیں۔

دستر خوانی قبیلے کی ادھیڑ بُن بھی عجیب ہے۔ اُنہیں منطقیں گھڑنے میں ایسا ملکہ حاصل ہو گیا ہے کہ اگلے زمانوں میں تحقیق سے یہ دریافت کیا جائے گا کہ یہ مخلوق اس قدر زرخیز ذہن کی مالک کیسے تھیں؟ اور اپنے دماغ کی نشوونما کے لیے اُن کا گزارا کس پر تھا؟ مشرف پر مقدمہ قائم ہو ا تودستر خوانی قبیلے نے دلیل یہ گھڑی تھی کہ ملک میں سول بالادستی کے لیے یہ مرحلہ ناگزیر ہے۔ اب جب مشرف کو فرار کا راستا دیا گیا ہے تو اسی دستر خوانی قبیلے نے نئی دلیل یہ ساخت کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام سب سے اولین ضرورت ہے۔ حیرت ہے کہ مقدمہ قائم کرنے اور مشرف کو رخصت کرنے کے درمیا ن ملک کے حالات میں کوئی جوہری فرق نہیں ۔ تب اور اب کے حالات تقریباً ایک جیسے ہیں۔ مگر دستر خوانی قبیلے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ظلِ سبحانی کے جنبشِ ابرو سے اُن کی آرزوِ مکروہ بھانپ لیتے ہیں اور پھر اُن کی تعظیم میں اپنے اندر کے درباری کو تروتازہ کر لیتے ہیں۔ بس پھر زمینی حقائق کا ڈرامہ شروع ہوجاتا ہے اور اداکار و صداکارسب اپنے اپنے کاموں میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ جُت جاتے ہیں۔نوازشریف نے تنہا جتنے اہلِ قلم خریدے ہیں اور جتنے بکاؤ صحافی اکٹھے کئے ہیں ۔تمام سیاسی جماعتیں کبھی مل کربھی اتنے جمع نہیں کر سکیں۔ اس معاملے میں نوازشریف کا مقابلہ کسی سے بھی نہیں۔ یہی دسترخوانی قبیلہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے میں پوری طرح جُتا رہتاہے۔ اسی قبیلے نے اب مشرف کے ملک سے جانے کے معاملے میں بھی اب طرح طرح کی جوازآرائیاں پیش کرنا شروع کردی ہیں۔ جنہیں پڑھ اور سن کر ایسا لگنے لگا ہے کہ اگر مشرف کو ملک سے جانے نہ دیا جاتا تو بس قیامت آجاتی۔ اُن دلائل کو سن کر ایسے لگتا ہے کہ مشرف کو دبئی چھوڑ کر آنا دراصل ایک قومی فریضہ تھا جسے نوازشریف نے بروقت ادا کیا۔ بس ہمیں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ آرٹیکل چھ کا قومی فریضہ کیا تقاضا کرتا ہے؟کہیں یہ دفعہ بھی انصاف کے لاشے کی طرح بدبو نہیں ماررہی۔ اگر ایسا ہے تو ایم کیوایم کے کچرا چننے کی مہم میں اس کی بھی صفائی کروالیں۔


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر