وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسلسل دھوکا!

جمعرات 11 فروری 2016 مسلسل دھوکا!

privatization

عقل کے اندھوں نے ہر چیز کو اُلٹا دیکھنے کی عادت پیدا کردی ہے۔ پاکستان میں مسئلہ اداروں کے خسارے میں جانے کا نہیں بلکہ حکومتوں کی طرف سے بدعنوانی شعار کرنے کا ہے۔ اداروں کے خسارے کا سبب بھی خراب طرزِ حکمرانی ہے ۔ مگر اس کی ذمہ داری اُٹھانے کے بجائے حکومتیں اداروں کے مالیاتی خسارے کے پیچھے چھپتی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، پاکستان میں صدر مملکت کے طور پر آصف علی زرداری کوس لمن المک بجاتے تھے۔ ایک اعلیٰ سطح کی سیاسی اور فوجی قیادت کی ملاقات میں جب اُن سے فوجی قیادت نے کہا کہ اُن کی حکومت کے فلاں فلاں افراد بدعنوانی کے مرتکب ہیں اور قومی اداروں کو بے دردی سے لوٹ رہے ہیں ، تو اُنہیں جواب دیا گیا کہ اُنہوں نے ’’جمہوریت ‘‘ کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اور یہ اُن کا حق ہے۔ جناب زرداری نے لوٹ کھسوٹ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اُن کے لئے پاکستان کے تمام ادارے بھی کم پڑ گئے تھے۔ اور وہ آغا خان سے ایک ملاقات میں کچھ ایسے اداروں کا مطالبہ کر بیٹھے کہ اُنہوں نے اُن کے دور میں پاکستان کے اندر سالانہ ایک دورے پر بھی آنا چھوڑ دیا۔ اب اس نوعیت کی حکومتیں اداروں کی فروخت کے لئے اُس کے خسارے کو جوازکے طور پر پیش کرتی ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ نیشنل بینک اور پی آئی اے نے جب ترقی اور عروج کے دور دیکھے تب بھی وہ سرکاری ادارے ہی تھے۔حکومتیں اُس وقت کاروبار کے لئے کیسے موزوں تھیں؟ اگر ایک دور میں یہ ادارے ترقی کرتے یہاں تک پہنچے تو اب وہ اس حال میں کیوں ہیں؟ کیا ہم ایک سادہ سی بات بھی سمجھنے کے اہل نہیں کہ اگر پی آئی اے کو حکومت سنبھال نہیں پائی تو سوال پی آئی اے پر نہیں خود حکومتوں کی اہلیت پر اُٹھتا ہے۔ ایک معمولی ادارے کو سنبھال نہ پانے والی حکومتیں کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہیں کہ وہ ملک چلا سکتے ہیں۔ناکام حکومتیں پھر اِن پامال فقروں کے پیچھے خود کو چھپاتی ہیں کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں۔ حالانکہ نجکاری پاکستان میں خود ایک کاروبار ہے۔ بدعنوان حکومتوں نے پہلے ان اداروں سے کاروبار کیا اور اب وہ ان اداروں کا کاروبار کر رہی ہیں۔

ناکام حکومتیں اِن پامال فقروں کے پیچھے خود کو چھپاتی ہیں کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں۔ حالانکہ نجکاری پاکستان میں خود ایک کاروبار ہے۔ بدعنوان حکومتوں نے پہلے ان اداروں سے کاروبار کیا اور اب وہ ان اداروں کا کاروبار کر رہی ہیں

پاکستان میں نجکاری کا عمل کبھی بھی اپنے فطری ماحول میں نہیں ہوا۔ اداروں کی فروخت کے لئے حکومتیں پہلے کاروباری افراد کے ساتھ خاموش معاملات طے کرتی ہیں۔اور پھر کامیاب قومی اداروں کو منظم طور پر بیماری اور نقصان میں دھکیلا جاتا ہے۔ ان دنوں نیشنل بینک کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے۔ برسوں سے نیشنل بینک کو لوٹنے کھسوٹنے کا ایک عمل جاری ہے جس سے بالآخر اِسے نجکاری کے دھندے کے قابل بناد یا جائے گا۔ پی آئی اے کو اِسی طریقہ واردات سے نقصان میں دھکیل کر فائدے کے دھندے یعنی نجکاری کے قابل بنایا جاچکا ہے۔ کیا پی آئی اے کی نجکاری شفاف ہے؟ اعتزاز احسن کے مطابق نہیں۔ یہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے لینے کی کوشش ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس حد تک یہ بات مکمل غلط ہو، مگر کیا اس ملک میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ پاکستان کے اندر جاری نجکاری کا عمل شفاف ہوتا ہے۔سیاسی وفوجی حکومتوں سے قطع نظر کسی بھی حکومت کی نجکاری کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔ نوازشریف اس سے قبل نجکاری کے عمل میں ایسی ہی غیر شفافیت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ ایم سی بی پر ابھی تک اعتراضات ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ یہ ایک ایسی نجکاری تھی جس کے منحوس سائے آج بھی پاکستان کے معاشی وجود پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل کے ذمے جو رقم واجب الادا ہے وہ تاحال نہیں لی جاسکی اور یہ خوامخواہ نہیں ہوتا۔ حکومتوں کے بدعنوان عناصر ایسی رعایتیں دے کر منفعت بخش سمندروں میں غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ حبیب بینک جتنے میں فروخت کیا گیا، اُس پر ابھی تک سوالات ہیں۔ کے اے ایس بی بینک صرف ہزار روپے میں فروخت کیا گیا ۔ یونین بینک کی فروخت کے پورے عمل کو دیکھئے تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ پہلے یونین بینک پر قرضے چڑھائے گئے۔پھر ان قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے نجکاری کا ماحول بنایا گیا۔ مگر بینک کو نجکاری کے قابل اور قابل فروخت بنانے کے لئے وزارت خزانہ سے اُس کے پھر قرضے اُتارے گئے۔ نجکاری ،اداروں کے خسارے سے زیادہ خسارہ دینے والا دھندا ہے جسے حکمران انتہائی مہارت سے کرتے ہیں اور ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے حامی مختلف کاروباری خاندان ان دونوں ادوار میں اپنے اپنے جال پھینکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حامی کاروباری خاندان دوسری حکومتوں میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اور مسلم لیگ نون کے حامی کاروباری خاندان پیپلزپارٹی کے دور میں اپنی شکل نہیں دکھاتے۔ یہ ایک خطرناک روش ہے جو ہر دور میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اب مسلم لیگ نون کے حامی کاروباری خاندانوں کی باری ہے۔

مسلم لیگ نون کا حامی کاروباری خاندان صرف پی آئی اے ہی نہیں دوسرے اداروں کے بھی بیمار ہونے کا چرچا ایک بڑے ابلاغی ادارے سے کروا رہا ہے۔ جو ایسے تمام جرائم میں ایک شراکت دار کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسئلہ صرف پی آئی اے کا نہیں ، مسلم لیگ نون کی حکومت مزید کچھ اداروں کی بھی نجکاری کی حکمت عملی طے کرکے بیٹھی ہے۔ ملک کے تمام ادارے ایک ایک کرکے فروخت کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب حکومتیں صحت اور تعلیم کے اداروں کو بھی فروخت کرنے پر تُل گئی ہیں،تو پھر ملک میں حکومت نام کی چڑیا کیا کرے گی؟یہ تو معمولی نگرانی کا فریضہ بھی ادا کرنے کی اہل نہیں رہی۔ جس کا مظاہرہ اِسی پی آئی اے میں ہڑتال کے دوران میں ہوا۔پی آئی اے کی پروازوں کے معطل ہوتے ہی نجی ائیرلائنز نے اپنے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ سات ہزار کا ٹکٹ اڑتیس ہزار میں فروخت ہونے لگا۔ حکومت نے ابتدا میں اس کی پروا ہی نہیں کی، جب کچھ شور ہوا تو مسابقتی کمیشن نے اونگھتے کو ٹھیلتا کے بمصداق ایک بیان دیا۔ اور پھر چپ سادھ لی۔ اخباری بیانات سے قطع نظر مسافروں کا استحصال جاری رہا۔ اگر حکومتیں نگرانی کی بھی اہل نہیں، تو پھر سوال یہ اُٹھے گا کہ آخر یہ کس مرض کی دوا ہے۔ اور انہیں پالنے کی ضرورت کیوں ہے؟ کراچی میں بجلی کے نرخ سے لے کر دانستہ غلط بلنگ تک کسی ایک مسئلے پر بھی حکومت شہریوں کی مدد کو نہیں آئی۔ نجی ادارے میں موجود بجلی کے ادارے غلط نرخ ناموں کے زبردستی اطلاق کے باوجود بل بڑھا کر دیتے ہیں۔ مگر اُن کا ہاتھ کہیں پر بھی نہیں روکا جارہا ۔یہاں تک کہ شہری عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے۔

نجکاری کا یہ کیسا منجن ہے، جس میں پہلے ملکی اداروں کوبیمار کیا جاتا ہے، پھر اُن کا دھندا کیا جاتا ہے، پھر شہریوں کو نجی اداروں کی دستبرد میں دے دیا جاتا ہے۔ کیا ہم کسی ریاست کے اندر ایک شہری کے طور پر جیتے ہیں یا پھر کسی کارپوریشن کے اندر ایک صارف کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ نجکاری سے پہلے اور بعد سب کچھ ایک دھوکا ہے، مسلسل دھوکا۔


متعلقہ خبریں


10سے 12 بڑے سرکاری کاروباری اداروں کو نجکاری کی طرف لے کر جارہے ہیں، وزیر خزانہ وجود - هفته 11 جون 2022

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ10 سے 12 بڑے سرکاری کاروباری اداروں کو نجکاری کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ میڈیا کو بریفنگ کے دور ان نجکاری سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 سے لے کر 12 بڑے سرکاری کاروباری ادارے ہیں جس میں 2 گیس اور 8 بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں ...

10سے 12 بڑے سرکاری کاروباری اداروں کو نجکاری کی طرف لے کر جارہے ہیں، وزیر خزانہ

حکومت کے دہرے کردار کی ایک اور مثال، نئی ائیر لائن بنانے کے عمل کا آغاز کردیا گیا! وجود - جمعه 25 مارچ 2016

نواشریف کی حکومت جمہوریت کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی برتری کی تسبیح تو ہر وقت پڑھتی رہتی ہے مگر عملاً وہ اپنے آمرانہ اور یکطرفہ اقدامات سے کسی بھی طرح دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔ اس کی تازہ ترین مثال حکومت کی طرف سے ایک نئی ائیر لائن کے قیام پر کام کرنے سے سامنے آئی ہے۔ حکوم...

حکومت کے دہرے کردار کی ایک اور مثال، نئی ائیر لائن بنانے کے عمل کا آغاز کردیا گیا!

پی آئی اے فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل: پاکستان ائیرویز لمیٹڈ نامی نئی کمپنی رجسٹرڈ وجود - اتوار 21 فروری 2016

پی آئی اے فروخت کرنے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایس ای سی پی (سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) میں ایک نئی کمپنی اس سلسلے میں رجسٹرڈ کر ائی گئی ہے۔ پاکستان ائیر ویز لمیٹڈ نامی کمپنی ایس ای سی پی میں 19 فروری کو رجسٹرڈ کی گئی ہے۔ وجود ڈاٹ کام ک...

پی آئی اے فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل: پاکستان ائیرویز لمیٹڈ نامی  نئی کمپنی رجسٹرڈ

پی آئی اے انتظامیہ نے ہڑتالی ملازمین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا! وجود - جمعه 12 فروری 2016

پی آئی اے کی ہڑتال ختم ہونے اور طیاروں کے فضا میں بلند ہوتے ہی انتظامیہ کا مزاج بھی ہوا میں اڑنے لگا ہے جس پر پی آئی اے کے اندر شدید تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے کئی روزہ احتجاج اور ہڑتال میں حصہ لینے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کے خ...

پی آئی اے انتظامیہ نے ہڑتالی ملازمین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا!

پی آئی اے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان، فضائی آپریشن بحال وجود - بدھ 10 فروری 2016

پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے گزشتہ آٹھ روز سے جاری احتجاج کو اچانک ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ نے 9 فروری بروز منگل ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پی آئی اے کے ملازمین ملک بھر میں نہ صرف فضائی آپریشن بحال کردیں بلکہ اس...

پی آئی اے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان، فضائی آپریشن بحال

جادو وجود - منگل 09 فروری 2016

نجکاری سرمایہ داری نظام کا وہ منحوس گرداب ہے جس میں وہ پوری ریاست کو اپنا لقمۂ تر بناتی ہے۔ اس کے لئے عجیب عجیب بیانیے تخلیق کئے گئے ہیں۔ حکومتوں کا کام تجارت کرنا نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا فریب خوردہ فقرہ نجکاری کے جواز میں کہا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر یہ عامیانہ طرز فکر وہی لوگ اختیار ک...

جادو

پی آئی اے کی فضائی سروس جزوی طور پر بحال وجود - پیر 08 فروری 2016

پی آئی اے کے ملاز مین کی ہڑتال کے چھٹے روز بندش سے دوچار فضائی سروس جزوی طور پر بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر چار پروازوں کو ڈیل کیا گیا۔ اتوار کی علی الصبح قومی ایئر لائن کے 2 بوئنگ 777 طیارے جدہ روانہ ہوئے جو وہاں موجود سات...

پی آئی اے کی فضائی سروس جزوی طور پر بحال

پی آئی اے بحران: مشکوک شخص منظر عام پر ، پھر فائرنگ کرنے والا کون؟ وجود - اتوار 07 فروری 2016

پی آئی اے ملازمین کے قتل کی تحقیقات میں رینجرز کی جانب سے جس شخص کو پراسرار قرار دے کر شک ظاہر کیا گیا تھا ، وہ شک مکمل غلط نکلا۔ 2 فروری کو پی آئی اے ملازمین پر فائرنگ کے معاملے میں رینجرز کی جانب سے مشکوک قرار دیا شخص منظر عام پر آگیا ہے۔ چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی سہیل بلوچ نے...

پی آئی اے بحران: مشکوک شخص منظر عام پر ، پھر فائرنگ کرنے والا کون؟

پی آئی اے بحران: حکومت احتجاجی ملازمین کے مذاکرات تاحال بے نتیجہ وجود - هفته 06 فروری 2016

پی آئی اے ملازمین اور حکومت کے درمیان مذاکرات تاحال بے نتیجہ ہیں ۔ حکومت مذکرات کو نتیجہ خیز بنانے سے پہلے بلامشروط پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائن کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی بضد ہے کہ جب تک اُن کے مطالبات پر کوئی ن...

پی آئی اے بحران: حکومت احتجاجی ملازمین کے مذاکرات تاحال بے نتیجہ

نجکاری ؟ وجود - جمعه 05 فروری 2016

اچھے بُرے کا بظاہر تاثر کی سطح پر ہونا اُس کی اصل حقیقت کا اعلان نہیں کرتا۔ایک زیادہ گہرے تجزیئے میں اچھی نظر آنے والی بعض بظاہر چیزیں زیادہ بُری بھی ثابت ہوتی ہیں ۔ نجکاری کا معاملہ اپنے بعض پہلووؤں میں کچھ اسی حقیقت کا عکاس ہے۔ نجکاری کے موقف کی حمایت بہت وسیع ہے۔ مگر اس م...

نجکاری ؟

پی آئی اے ملازمین کی ہلاکتیں : تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کاعدالت سے رجوع کا فیصلہ وجود - جمعرات 04 فروری 2016

ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے برگیڈئیر رینک کے افسر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے جو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) ملازمین کے احتجاج میں فائرنگ کے باعث دو افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کرے گی اور فائرنگ کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی...

پی آئی اے ملازمین کی ہلاکتیں : تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کاعدالت سے رجوع کا فیصلہ

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر