وجود

... loading ...

وجود
وجود

بس کر دیں سر جی!!

منگل 11 اکتوبر 2022 بس کر دیں سر جی!!

طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!!
سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پراسرار جنم ہوا ، کراچی نے سکون کا کوئی لمحہ نہیں دیکھا۔ کراچی پر گرفت رکھنے کا عسکری ذہن دراصل مرکزی سیاست کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔رئیسِ عسکریہ جنرل ضیاء باتیں اسلام کی کرتے تھے، مگر اُنہیں کراچی کے اسلامی تشخص کی حامل سیاسی جماعتیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔عمران خان کی طرح ، جن کے اسلام کو کچھ مزاروں ، ایک تسبیح اور کچھ بھاشنوں نے سنبھال رکھا ہے۔ مگر عمل کی میزان پر شیخ کی طرح ہیں:

شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

ایم کیوایم تو ایک جماعت ہے، کسی بھی سیاست دان کا نسب ڈھونڈیں تو وہی”ہاتھ نکلتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “ملک محفوظ ہاتھوں میں ہیں”۔ جنرل ضیاء کا جُرم صرف یہ نہیں تھا کہ پنجاب میں جنرل جیلانی کے ذریعے نوازشریف کو مسلط کیا، بلکہ یہ بھی کہ کراچی کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تارپود بکھیر دینے والی ایک پرتشدد جماعت یہاں مسلط کردی ۔ ایم کیو ایم جنرل اسلم بیگ کے پنگھوڑے میں جھولتی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تک پہنچیں۔ لاڈ ایسے اُٹھائے کہ الطاف حسین، فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کے گھر رات کھانے کو پہنچ گئے، بیگم صاحبہ سے فرمایا میں جہاں بھی جاتا ہوں، عورتیں میرے لیے طرح طرح کے کھانے پکاتی ہیں، آپ نے میرے لیے خاص کیا پکایا ہے، بیگم صاحبہ نے جواب دیا میں جنرل کے لیے نہیں بناتی تو آپ کون ہیں جن کے لیے کھانا بناؤں”۔ جنرل اسلم بیگ نے بعد میں واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیگم نے جواب ”تراخ” سے دیا۔ تب کے “محفوظ ہاتھ” جنرل اسلم بیگ کے تھے، ائیر مارشل اصغر خان جن کے خلاف بعد میں مقدمہ عدالت لے گئے تھے۔ اسلم بیگ فرماتے ہیں کہ موصوف 1965ء کی جنگ میں ائیرفورس سے ہٹا دیے گئے تھے۔ اُن کے بقول یہ ”ہاتھ” محفوظ نہیں تھے۔ الطاف حسین نے بیگم صاحبہ کے جواب کے بعد ہاتھ دھو لیے۔ مگر گندے ہاتھ کا سارا پانی کراچی پر گرا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ یہاں جنرل پرویز مشرف کے محفوظ ہاتھ جادو دکھاتے تھے۔ ایک ادارے کے مقامی سربراہ نے عادل صدیقی کو ایم کیوایم کی بدعنوانیاں دکھائیں، خوش نہ ہوں، بدعنوانیوں کا ریکارڈ احتساب کے لیے نہیں بلکہ اُنہیں اپنی ڈھب پر رکھنے اور مرضی سے ہانکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ عادل صدیقی نے بھی”تراخ” سے جواب دیا کہ پارٹیاں چلانی ہوتی ہیں، پھر کیا کریں”۔ موصوف کیا فرماتے، اُن کی بھی توسیع ہوئی تھی اور جنرل مشرف سے سفارش اسی جماعت کی تھی۔ ادارے قومی مفادات کے نام پر پارٹیوں کو ہانکیں گے، اور پارٹیاں کٹھ پتلی بن کر مجرمانہ حرکتوں میں شراکت دار بن جائیں گی تو پھر اسی نوع کے واقعات جنم لیں گے۔ اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، سرجی!!
الطاف حسین کی 22اگست 2016 کی تقریر کے بعد ایم کیوایم کی عمارت جس دھماکے سے اڑی، موجودہ ایم کیو ایم نے بہادر آباد کے لاحقے کے ساتھ اسی ملبے سے جنم لیا۔ الطاف حسین سے طوعاً وکرھاً لاتعلقی اِختیار کرنے والی ایم کیو ایم اُس کی وراثت سے کبھی لاتعلق نہیں ہوئی۔ ایم کیوایم کا ورثہ بھی کیا خوب ہے۔ بوری بند لاشیں، نشانہ کشی کی وارداتیں اور ڈرل مشینیں ایک طرف رکھیں۔ جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے کے بعد 1988 کے انتخابات میں ایم کیوایم کا چال چلن طے کردیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت قائم کرنے سے لے کر اکھاڑنے تک جب جس کام کی ضرورت پڑے گی ، وہ سر جی ! سرجی کہتے ہوئے سرانجام دے گی۔ اس دوران نوّے کے عشرے میں جتنی حکومتوں کے بستر بچھے، ایم کیوایم طے شدہ وقت تک استراحت کرتی اور دام کھرے کرتی رہی۔ اس دوران میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں، جب جس جماعت کو چلتا کیا گیا، ایم کیوایم کو خاموشی سے کھسکا دیا گیا۔ کسی جماعت کی حکومت قائم کرنے میں مدد مقصود رہی تو ایم کیوایم کو وہاں لڑھکا دیا گیا۔ یہ کام کرتے کرتے ایم کیوایم کے لیے خود اپنی صورت بھی پہچانے جانے کے قابل نہیں رہی۔ اب دیکھیے! کامران ٹیسوری کو ہی لے لیں! ایم کیوایم خود کل اس نام پر کس طرح تقسیم ہوئی اور آج یہ اُن کے کوٹے پر گورنر ہیں۔ الطاف حسین کی تقریر کے اگلے روز 23 اگست کو ایم کیوایم بہادر آباد کے جس گروپ نے جنم لیا ، اور اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بانی سے علیحدگی اختیار کی، وہ اعلان کسی اور نے نہیں ، اپنے ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا تھا۔ مگر وہی ڈاکٹر فاروق ستار اُسی ایم کیو ایم سے رسوا کرکے نکالے گئے توا س کا سبب یہی کامران ٹیسوری تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے 2018 کے سینیٹ کا ٹکٹ کامران ٹیسوری کو دیا تو اس ایم کیوایم نے اِسے اتنا توہین آمیز سمجھا کہ خود ڈاکٹر فاروق ستار کو ہی پارٹی سے باہر اُٹھا پھینکا۔ اب یہ وہی ایم کیو ایم ہے، جس نے کامران ٹیسوری کو اچانک چند ہفتے قبل پارٹی میں شامل کر لیا۔ اگلے ہی ہفتے اُنہیں ڈپٹی کنوینر بنا دیا۔ ایم کیوایم رہنماؤں کو ماضی کے طرزِ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس فیصلے پر جب بھی سوال کیا گیا تو گاؤں کی الھڑ دوشیزہ کی طرح جو اپنے محبوب کا نام لینے کے بجائے” اِن ، اُن” سے کام چلاتی ہے، ایم کیوایم نے بھی شرما ، لجا کر ”اِن ، اُن” کی ہی کاریگری دکھائی۔ کامران ٹیسوری کے ہاتھوں میں کوئی تو ایسا جادو ہے، جس کی گردش نے در و بست کو نئی شکل وصورت دے دی ہے۔ دیکھیے سلیم کوثر بھی کب یاد آئے:

اک ہاتھ کی جنبش میں در و بست ہے ورنہ
گردش وہی کوزہ ہے وہی چاک وہی ہے

ملتان کی شاعرہ فاطمہ نوشین نے مگر راز ہی کھول دیا

اک طرف چاک پہ کوزے کو گھمانے کا ہنر
اک طرف ہاتھ پہ روٹی کو بڑھانے کا ہنر

کامران ٹیسوری ہضم نہ ہو سکیں گے۔ اپنے کاریگروں کی بھی رسوائی کا سامان کریں گے۔ دبئی کے حنیف مرچنٹ کے قصے پھیلیں گے، جن کے اربوں روپے ڈکار لیے گئے۔ کراچی کی زمینیں بولیں گی، جہاں قبضے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے کے گرد چار سو پلاٹ چیخیں گے۔ سونے کے دھندے پھندے بن جائیں گے۔ گٹکا مافیا کی سرپرستی عذاب بنے گی۔ ابھی ایک ایس ایچ او کو بھیجا گیا آئی فون اچانک چیخے گا کہ اُن کے علاقے کی کس زمین پر قبضے کو نظرانداز کرنے کی قیمت دی گئی۔ یہی نہیں ان گنت قصے چرچے بنیں گے۔ ایم کیوایم کا کیا ہے، وہ 1988ء سے چہرے، چولے، چشمے، سرچشمے، نعرے، نخرے، وعدے، بندے بدلتے بدلتے اپنی صورت اتنی بگاڑ چکی ہے کہ اُنہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ مگر سر جی! کامران ٹیسوری آپ پر بوجھ بنے گا۔ طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!!
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

جبلِ نور کی روشنی وجود - اتوار 09 اکتوبر 2022

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...

جبلِ نور کی روشنی

پہلا سوال وجود - منگل 04 اکتوبر 2022

صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی م...

پہلا سوال

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر