وجود

... loading ...

وجود

جبلِ نور کی روشنی

اتوار 09 اکتوبر 2022 جبلِ نور کی روشنی

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟
جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھی (سورة ابراہیم، آیت 35) ، پیغمبر اسلامۖ کا جو مولدِ محترم ہے۔ مکہ مکرمہ کے مشرق سے ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر جبلِ نور واقع ہے۔ چند ماہ قبل مسافر نے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی تھیں۔ عشق کی پیاس بجھائی تھی۔ افکار احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں، مگر عشق گاہے بے احتیاطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہو۔ اللہ کے جس آخری نبیۖ کے راستے کو بنی نوعِ انسان کا حقیقی راستا قرار دیا گیا، جبلِ نور نے اُس پیمبر کے قدموں کا رستہ دیکھا تھا۔ وہ رحمة اللعالمین کی گزرگاہ تھا۔ غارِ حرا خیمے کی طرح ہے، مگر جبلِ نورکے اندر نہیں، اس سے ذرا پرے اور پہلو میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے جبلِ نور کی بلندی 639 میٹر ہے۔ نصف کلومیٹر تک ہموار راستہ بلندی کی طرف مائل رہتا ہے، پھر چڑھائی شروع ہوتی ہے، جو چکر کھاتی اور کہیں کہیں گھیردار ہوکر بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طویل اور بلند راستے پر صرف عشق کا حوصلہ اور محبت کی ہمت ہی موثر ہے۔ اتنا ہی نہیں، غارِ حرا کوئی پہاڑ کی چوٹی پر واقع نہیں، بلکہ بلندی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ایک مقام ایسا آتا ہے، جب مغرب کی سمت تقریباً 70 میٹر نیچے جانا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ ٹٹولنا پڑتا ہے۔ نشیب میں اُتر کر پھر بلندی کا راستا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ پھر جبلِ نور کے ایک پہلو میں وہ سیاہی مائل چٹانیں نظر آتی ہیں جس کے درمیان قدرتی طور پر صرف ایک آدمی کے گزرنے کا راستا ہے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے پھر ذرا سی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ غار دکھائی دیتا ہے، جس کی رفعتیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ غار کی لمبائی بمشکل سوا دو میٹر اور اونچائی بھی آگے بڑھتے ہوئے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آدمی ٹھٹھک کر سوچتا ہے چودہ سو سال قبل اس ویرانے میں سیاہ چٹانوں کے درمیان اس بلندی پر یہی مقام، عبادت کا ذوقِ تنہائی کیسے تلاش کرتا ہے؟ پھر کسی کے لیے یہاں ہفتوں قیام کیسے ممکن ہے؟ بلندیوں پر آسمان سے چار نگاہیں ، نیچے زمین پر ٹک نہیں سکتیں، ناہموار سانسیں سینے میں عشق کا الاؤ اور زور سے بھڑکا دیتی ہیں۔ آدمی کہاں، وہ صرف پیمبر ہے ، جبل ِ نور جنہیں اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے، غارِ حرا جن کا خلوت کدہ ہوسکتا ہے۔
تکوینی فیصلوں کی منطق دنیوی دانش سے ذرا بالا رہتی ہے۔ منصب نبوت سے سرفرازی کے لیے آپۖ کی عمر کا تعین چالیس برس رکھا گیا تھا۔ مکہ کے محمد ابھی پیمبر کے منصب سے سرفراز نہ کیے گئے تھے۔ آپۖ پر بچپن سے مگر ایک رحمت سایہ فگن رہتی تھی۔ الہٰی نور سے دنیا دیکھنے کی ایک سعادت بچپن سے آپۖ کے ذوق کو عطیہ کی گئی ۔ جس نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کو کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ چنانچہ انسانی دنیا کے آلودہ ماحول سے الگ تھلگ ایک جگہ کی جستجو بھی آپ میں ودیعت کی گئی ۔ اس جستجو نے جبلِ نور کے مقام سے مطمئن ہونا تھا، غارِ حرا سے تسکین پانا تھا۔ کوئی سمجھ نہیں سکتا پہلی وحی کا مطلب کیا ہے، اگر وہ جبلِ نور کی بلندیوں کو اپنے قدموں سے ناپ نہ لے، آنکھ بھر کر غارِ حرا کو نہ دیکھے، سیاہ چٹانوں کی کشش پر مائل قلب کو آسودہ نہ کرلے۔
مہینہ رمضان کا ہے، جسے بعد میں اعتکاف کی فضیلت بھی ملنی ہے، مگر اخلافِ اسماعیل کی خلوت گزینیاں کچھ اتنا اجنبی عمل بھی نہیں۔ حضرت محمد ۖ چالیس کے پیٹے میں آ گئے ہیں۔ مکہ کی سب سے باوقار خاتون حضرت خدیجہؓ ، آپۖ کے نکاح میں ہے۔ حضرتِ خدیجہؓ ایسی باوقار خاتون کی قبر پر جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھے تو یہ وقار مکہ کے سب سے قدیم قبرستان جنت المعلّی کی فضاؤں میں بھی محسوس ہوا۔ زمانے بیت جاتے ہیں، مگر مرتبے نہیں مرتے۔ اماں خدیجہؓ کی قبر پر ایک نور سایہ فگن رہتا ہے۔ کچھ عرب کھڑے تھے، فرما رہے تھے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سی قبر کن کی ہے، میں نے عرض کیا، آپ کو محسوس نہیں ہوتا یہ قبر کن کی ہے؟ کیا دل کہیں اور بھی اس طرح دھڑکتا ہے، محسوسات میں یہ طغیانی کسی اور جگہ بھی پیدا ہوتی ہے ۔ اُنہوں نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔ میں قرآن پڑھنے کی سعادت سمیٹنے لگا۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ وہ عظیم المرتبت خاتون ہیں جو انتہائی صعوبت کے دنوں میں آپۖ کے لیے ڈھارس کا باعث بنیں۔ یہ مقام اُن کے حصے میں آیا کہ آپۖ کے غارِ حرا کے تجربے کی حدت و شدت کو محسوس کیا۔ آدمی سوچتا ہے مکہ کے جمے جڑے قبائلی نظام کی عصبیت، تفوق و برتری کے قبائلی فخر سے پست اور بات بات پر خون سے لت پت ہوتے معاشرے میں اللہ رب العزت نے اپنے سب سے برگزیدہ بندے کو جب پکارنا چاہا تو پہلا لفظ کیا منتخب کیا : اقراء (پڑھ) ۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر، یہ نبوتۖ کے جاہ و جلال کو دیکھنے کا دن ہے۔ غارِ حرا رازدار ہے، جبلِ نور اس کا امین ہے۔ عہد کے عہد بیت جائیں گے، دور بدل جائیں گے، بادشاہتیں باقی نہ رہیں گی۔ مگر جبلِ نور کھڑا رہے گا۔ غارِ حرا کا فخر بھی باقی رہے گا۔ کوئی اس مقام کا اندازا بھی نہیں کر سکتا کہ جب مشرکین مکہ نے ہمارے نبیۖ کے لیے بیت اللہ کے دروازے بند کر دیے تو یہ سنگلاخ چٹانیں آپۖ کے لیے اپنی بانہیں کیسے کھول کے رکھتی تھیں۔ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی نہیں پہلا مقام بھی منتخب ہے۔ غار ِحرا۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر!!مسافر وہ مقام اپنی آنکھوں میں اُٹھا لایا ہے۔ کیا تجربہ رہا ہوگا؟
رمضان کے آخری عشرے کی ایک رات ہے۔ ایک فرشتہ آتا ہے، جس کا تعارف ابھی پیمبر سے نہیں ہوا، اور جسے بعد کے زمانوں میں جبریلِ امین پکارا جانا ہے۔ فرشتہ انسانی شکل میں ڈھل گیا ہے۔ آپ سے فرماتا ہے: پڑھو(اقراء)۔ جنہیں بعد کے زمانوں میں اصل و اساسِ علم ہونا ہے، آپۖ فرماتے ہیں، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ آپۖ کو پکڑ کر زور سے بھینچتا ہے، ہماری کیا مجال کے یہ لفظ استعمال بھی کریں، سرکارۖ نے خود فرمایا: میں نڈھال ہو گیا”۔ تب فرشتہ آپۖ کو چھوڑ کر پھر کہتا ہے: پڑھو۔ آپۖ جواب دُہراتے ہیں۔ فرشتہ اپنا عمل دُہراتے ہوئے پھر آپ کو زور سے بھینچتا ہے، یہاں تک کہ ہمارے پیارے نبیۖ نڈھال ہو جاتے ہیں۔ تین مرتبہ یوںہی ہوتا ہے۔ پھر فرشتہ سورة العلق کی جگمگاتی چھ آیتیں پڑھتا ہے، جن میں انسانی تخلیق و تعلیم کا امتزاجی الہٰی خاکہ موجود ہے:۔

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا
کیا۔ تو پڑھتا رہ ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا، جس نے
انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔

گاہے آدمی سوچتا ہے، انسان کے اصلاحِ احوال کا الہٰی منصوبہ ، وعظ ہے نہ عقیدت۔ یہ تو سیدھا سادہ علم کا راستا ہے۔ سرکار رسالت مابۖ کی تعلیمات علم کی بھی معراج ہے۔ الہٰی منصوبے میں دوسری وحی ایک مفرد لفظ (حروف مقطعات) سے شروع ہوئی جس کے معانی و مفاہیم کو انسانی غور وفکر کی حکمت عملی میں پنہاں رکھا گیا۔ پھر قلم کی قسم ہے، جو عالم کا پروردگار خود اُٹھا تا ہے۔ آدمی غور نہیں کرتا۔ سرکار دوعالمۖ کی پیروی کا مطلب کیا ہے؟ روشنیاں اور نعرے نہیں، آلودہ زندگی کے احساسِ گناہ سے نجات کے بہانے نہیں ڈھونڈنے چاہئے۔ راستی کا راستا ہی نجات کی منزل ہے۔ باقی سب حیلے اور بہانے ہیں، دھوکے اور ڈرامے ہیں۔ اسلام نے غم اور خوشی کی ایک تہذیب تشکیل دی ہے۔ ہم اسے بھی پستی کی اپنی سطح پر لے آئے۔ دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ سرکاررسالت مابۖ کی تعلیمات سے اپنے فہم کو سنوارنے کے بجائے اپنے فہم میں تعلیمات نبویۖ کو ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس باب میں ہمارے علماء بنی اسرائیل اور فریسیوں سے بھی بدتر نکلے۔ افسوس!!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

بس کر دیں سر جی!! وجود - منگل 11 اکتوبر 2022

طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...

بس کر دیں سر جی!!

پہلا سوال وجود - منگل 04 اکتوبر 2022

صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی م...

پہلا سوال

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال