... loading ...
کیا نوازشریف اب اپنے لمحۂ برحق سے دوچار ہونے والے ہیں! تقدیر کی آواز دائم کہیں سے گونجتی ہے،مگرکوئی گوشِ ہوش تو رکھتا ہو!
آدمی اپنی تباہی کے اسباب خارج میں ڈھونڈتا ہے ،مگر یہ ہمیشہ داخل میں ہوتے ہیں۔ انسان کا خارج محض اس میں مددگار ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا:
امریکا کے سابق صدر نکسن نے اپنی مشہور عالَم کتاب ’’لیڈرز‘‘ میں یہ نکتہ کسی اور طرح سے واشگاف کیا ہے۔
’’لیڈر کو اپنے مخالف سے اتنی کڑی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی جتنی خود اپنے مصنوعی اور تباہ کن خیالات سے لڑنی
پڑتی ہے۔‘‘
نکسن تاریخی تجربات کی روشنی میں اس پر اضافہ کرسکتے تھے کہ جو لیڈر بھی اس صورت حال سے دوچار ہو جائے ، اُس کی ناکامی نوشتہ ٔ دیوار ہوتی ہے۔ کیا نوازشریف کا خطاب اس کی ایک مثال ہے؟ اب کامل تیئس برس ہوتے ہیں ، نوازشریف نے 16؍ اپریل کو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ کسی سے ڈیکٹیشن لیں گے اور نہ اسمبلیاں تحلیل کریں گے اور نہ ہی استعفیٰ دیں گے۔‘‘ پھر کیا ہوا تھا؟ صرف دو روز بعد یعنی 18؍ اپریل کو صدر غلام اسحق خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ
’’اُن کی (نوازشریف) کی ہٹ دھرمی ، ضد اور عاقبت نااندیشی کا کچھ اندازہ آپ کو سابق وزیراعظم کی
کل کی تقریر سے ہو گیا ہوگا۔‘‘
1993 ء سے 2016ء کے درمیان مملکت خداداد پاکستان کے زمین وآسمان بدل گیے یہاں تک کہ شریف خاندان کی دولت کے انبار بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیے مگر نوازشریف سیاسی طور پر جہاں تھے وہیں رہے۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھرخود کو 1993ء اور 1999ء کے اُسی اُسلوب میں خود کو ڈھال لیا ، جو اُنہیں خود شکنی سے دوچار اور پھر آخرِ کار لاچار کردیتا ہے۔ اُنہوں نے پاناما لیکس پر چند دنوں میں قوم سے دوسرے لایعنی خطاب میں وہی رویہ نیے الفاظ میں ظاہر کیاکہ ’’میں گیڈر بھبھکیوں میں نہیں آؤں گا۔‘‘نوازشریف کی سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وہ اپنے ہی خلاف سازش کرنے کے سب سے بڑے ماہر ہیں۔
نوازشریف کا خطابِ لاجواب و بے حساب اپنے اندر خود کش بارود کے ایسے ہی شرارے اور دھماکے رکھتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ وقت گزاری کی بنیادی حکمت عملی کے تحت وہ ایسے اقدامات کا دانستہ اعلان کرتے ہیں جو بآلاخر مسترد کر دیئے جائیں۔ اور پھر اُنہیں نیے اعلان کے لیے مہلت ملتی رہے۔ پاناما لیکس پر اپنے پہلے خطاب میں اُنہوں نے ایک ریٹائرڈ جج کی پھلجڑی چھوڑی اور خود رولیکس گھڑی اور اپنے قامت کا لباس سینے والے درزی سے ملنے لندن تشریف لے گیے اور قوم کو طبی معائنے بلکہ بقول راست گو چودھری نثار’’ معالجیـ‘‘ کے اُدھیڑ بُن میں چھوڑ گیے۔اِس طرح معالجے کے بہانے قوم سے ہمدردی اور ماں کی دست بوسی کی نمائش میں قوم کو الگ تڑکے بلکہ چرکے لگائے۔ دنیا میں واحد نوازشریف ہی وہ آدمی ہے جو اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی دنیا تواپنی اپنی مائیں چھوڑ کر بس اُن کی اپنی ماں سے محبت کی ادائے خاص سے محبت کرتی ہے۔ ماں کی دست بوسی کی تصویر کے سیاسی استعمال کی ایسی توہین آمیز مثال پاکستانی سیاست میں خال خال ہی ملتی ہے۔
نوازشریف کے خطاب میں پاناما لیکس پر تحقیقات کا معاملہ ایک ایسے وقت میں چیف جسٹس پر چھوڑا گیا جب وہ صرف ایک روز بعد ترکی کے دورے پر چلے گیے جہاں سے اُن کی واپسی یکم مئی تک متوقع ہے۔ اس طرح پہلے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کی پھلجڑی چھوڑ کر وقت گزارا گیا اور اب چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کی بات انیس روز گزار کراُس وقت مانی گئی جب وہ ترکی کے دورے پر جانے والے تھے۔ پھر اس کمیشن کے قواعد وضوابط دانستہ ایسے بنائے گیے ہیں کہ اِسے حزب اختلاف مان کر ہی نہ دیں۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر کمیشن کے قواعد وضوابط کی بحث میں لمبا وقت گزارلیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کسی ناقابل آغاز نکتے سے ہی اس کا طوعاً وکرھاً آغاز ہو بھی جائے تو پھر کمیشن کے مینڈیٹ کو قیام پاکستان سے آج تک کے تمام معاملات کی چھان بین تک توسیع دے کر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اگر اس ملک پر خدانخواستہ حسین نواز کے بھی بیٹوں کے بیٹے آخر حکومت کر جائیں یا ’’جمہوری اقتدار ‘‘مریم نواز کی نسل کو ’’وراثتاً‘‘ منتقل ہوجائے اور وہ بھی ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ کے تسلسل کی خاطر وضع داری میں اپنی چار نسلوں تک دُکانِ اقتدار بڑھا جائے تو بھی کمیشن کا فیصلہ نہ آپائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ خود نوازشریف بھی یہی چاہتے ہیں کہ حزب اختلاف اس کمیشن کو ماننے سے انکار کردیں اور وقت گزاری ایک سیاسی شغل کے طور پر جاری رہے یہاں تک کہ جولائی کا مہینہ گزر جائے اورنیے فوجی سربراہ کا اعلان کر دیا جائے۔ نوازشریف نے اس بنیادی حکمت عملی کے ساتھ محض ماضی کی شکایتوں کو دُہرا کر اُن کے اقتدار سے دوہرے ہو جانے والے عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
نوازشریف نے اپنے خطاب میں خانگی جھگڑوں والا رویہ اختیار کیا ہے جس میں ساس بہو کے متعدد جھگڑوں اور صلح وصفائی کے بعد جب ایک بار پھر نیا جھگڑا ہوتا ہے تو دونوں ہی اپنی شکایتوں کا آغاز پہلے جھگڑے سے کرتی ہیں۔ اس کے باوجود کے دونوں میں اُس جھگڑے کے بعد متعدد مرتبہ صلح صفائی بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف نے اپنے خطاب میں ساس بہو والے جھگڑوں کے انداز میں شکایتیں ہی نہیں کیں بلکہ وہ ان شکایتوں میں ساس بہو والے ہی حافظے کے بھی حامل دکھائی دیئے۔ جنہیں دوسری کی زیادتی یاد رہتی ہے مگر اپنی کرنی بھول جاتی ہے۔ اُنہیں یہ تو یاد ہے کہ بے نظیر کے دور حکومت میں اُن کے کاروبار کے ساتھ کیا زیادتیاں ہوئیں۔ مگر اُنہیں یہ یاد نہیں کہ اُن کے دورِ حکومت میں بے نظیر کے ساتھ کیا زیادتیاں ہوئیں۔ پھر اُنہیں یہ بھی یاد نہیں کہ ان دوطرفہ زیادتیوں کے بعد اُنہوں نے ایک میثاقِ جمہوریت بھی کر لیا تھا اور اُس پر دستخط کے بعد اپنے اپنے قلم بھی ایک دوسرے کو تحفتاًدے دیئے تھے۔ نوازشریف کو یہ تو یاد ہے کہ مشرف نے اُنہیں’’جبراً‘‘ ملک سے نکال باہر کیا تھاجس پر وہ ’’مسکراتے مسکراتے‘‘ اور لجاتے لہراتے ملک سے باہر چلے گیے تھے۔ مگر یہ یاد نہیں کہ اُس کے بعد وہ پھر اقتدار میں آگیے ہیں اور اُنہوں نے بھی مشرف کو چلتے مقدمات میں باہر جانے کا راستہ دے دیا ہے۔ ساس بہو والی شکایتوں میں ساس بہو والا حافظہ بھی ہو جاتا ہے اور عملاً معاملہ اُس روسی کہاوت کی طرح ہو جاتا ہے جس میں ایک ساس یہ کہتی ہے کہ ’’ جب میں بہوتھی تو مجھے ساس اچھی نہیں ملی اور جب ساس بنی تو مجھے بہو اچھی نہیں ملی۔‘‘نوازشریف کے خطاب کی بھی تفہیم اس سے مختلف نہیں۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں روسی کہاوت کی ساس بن کر صرف اتنا کہا ہے کہ جب ہم حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو حکومت اچھی نہیں ہوتی۔ اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو حزب اختلاف اچھی نہیں ہوتی۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...