... loading ...
طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!!
سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پراسرار جنم ہوا ، کراچی نے سکون کا کوئی لمحہ نہیں دیکھا۔ کراچی پر گرفت رکھنے کا عسکری ذہن دراصل مرکزی سیاست کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔رئیسِ عسکریہ جنرل ضیاء باتیں اسلام کی کرتے تھے، مگر اُنہیں کراچی کے اسلامی تشخص کی حامل سیاسی جماعتیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔عمران خان کی طرح ، جن کے اسلام کو کچھ مزاروں ، ایک تسبیح اور کچھ بھاشنوں نے سنبھال رکھا ہے۔ مگر عمل کی میزان پر شیخ کی طرح ہیں:
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
ایم کیوایم تو ایک جماعت ہے، کسی بھی سیاست دان کا نسب ڈھونڈیں تو وہی”ہاتھ “ نکلتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “ملک محفوظ ہاتھوں میں ہیں”۔ جنرل ضیاء کا جُرم صرف یہ نہیں تھا کہ پنجاب میں جنرل جیلانی کے ذریعے نوازشریف کو مسلط کیا، بلکہ یہ بھی کہ کراچی کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تارپود بکھیر دینے والی ایک پرتشدد جماعت یہاں مسلط کردی ۔ ایم کیو ایم جنرل اسلم بیگ کے پنگھوڑے میں جھولتی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تک پہنچیں۔ لاڈ ایسے اُٹھائے کہ الطاف حسین، فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کے گھر رات کھانے کو پہنچ گئے، بیگم صاحبہ سے فرمایا میں جہاں بھی جاتا ہوں، عورتیں میرے لیے طرح طرح کے کھانے پکاتی ہیں، آپ نے میرے لیے خاص کیا پکایا ہے، بیگم صاحبہ نے جواب دیا میں جنرل کے لیے نہیں بناتی تو آپ کون ہیں جن کے لیے کھانا بناؤں”۔ جنرل اسلم بیگ نے بعد میں واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیگم نے جواب ”تراخ” سے دیا۔ تب کے “محفوظ ہاتھ” جنرل اسلم بیگ کے تھے، ائیر مارشل اصغر خان جن کے خلاف بعد میں مقدمہ عدالت لے گئے تھے۔ اسلم بیگ فرماتے ہیں کہ موصوف 1965ء کی جنگ میں ائیرفورس سے ہٹا دیے گئے تھے۔ اُن کے بقول یہ ”ہاتھ” محفوظ نہیں تھے۔ الطاف حسین نے بیگم صاحبہ کے جواب کے بعد ہاتھ دھو لیے۔ مگر گندے ہاتھ کا سارا پانی کراچی پر گرا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ یہاں جنرل پرویز مشرف کے محفوظ ہاتھ جادو دکھاتے تھے۔ ایک ادارے کے مقامی سربراہ نے عادل صدیقی کو ایم کیوایم کی بدعنوانیاں دکھائیں، خوش نہ ہوں، بدعنوانیوں کا ریکارڈ احتساب کے لیے نہیں بلکہ اُنہیں اپنی ڈھب پر رکھنے اور مرضی سے ہانکنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ عادل صدیقی نے بھی”تراخ” سے جواب دیا کہ پارٹیاں چلانی ہوتی ہیں، پھر کیا کریں”۔ موصوف کیا فرماتے، اُن کی بھی توسیع ہوئی تھی اور جنرل مشرف سے سفارش اسی جماعت کی تھی۔ ادارے قومی مفادات کے نام پر پارٹیوں کو ہانکیں گے، اور پارٹیاں کٹھ پتلی بن کر مجرمانہ حرکتوں میں شراکت دار بن جائیں گی تو پھر اسی نوع کے واقعات جنم لیں گے۔ اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، سرجی!!
الطاف حسین کی 22اگست 2016 کی تقریر کے بعد ایم کیوایم کی عمارت جس دھماکے سے اڑی، موجودہ ایم کیو ایم نے بہادر آباد کے لاحقے کے ساتھ اسی ملبے سے جنم لیا۔ الطاف حسین سے طوعاً وکرھاً لاتعلقی اِختیار کرنے والی ایم کیو ایم اُس کی وراثت سے کبھی لاتعلق نہیں ہوئی۔ ایم کیوایم کا ورثہ بھی کیا خوب ہے۔ بوری بند لاشیں، نشانہ کشی کی وارداتیں اور ڈرل مشینیں ایک طرف رکھیں۔ جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے کے بعد 1988 کے انتخابات میں ایم کیوایم کا چال چلن طے کردیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت قائم کرنے سے لے کر اکھاڑنے تک جب جس کام کی ضرورت پڑے گی ، وہ سر جی ! سرجی کہتے ہوئے سرانجام دے گی۔ اس دوران نوّے کے عشرے میں جتنی حکومتوں کے بستر بچھے، ایم کیوایم طے شدہ وقت تک استراحت کرتی اور دام کھرے کرتی رہی۔ اس دوران میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں، جب جس جماعت کو چلتا کیا گیا، ایم کیوایم کو خاموشی سے کھسکا دیا گیا۔ کسی جماعت کی حکومت قائم کرنے میں مدد مقصود رہی تو ایم کیوایم کو وہاں لڑھکا دیا گیا۔ یہ کام کرتے کرتے ایم کیوایم کے لیے خود اپنی صورت بھی پہچانے جانے کے قابل نہیں رہی۔ اب دیکھیے! کامران ٹیسوری کو ہی لے لیں! ایم کیوایم خود کل اس نام پر کس طرح تقسیم ہوئی اور آج یہ اُن کے کوٹے پر گورنر ہیں۔ الطاف حسین کی تقریر کے اگلے روز 23 اگست کو ایم کیوایم بہادر آباد کے جس گروپ نے جنم لیا ، اور اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بانی سے علیحدگی اختیار کی، وہ اعلان کسی اور نے نہیں ، اپنے ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا تھا۔ مگر وہی ڈاکٹر فاروق ستار اُسی ایم کیو ایم سے رسوا کرکے نکالے گئے توا س کا سبب یہی کامران ٹیسوری تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے 2018 کے سینیٹ کا ٹکٹ کامران ٹیسوری کو دیا تو اس ایم کیوایم نے اِسے اتنا توہین آمیز سمجھا کہ خود ڈاکٹر فاروق ستار کو ہی پارٹی سے باہر اُٹھا پھینکا۔ اب یہ وہی ایم کیو ایم ہے، جس نے کامران ٹیسوری کو اچانک چند ہفتے قبل پارٹی میں شامل کر لیا۔ اگلے ہی ہفتے اُنہیں ڈپٹی کنوینر بنا دیا۔ ایم کیوایم رہنماؤں کو ماضی کے طرزِ عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس فیصلے پر جب بھی سوال کیا گیا تو گاؤں کی الھڑ دوشیزہ کی طرح جو اپنے محبوب کا نام لینے کے بجائے” اِن ، اُن” سے کام چلاتی ہے، ایم کیوایم نے بھی شرما ، لجا کر ”اِن ، اُن” کی ہی کاریگری دکھائی۔ کامران ٹیسوری کے ہاتھوں میں کوئی تو ایسا جادو ہے، جس کی گردش نے در و بست کو نئی شکل وصورت دے دی ہے۔ دیکھیے سلیم کوثر بھی کب یاد آئے:
اک ہاتھ کی جنبش میں در و بست ہے ورنہ
گردش وہی کوزہ ہے وہی چاک وہی ہے
ملتان کی شاعرہ فاطمہ نوشین نے مگر راز ہی کھول دیا
اک طرف چاک پہ کوزے کو گھمانے کا ہنر
اک طرف ہاتھ پہ روٹی کو بڑھانے کا ہنر
کامران ٹیسوری ہضم نہ ہو سکیں گے۔ اپنے کاریگروں کی بھی رسوائی کا سامان کریں گے۔ دبئی کے حنیف مرچنٹ کے قصے پھیلیں گے، جن کے اربوں روپے ڈکار لیے گئے۔ کراچی کی زمینیں بولیں گی، جہاں قبضے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے کے گرد چار سو پلاٹ چیخیں گے۔ سونے کے دھندے پھندے بن جائیں گے۔ گٹکا مافیا کی سرپرستی عذاب بنے گی۔ ابھی ایک ایس ایچ او کو بھیجا گیا آئی فون اچانک چیخے گا کہ اُن کے علاقے کی کس زمین پر قبضے کو نظرانداز کرنے کی قیمت دی گئی۔ یہی نہیں ان گنت قصے چرچے بنیں گے۔ ایم کیوایم کا کیا ہے، وہ 1988ء سے چہرے، چولے، چشمے، سرچشمے، نعرے، نخرے، وعدے، بندے بدلتے بدلتے اپنی صورت اتنی بگاڑ چکی ہے کہ اُنہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ مگر سر جی! کامران ٹیسوری آپ پر بوجھ بنے گا۔ طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!!
٭٭٭٭
رات تعمیر کرنے والے اکثر اندھے پن کے شکار ہوتے ہیں۔ صبح دم بھی اُن کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ بس وہ ایک عبرت ناک سبق کے طور پر تاریخ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ ماہر طبیعات ابن الہشیم نے کتاب المناظر میں سائنس کا کوئی اُصول بیان کیا ہوگا، جب کہا: آنکھ روشنی کو نہیں دیکھتی؛ بلکہ روشنی آ...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...
صحافت میں سب سے زیادہ اہمیت پہلے سوال کی ہے۔ پہلا سوال اُٹھانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلا سوال کیا بنتا ہے، یہ مسئلہ صلاحیت کے ساتھ صالحیت سے بھی جڑا ہے؟ ایک باصلاحیت شخص ہی پہلے سوال کا ادراک کرپاتا ہے، مگر ایک صالح شخص ہی اپنی م...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...