وجود

... loading ...

وجود
وجود

وڈیرہ شاہی اور ڈاکو کلچر

منگل 19 اپریل 2016 وڈیرہ شاہی اور ڈاکو کلچر

chotu gange

قاضی فضل اللہ لاڑکانہ کے سیاستدان تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی ان سے سیاست سیکھا کرتے تھے۔ مرحوم قاضی فضل اللہ نے مرتے دم تک کوئی جاگیر یا حویلی نہیں بنائی۔ اِس باکردار سیاسی رہنما کے لیے مشہور ہے کہ ایوب خان کی حکمرانی میں وہ وزیرداخلہ بنے تو ڈاکو اور جرائم پیشہ سندھ چھوڑگئے تھے۔ سندھ کے موجودہ وزیرداخلہ سہیل انور سیال کا تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے لیکن ان کے دور میں آئی جی سندھ پولیس غلام حیدر جمالی کو کرپشن اور مجرموں کی سرپرستی کے الزام میں ’’عدالتی حکم‘‘ پر عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔

آج راجن پور کے چھوٹو گینگ نے ریاست کو للکار کر پنجاب حکومت کو ناکوں چنے چبوادیئے ہیں۔ اس کی پشت پر جنوبی پنجاب کے بڑے جاگیردار اور تمن دار ہیں، چھوٹو گینگ نے ریاست کے اندر ریاست قائم کررکھی ہے جو خوف ودہشت کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ پولیس قاضی فضل اللہ یا میاں ممتاز دولتانہ کے دور کی پولیس نہیں ہے جس کے اہلکار کی چھڑی دیکھ کر جرائم پیشہ سہم جاتے تھے۔ چھوٹو ڈاکو کو ’’بڑا‘‘ بنانے میں موجودہ نظام شریک ہے۔ چھوٹو کے حوالے سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق رحیم یار خان اور راجن پور میں پولیس کو 48 مقدمات میں مطلوب خوف ودہشت کی علامت ڈکیت غلام رسول عرف چھوٹو کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر ہے۔ جس نے کچے کے علاقے میں اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔

موجودہ پولیس قاضی فضل اللہ یا میاں ممتاز دولتانہ کے دور کی پولیس نہیں ہے جس کے اہلکار کی چھڑی دیکھ کر جرائم پیشہ سہم جاتے تھے۔ چھوٹو ڈاکو کو ’’بڑا‘‘ بنانے میں موجودہ نظام شریک ہے۔

پنجاب اور سندھ میں ڈکیت گروہوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ایک وقت میں یہ متوازی حکومت بھی چلاتے رہے ہیں۔ ان کی سرپرستی علاقے کے با اثر زمیندار ، منشیات اور اسلحہ کے اسمگلر کرتے ہیں۔ ضلع راجن پور صوبہ پنجاب کا دور افتادہ اور آخری ضلع ہے جو صوبہ سندھ کے آخری ضلع کشمور سے ملحقہ ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی جانب کے وسیع و عریض علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مغرب کی جانب کوہ سلیمان کا طویل پہاڑی سلسلہ ہے جس کے ساتھ صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے شامل ہیں۔ یہاں چھوٹو گروپ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے صولت مرزا یا عزیر بلوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے پنجاب حکومت نے عجلت میں اس گروپ کے خلاف آپریشن ترتیب دیا جو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآ خر فوج کی مدد لے لی گئی ہے۔

پاکستان کا حکمران طبقہ ہر ’’بے عزتی‘‘ سے ’’باعزت‘‘ باہر آتا رہاہے۔ اس کا بنیادی سبب نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

جرائم پیشہ عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں عرصے سے موجود ہیں جو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں آ کر لوٹ مار کر کے بحفاظت واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر اب یہ علاقہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی گزرگاہ بننے والا ہے۔ اس لئے اس کی سیکورٹی ترجیح بن چکی ہے۔ اور اس علاقے کو گینگسٹرز سے واگزار کرانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ جن میں سب سے اہم گروپ کا نام چھوٹو گروپ ہے۔ بلوچستان میں جاری حالیہ یورش کی وجہ سے بلوچستان لبریشن آرمی کا نام بھی چھوٹو گینگ کے ساتھ لیا جا رہا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ کچے کا علاقہ بی ایل اے کے لیے بھی جائے پناہ ہے۔ جہاں بھارتی ایجنسی ’’را ‘‘کے لوگ بھی موجود ہیں۔ اس طرح چھوٹو گینگ جو پہلے اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث تھا اب وہ ملکی سلامتی کے لیے بھی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ پنجاب حکومت نے چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کا فیصلہ گلشن اقبال لاہور کی دہشت گردی کے بعد کیا۔ اگرچہ یہ بتایا نہیں گیا کہ اس واقعہ میں بھی چھوٹو گینگ ملوث ہے یا نہیں تاہم اچانک کچے کے علاقے کو ڈکیت گروہوں سے پاک کرنے کا مقصد پورے علاقے میں پولیس کی عملداری قائم کرنا اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل پولیس پانچ بار چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کر چکی ہے اور ہر بار اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ یہ چھٹا آپریشن ہے جس میں درجن بھر پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں اور دو درجن کے قریب یر غمال ہیں۔ جو گینگ اینٹی ایئرکرافٹ گنوں اور مارٹر گولوں سے لیس ہو اس کے مقابلے کے لیے اگر فی اہلکار ڈیڑھ سو گولیاں دے کر میدان میں اتارا جائے گا تو یہ بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے۔ بہرحال اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاک فوج کے کمانڈوز میدان میں اتر چکے ہیں جن کی مدد کے لیے گن شپ ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں۔

ڈکیت غلام رسول عرف چھوٹو کا تعاقب، چار اضلاع کی پولیس برسوں سے کر رہی ہے۔ اس پر کئی پولیس اہلکاروں کے قتل کا الزام ہے۔ بیسیوں زمینداروں اور مالدار شخصیات کو اغوا ء کر کے کروڑوں روپے تاوان وصول کر چکا ہے۔ گلگت سے گوادر تک کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ رابطے ہیں۔ کئی بار پولیس کے گھیرے میں آیا مگر فرار ہو نے میں کامیاب ہو گیا جس پر کہا گیا کہ اس کو پولیس کے اندر سے معلومات مل جاتی ہیں۔

چھوٹو گینگ کی ابتدا 2001ء میں رحیم یار خان میں ہوئی۔ شروع میں اس نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کیں تب اسے بوسن گینگ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا سرغنہ طارقی بوسن تھا۔ یہ گینگ شروع میں چوری اور ڈکیتی کی معمولی وارداتوں میں ملوث تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس گینگ میں اور بھی جرائم پیشہ لوگ شامل ہوتے رہے۔ چھوٹی موٹی وارداتوں سے اس گینگ کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی آخر کار یہ ایک مضبوط گروپ کی شکل اختیار کر گیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بدنام زمانہ ڈاکو مریدا نتکانی نے جب اس گروپ میں شمولیت اختیار کی تو جدید اسلحہ کی فراہمی کو یقینی بنایا یہیں سے اس گروپ میں بی ایل اے کا عمل دخل بھی بڑھ گیا۔ بلوچستان میں سرگرم بی ایل اے کے لیے کچے کا علاقہ عارضی پناہ گاہ بن گیا۔ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتیں جنوبی پنجاب کے چار اضلاع راجن پور، مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان میں بہت بڑھ گئیں۔ پھر ایک وقت ایسابھی آیا جب یہ گروپ دو دھڑوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گیا۔ ایک دھڑا طارقی بوسن کا تھا اور دوسرا عقیلا بوسن کا۔ 7 نومبر 2003ء کو بیٹ بوسن میں مبینہ پولیس مقابلہ میں عقیلا بوسن مارا گیا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں رقم کے اختلاف پر غلام رسول چھوٹو اور طارقی بوسن بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ 9 نومبر 2005ء کو چھوٹو نے طارقی بوسن کو تاوان کی رقم لینے کے لیے صادق آباد کے نزدیک کچے کے علاقے میں بلوایا اور فائرنگ کر کے طارقی بوسن اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ بات بھی عام تھی کہ چھوٹو نے نشہ آور چیز کھلا کر پولیس کو اطلاع کر دی پولیس نے نشہ کی حالت میں طارقی بوسن اور اس کے ساتھیوں پر گولیاں چلادیں جس سے وہ سب کے سب مارے گئے۔ طارقی بوسن کے مارے جانے کے بعد کچے کے تمام ڈاکو مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ چھوٹو نے ان ڈاکوں سے رابطے کیے اور چھوٹو گینگ کے نام سے ایک مضبوط گینگ بنا لیا۔ یہیں سے اس گروپ کی بالادستی کا آغاز ہوا۔ علی پور کے کچے سے تعلق رکھنے والے خدا بخش المعروف کھدلی بھنڈ کو چھوٹو نے بھنڈ گینگ کا سرغنہ بنایا اور یہ گینگ بھی جنوبی پنجاب میں خطرناک شکل اختیار کر گیا۔ 15 مارچ 2010ء کو کھدلی بھنڈ بھی چھوٹو کی مخالفت کی نذر ہو گیا۔ چھوٹو نے کچے کے علاقے میں کھدلی بھنڈ اور اس کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس نے کھدلی بھنڈ کی موت کو بھی پولیس مقابلے کا نام دیا۔ چھوٹو نے کھدلی بھنڈ گینگ کے بچے کچھے ڈاکوں کو اپنے گینگ میں شامل کرلیا۔

2010ء میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اتنی بڑھی کہ شہریوں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا جس پر پنجاب حکومت نے کچے میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے راجن پور میں سہیل ظفر چٹھہ اور رحیم یار خان میں سہیل حبیب تاجک ڈی پی اوز تعینات کر دیے گئے۔ آپریشن کی قیادت اس وقت کے آر پی او بہاولپور سید عابد قادری نے کی۔ 30 مارچ 2011ء کو راجن پور کی پولیس کچے کے نوگو ایریا کچہ کراچی ، کچہ عمرانی اور کچی جمال میں داخل ہو گئی۔ غلام رسول چھوٹو کے گھر پر بھی پولیس نے چوکی بنا دی کچہ میں پولیس کی22 چوکیاں بنیں۔ 25 مئی 2011ء کو رانا پٹ نے اپنے ساتھی ڈاکو کے ہمراہ عمرانی چوکی پر ہلہ بول دیا۔ اس حملے کے دوران پولیس مقابلہ ہوا۔ جس میں رانا پٹ مارا گیا اور ایک اے ایس آئی راجن پور پولیس ندیم بالا چانی شہید ہوا۔ ڈاکو جاتے ہوئے سات پولیس اہلکار بھی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں روجھان کی بااثر سیاسی شخصیات کے ذریعے ان ڈاکوں کے ساتھ پولیس کے مذاکرات ہوئے اور ڈاکوں نے پولیس اہلکار بااثر سیاسی شخصیات کے حوالے کر دیے۔ ڈاکو کچے کے علاقہ سے صحیح سلامت بچ نکلے کے بعد منظم ہونا شروع ہو گئے اور بلوچستان سے ان کو جدید اسلحہ ملتا رہا۔ ایک بار چھوٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ نیشنل ہائی وے پر سفر کر رہا تھا، جب احمد پور شرقیہ کے ٹول پلازے پہ پہنچا تو پولیس نے ایک مرتبہ پھر چھوٹو کو بھاگنے کا موقع دیا۔ چھوٹو پولیس کی بھاری نفری کے باوجود فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اس کے تین ساتھی بہاولپور پولیس نے گرفتار کر لیے۔ 11 اپریل 2013ء کو بنیادی مرکز صحت کے ڈاکٹر خان وزیر لاہور سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ملتان کے نزدیک بستی ملوک سے ڈسپنسر نذیر اور ڈاکٹر کے بیٹے جہانزیب کو اغوا کر لیا گیا چھوٹو نے ڈاکٹر خان وزیر کی بازیابی اپنے ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط کر دی لیکن جب چھوٹو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تواْس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 6 جولائی 2013ء کی شب کچی جمال کی پولیس چوکی پر حملہ کر دیا اور 9 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران ڈاکوؤں نے پنجاب پولیس کو للکارا اور 45 گنیں جن میں ایس ایم جی اور جی تھری شامل ہیں سات ہزار گولیوں کے ساتھ چھین لیں۔ چھوٹو گینگ کی اس غیر معمولی کارروائی کا مقصد پولیس چوکیوں کا خاتمہ اوران کے ساتھیوں عبدالرزاق، بشیراحمد اوراسحاق سمیت خواتین بچوں جو پولیس کے زیر حراست تھے کو چھڑوانا مطلوب تھا۔ کچی جمال پر حملے کی اطلاع پر چار اضلاع کشمور، گھوٹکی ، راجن پور اور رحیم یار خان کی پولیس نے کچے کے تمام علاقے کو گھیر لیا۔ پولیس نے مذاکرات کے ذریعے پولیس اہلکاروں کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام رہے۔ چھوٹو نے اپنے تین ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ کچے سے پولیس چوکیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس نے جب چھوٹو کے مطالبات نہ مانے تو چھوٹو نے ایک ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر شہید کر دیا پھر اچانک چھوٹو چالیس ڈاکوں اور پولیس مغویان کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری کی موجود گی میں کچے کے علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

چھوٹو گینگ کے پاس جدید اسلحہ ہے جبکہ پولیس کے پاس روایتی ہتھیار ہیں اس لئے پولیس اہلکار کچے کے علاقے میں چیک پوسٹوں پر ڈیوٹی سر انجام دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان حالات میں جب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جنوبی پنجاب کے سرداروں جن میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی گورچانی، انکے والد سردار پرویز اقبال خان گورچانی مزاری قبیلے کے سرداروں کو بلا کرکہا کہ آپ لوگ ڈاکوؤں کی سرپرستی ختم کر دیں کیونکہ فوج ان کے خلاف آپریشن کرنے والی ہے یہ نہ ہو کہ ان کی حمایت پر آپ لوگ بھی زیر عتاب آ جائیں جس پر سردار پرویزاقبال خان گورچانی نے ملٹری پولیس کو مخبری کی اور غلام رسول مزاری عرف آصف چھوٹوکے گینگ کے اہم ملزم علی گلبازگیر گورچانی اور اس کے بھائی پندی کو پناہ دینے کے بہانے بلا کر ان کے سر تن سے جد اکر دیئے اور پھر پولیس کو بلا کرنعشیں ان کے حوالے کردیں۔ جس پر چھوٹو گروپ کے سرغنہ نے خود کو فوج کے حوالے کرنے کی آفر بھی کی تھی۔ لیکن خیال کیا جا رہا ہے اگر ایسا ہو گیا تو چھوٹو گروپ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کے لیے صولت مرزا یا عزیر بلوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے پنجاب حکومت نے عجلت میں اس گروپ کے خلاف آپریشن ترتیب دیا جو اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بالآ خر فوج کی مدد لی گئی ہے۔ اگر غلام رسول المعروف چھوٹو زندہ پکڑا گیا تو ایوانوں میں بیٹھے کئی سیاستدانوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا۔

پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے سابق صدر اور سابق رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے از خود جلاوطنی سے کراچی واپسی پر رینجرز کے روبرو اہم انکشافات کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لیاری گینگ وار جو بھتہ جمع کرتی تھی اس میں آدھی رقم ایک اہم شخصیت کو بھیجی جاتی تھی، جس کے بدلے گینگ وار کے کسی بھی کارکن کو گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ شہر میں گینگ وار کی مدد سے انہوں نے 6 پیٹرول پمپس، 7 سی این جی اسٹیشن سستے داموں پر خریدے۔ ماڑی پور، حب اور شہر کے دیگر علاقوں میں زمینوں پر قبضے کرکے اپنے نام پر کروائی، جس کے ڈاکومینٹس بھی انہوں نے رینجرز کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کئے۔ لیاری میں نبیل گبول سمیت دیگر مخالفین اور ان کے ہمدردوں کو ڈرادھمکا کر لیاری سے بھاگنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور جو آنکھیں دکھاتے تھے، انہیں گینگ وار کے ذریعے قتل کروایا جاتا تھا۔

عام انتخابات 2013 کے دوران عزیر بلوچ کو راضی رکھنے کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ پارٹی قیادت گینگ وار کی جانب سے جمع ہونے والی بھتے کی رقم میں حصہ بڑھانے پر پریشر ڈالتی تھی، یہی بات عزیر بلوچ نہیں مانتا تھا، جس کی وجہ سے پارٹی قیادت اور ہمارے درمیان اختلافات بڑھ گئے اور مجھے پارٹی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ قادر پٹیل نے لیاری گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو پی پی کے سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے ہزاروں اسلحہ لائسنس کی فراہمی کابھی پول کھول دیا اور بتایا کہ مذکورہ اسلحہ لائسنس بھی گینگ وار سرغنہ عزیر بلوچ کو اپنے سب سے بڑے مخالفین متحدہ دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے جاری کئے گئے اور گینگ وار کے عسکری ونگ میں شامل خواتین کے تمام معاملات لیاری سے تعلق رکھنے والی پی پی کی خاتون رہنما ثانیہ بلوچ دیکھتی تھیں۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گینگ وار کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو سندھ پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ کراچی آپریشن کے دوران لیاری گینگ وار کے لیے کام کرنے والے کئی پولیس اہلکاروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی، جنہوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ ان کو پولیس میں قادر پٹیل کی سفارش پر بھرتی کیا گیا اور گینگ وار میں ایک ونگ بنایا گیا تھا جو گینگ وار دہشت گردوں کو پولیس یونیفارم اور پولیس نما طرز سے شہر کے مختلف علاقوں سے اپنے مخالفین اور اردو بولنے والے نوجوانوں کو اغواء کرنے کے بعد انہیں قتل کرکے لاشیں لیاری کے متصل علاقوں میں پھینکی جاتی تھیں۔ عزیر بلوچ کے حریف ارشد پپو اور اس کے بھائی کو بھی پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے پکڑ کر قتل کیا تھا اور لیاری میں ان کے سروں سے فٹ بال کھیلی گئی تھی۔

پیپلزپارٹی کے کراچی میں اہم رہنما عبدالقادرپٹیل کے ان انکشافات نے پارٹی قیادت کے لیے مزید مسائل پیدا کردیئے ہیں، کئی عالی’’ مرتبت‘‘ سیاستدانوں کے لیے ایسے انکشافات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان کااثرورسوخ، طاقت اور پیسہ ہر جگہ ڈھال بن کر ان کی حفاظت کے لیے آگے آجاتا ہے۔

آج پاناما لیکس کا بڑا شوروغوغا ہے۔ اس سے قبل2010ء میں وکی لیکس کی طوفانی ہواؤں نے کئی چہروں سے نقاب الٹے تھے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی سرے محل اور کئی اسکینڈل منسوب ہوئے تھے لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ ہر ’’بے عزتی‘‘ سے ’’باعزت‘‘ باہر آتا رہاہے۔ اس کا بنیادی سبب نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ 1973ء کے دستور کی 18 ویں ترمیم نے لوٹ مار کے اس نظام کو مزید تقویت عطا کردی ہے جس کے تحت موجودہ یا سابق حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کے خلاف پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بغیر کوئی کارروائی ممکن نہیں ہے اور بیشتر پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس آج تک منعقد نہیں ہوئے ہیں۔

حکمران طبقے کی سب سے بڑی کمزوری احتساب اور سزا ہے، پاکستان کے جاگیردارانہ معاشرے میں صرف فوج ہی وہ ادارہ ہے جس میں جاگیرداروں اور بدعنوان سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت، جرأت اور طاقت ہے۔ آج حکمران طبقے کے سرخیل لندن میں جمع ہیں۔ ان کے اثرورسوخ اور دولت میں اضافے کے لیے ان کے ’’فرنٹ مین‘‘ آف شور کمپنیاں اور چھوٹو جیسے ڈاکو دن رات کام میں مصروف ہیں۔ آج لیاری کے عزیر بلوچ کا تذکرہ ہے تو کل رحمان ڈکیت اور بھوپت ڈاکو یہی کردار ادا کرتے تھے۔ ڈاکو اور طوائف جاگیردارانہ معاشرے کی پیداوار ہیں۔ آج کی ایان علی والا کردار کل شبنم عثمان جیسی ماڈل انجام دیا کرتی تھیں۔ چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں، بدعنوانوں کے خاتمے کے لیے دستور کو بدلناہوگا اور نیا آئین لانا ہوگا جس میں حقوق سے محروم تمام آبادی کو اس کا جائز حق دینا ہوگا, ورنہ موجودہ نظام کی کوکھ سے چھوٹو ڈاکو اور رحمان ڈکیت پیدا ہوتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس وجود - منگل 01 فروری 2022

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...

سپریم کورٹ کا اعتراض، تاحیات  نااہلی کے خلاف درخواست واپس

نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا؟ وجود - جمعرات 11 نومبر 2021

47 سال قبل نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا،کیا11 نومبر کی تاریک رات میں سینئروکیل احمد رضاخان قصوری کے والد کے قتل کی اس واردات کے اصل محرکات پر کبھی روشنی پڑے گی؟یہ سوال آج بھی جواب کا منتظر ہے ،برطانوی نشریاتی ادارے نے اس بارے میں ایک...

نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل ذوالفقار  بھٹو کی پھانسی کی وجہ کیسے بنا؟

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...

پینڈورا لیکس میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرنے کا مطالبہ،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کاوزیراعظم کو خط

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...

پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھل گیا

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟ صبا حیات - بدھ 26 اکتوبر 2016

یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی! نجم انوار - جمعرات 20 اکتوبر 2016

اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی!

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

حکومت مخالف تحریک، پیپلز پارٹی ’’اپنا کماؤ اپنا کھاؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا نعیم طاہر - هفته 01 اکتوبر 2016

تحریک انصاف حکومت کے خلاف پانامالیکس کے معاملے پر تحریک چلارہی ہے‘ پیپلزپارٹی بھی اس تحریک میں ان کے ساتھ ہے‘ نیم دلی کے ساتھ اعتزازاحسن بڑھ بڑھ کر حکومت پر حملے کررہے تھے مگر پھر عمران خان نے تحریک میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ایک ایک کرکے سب ہی جدا ہوتے گئے۔ شیخ رشید نے...

حکومت مخالف تحریک، پیپلز پارٹی ’’اپنا کماؤ اپنا کھاؤ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا

وفادار اور غدار! مختار عاقل - پیر 26 ستمبر 2016

بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...

وفادار اور غدار!

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟ عارف عزیز پنہور - هفته 24 ستمبر 2016

ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان مختار عاقل - پیر 19 ستمبر 2016

کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر