وجود

... loading ...

وجود
وجود

رہنما

منگل 01 مارچ 2016 رہنما

omar

خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے گرہ کشائی کی: کسی آدمی پر بھروسا نہ کرو، جب تک کہ اُسے طمع کی حالت میں آزما نہ لو۔ ‘‘ رہنما کے لیے معیار اور بھی کڑے رکھے گئے۔ اُن کے باب میں کسی رعایت کا دروازہ تو کجا کھڑکی تک کھلی نہ چھوڑی گئی۔ مگر پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں تمام رعایتیں صرف رہنماوؤں کے لئے ہیں۔ جدید جمہوریت کو سرمائے کے گاڑے سے تیار کیا گیا ہے۔پھر بھی ، پھر بھی یہ اہتمام کیا گیا کہ اُس کے رہنما کاروباری اور تاجر نہ ہو۔ تصورات کی حد تک افلاطون کے فقرے جمہوریت کی چار دیواری کے مرکزی دروزاے پر ٹنگے رہتے ہیں۔

’’ جب کوئی دولت کا پجاری، حکمران بن بیٹھے یا جب فوجی، فوج کی مددسے فوجی آمریت قائم کرلے،
تو ان کا نتیجہ بربادی وتباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تاجر کا ہنر معیشت میں ہے اور فوجی کا میدان جنگ میں۔
جہاں بانی سے دونوں ناآشنا ہیں۔‘‘

مغربی جمہوریت مگر اپنے تمام تصورات میں ناقص ثابت ہو چکی۔اس کے باوجود وہ عوام کی اُمیدوں کا تاحال مرکز ہے۔ اس لئے نہیں کہ واقعتا ایسا ہے ، بلکہ اس لئے کہ کارپوریٹ سرمایہ داروں نے دنیابھر کے عوامی رجحانات کو تشکیل دینے کی طاقت ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ سرمایہ کی دُھن پر سامراجیت رقص کرتی ہے۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اقتدار تاج برطانیہ کو منتقل ہوا تھا۔ کچھ چہرے اور طور طریقے ضرور تبدیل ہوئے ،مگر آج کا ماجرا بھی یہی ہے۔ اب سامراجیت مقامی چہرے اور نمائندے تلاش کرتی ہے، تاکہ سرمایے کی منڈیوں میں بیرونی آقاؤں سے نجات کے دلکش نعرے فروغ نہ پاسکے۔

مغربی جمہوریت نے سرمائے کی اُنگلی پکڑ کر قدم اُٹھائے ہیں۔ بہت سی مثالیں ہیں مگر جے ڈی راک فیلر کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا امیر ترین آدمی تھا جو غلامی کے خاتمے پر یقین رکھتا تھا، ابراہم لنکن کا پیرو کارتھا۔ اُسے شراب اور تمباکو سے بھی مکمل پرہیز تھا۔ مگر وہ کون تھا؟کارپوریٹ فلاح وبہبود کے اداروں کے آنگن میں کارپوریشن اپنی بہیمت کا ناچ شروع کرتی ہے۔ راک فیلر اسی کی مثال ہے۔ جو اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کا مالک تھا۔ تمام فلاح وبہبود کے ادارے تب اُسی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ 1914ء کے آس پاس جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو یہ سوال اُٹھے تھے کہ اگر کمپنی کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ لوگوں کے فلاح وبہبود پر بے دریغ پیسے لٹا رہی ہے تو پھر وہ اپنے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیوں نہیں کرتی؟ فلاح وبہبود کی آڑ میں کارپوریشن کے پھیلاؤ نے کیا نتائج مرتب کیے ، اگلے کچھ ہی برسوں میں سب کچھ کھل کر سامنے آگیا۔ امریکی سرمایہ داروں نے جمہوریت ، فلاح وبہبود اور انسانیت کے خوشنما نعروں کی آڑ لے کر خام مال اور منڈیوں کی تلاش اپنے ملک سے باہر شروع کی۔ یہیں سے عالمی کارپوریٹ حکمرانی کی داغ بیل پڑنا شروع ہوئی۔ یہ کوئی الل ٹپ اقدام نہیں تھا جو راک فیلر کارنیگی فاؤنڈیشن نے 1924ء میں ’’خارجہ پالیسی کونسل‘‘ تشکیل دے کر اُٹھایاتھا۔ امریکی سی آئی اے کی بنیاد 1947ء میں پڑی تھی، جس نے اپنے کام کا آغاز اسی ’’خارجہ پالیسی کونسل‘‘ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اسی کونسل کے پانچ ارکان نے اقوام متحدہ کے تصور کو جنم دیا تھا۔ آج اقوام متحدہ کا صدر دفتر نیویارک کی جس زمین کے ٹکڑے پر ہے ، اُسے کسی اور کے نہیں، راک فیلر کے ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کی امداد سے خریدا گیا تھا۔

بھارت کی باضمیر دانشور ارون دھتی رائے ہمیں اس کارپوریٹ جمہوریت کے سجے بازار کی سیر کراتے ہوئے ورلڈ بینک لے جاتی ہے اور متوجہ کرتی ہے کہ آخر کیوں ورلڈ بینک کے جتنے صدور مقرر ہوئے وہ سب کے سب امریکی خارجہ کونسل کے ممبران تھے۔ اس ضمن میں واحد استثنیٰ جارج ووڈز کا رہا جو راک فیلر فاؤنڈیشن کا ٹرسٹی تھا۔ کیا یہ سب حقائق کسی سازشی نظریئے کی پیداوار ہیں ؟ جمہوریت پر نیا نیا ایمان پیدا کرنے والے اُن دانشوروں کو اُن کے حال پر چھوڑیئے جو کبھی بائیں بازو کے نظریات سے ہمارا دل بہلایا کرتے تھے اور آج کل سرمایئے کی گود میں جمہوریت کے ایک ایسے بخار میں قوم کو مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سرمائے کی بارش اُن کے آنگنوں کو بھی گیلا کرتی ہو۔ وہ اب تاریخی حقیقتوں کو سازشی نظریات کی تعبیر دے کر تاریکیوں کی تحویل میں دینا چاہتے ہیں۔اور کارپوریٹ جمہوریت کو سیاسی مذہب کا عقیدہ بنانے پر تُلے ہیں۔ مگر اسی جمہوریت کی معراج میں مسکرانے والی کارپوریشن اور فاونڈیشن میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ فلاح وبہبود کی فاونڈیشن دراصل کاروبار کی کارپوریشن کو ہی فروغ دینے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے۔ اور استحصال کا ایک زبردست ہتھکنڈہ ثابت ہوتی ہے۔ پبلک اسکولز ، دارالمطالعے اور صحت کے منصوبے جن فاونڈیشن کے نظر آنا شروع ہوتے ہیں تو کارپوریشن کے بہت سے جھمیلے نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگ فاونڈیشن کی فیاضی یاد رکھتے ہیں اور کارپوریشن کا استحصال بھول جاتے ہیں۔ اب پاکستان میں اسی کارپوریٹ جمہوریت نے ڈیڑے ڈال لیے ہیں جو ایک ایک کرکے معاشی اداروں کو ہڑپ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستی قوت اپنے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھودے۔ پی آئی اے ہی نہیں نیشنل بینک پر بھی دانت تیز کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اس معاملے میں ہال روڈ کے اُس دُکاندار کی سطح سے نہیں اُٹھ سکے جو اپنے دن رات کی تمام سرگرمیوں کو نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتا ہے۔ اب ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا۔

پاکستان میں جمہوریت ایک ایسے راستے کی مسافر ہے جس نے فوجی اقتدار کا راستہ روکنے کے لئے ریاست کی طاقت کو کم سے کم سطح پر لے جانے اور اِسے کارپوریٹ دنیا کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر آپ درست تجزیہ کرنے کے لئے اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ دیں تو نظر آئے گا کہ پاکستان میں اصل طاقت فوجی سربراہ کے پاس نہیں میاں منشا یا اُن ایسے لوگوں کے پاس رہے گی۔ کیا آپ نے ملک ریاض پر غور نہیں کیا جو نامعلوم کتنے جرنیلوں کو ملازمتیں دے کر سنبھالے رکھتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا طاقت اور رسوخ کے ہی مدار پر گھوم رہی ہے۔ بس اِسے ذرا زیادہ کھولنے کھنگالنے پر دیکھا جاسکتاہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے لئے یہی دنیا سازگار ہے چنانچہ وہ ملکوں کی معیشت کو اُس حال پر پہنچاتے ہیں جس میں معاشی ادارے ریاستی تحویل سے نکل کر کارپوریٹ دنیا کے ہاتھ میں چلے جائیں۔ ایسے کھیل تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب کسی ملک کا سیاسی اقتدار زرداریوں یا شریفوں کے ہاتھوں میں چلاجائے۔خواجہ سعد رفیق کا ارشاد ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُسے زرداری جیسی قیادت ملی۔ ماشاء اﷲ مسلم لیگ نون نے نوازشریف کی صورت میں اپنی ’’خوش قسمتی‘‘ پالی ہوئی ہے۔ ذرا غور کیجئے یہ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں، ان میں واحد فرق بس طریقہ واردات کا ہے۔ اگرجدید جمہوریت سیاسی نظریئے کا عقیدہ ہی ٹہرا تو پھر اس جعلی جمہوریت کی جھوٹی تقدیس بھی زرداریوں اور شریفوں کے باعث خطرے میں رہے گی۔ اس جمہوریت کا تحفظ ان کا بوجھ اُٹھا کر ممکن نہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر