وجود

... loading ...

وجود
وجود

کھیل

بدھ 18 نومبر 2015 کھیل

muslims

مسلم دنیا اپنے حکمرانوں کی طرح پسپائی کی ذہنی حالت سے نکلنے کو تیار نہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران تو مغرب کے اُگلے ہوئے نوالے چباتے رہتے ہیں۔ مغرب اپنے حقائق کا ایک عارضی ماحول بناتا ہے، مسلم حکمران جس کے شکار رہتے ہیں۔ مگر رفتہ رفتہ خود مسلم دنیا کے عام لوگ بھی اِسی فریب خوردہ ماحول سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ خام اور کچے پکے دانشور جو سرکاری ماحول میں چمکنا دمکنا چاہتے ہیں، اس فریب خوردہ ماحول کو مزید فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔

پیرس میں ہونے والے حملے مغرب کے طریقۂ واردات کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع بن کر سامنے آئے ہیں۔ مگر مسلم دنیا کی پسپا ذہنیت غور وفکر پر آمادہ نہیں۔ وہ مغرب کو یہ باور کرانے پر تُلے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا۔ ارے بھائی! یہ آپ سے زیادہ اُن کو پتا ہے۔ مغرب صرف یہ نہیں جانتا کہ ہم اپنے فکری پسِ منظر میں آدرش امن کی کون سی مذہبی تعلیم رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ اس سے بڑھ کر ہماری عسکری صلاحیت کی نارسائیوں سے بھی واقف ہے۔ مغربی ممالک یہ جانتے ہیں کہ کسی میدان میں لڑنے کے لئے کہاں کہاں کون کون سے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مغرب کے خلاف محاذآرا قوتوں کو بھی اپنی جنگوں کے لئے وہی ہتھیار بلا تعطّل مہیا ہوتے رہتے ہیں۔ مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ، بجائے خود ایک معذرت خواہانہ روش ہے۔ یہ مسلمانوں کی مغرب سے ہی ناواقفیت کا نتیجہ نہیں، بلکہ خود اپنے آپ سے بھی لاعلمی کا مظہر ہے۔ نوگیارہ کے حملوں سے مسلم دنیا کی ذہنی پسپائی اور اختلالِ اعصاب کا جو سفر شروع ہوا تھا،وہ پیرس حملوں کے بعد اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔

نوگیارہ اور پیرس حملوں میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں حملوں سے قبل دونوں ممالک اچھی طرح آگاہ تھے کہ اُن کے ممالک پر یہ حملے ہونے والے ہیں۔ مگر امریکا اور فرانس دونوں نے یہ حملے ہونے دیئے۔ باب وڈورڈ نے نوگیارہ کے حملوں پر اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’بش ایٹ وار‘‘ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ حملوں کے عین وقت ۱۱؍ ستمبر کو سی آئی اے کا سربراہ جارج ٹینٹ وائٹ ہاؤس کے شمال میں واقع سینٹ ریجس ہوٹل میں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ چیئرمین ڈیوڈ بورن سے ملاقات میں یہی بات بتانے میں مصروف تھا کہ امریکا پر کسی بھی وقت دہشت گردی کے حملے متوقع ہیں۔ جارج ٹینٹ سے ڈیوڈ بورن کا تعلق تیرہ سال پُرانا تھا ۔ اگرچہ بورن کی ہی بدولت جارج ٹینٹ امریکا کے اس اہم ترین منصب پر پہنچنے کے قابل ہوا تھا مگر ٹینٹ کی بورن سے ملاقات کوئی معمول کی بات نہیں تھی۔ اُس روز بش فلوریڈا جارہے تھے مگر جارج ٹینٹ نے اُن کو معمول کے مطابق اُس صبح کوئی خفیہ رپورٹ یا بریفنگ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ مگر جارج ٹینٹ نے بورن کو امریکا پر ہونے والے ممکنہ حملوں کے خطرے سے ضرور آگاہ کیا۔ عین اُسی وقت سی آئی اے کے سربراہ کوبتایا گیا کہ امریکا اس وقت حملوں کی زد میں ہے۔

پاکستان کے کچے پکے دانشور اور منقّیٰ بننے کے ضدی بغیر پکے ہوئے انگور، اپنی معرکہ آرا تحریروں میں اُنہیں بے وقوف گرداننے کے لئے اپنا پورا زورِ قلم صرف کر دیتے ہیں جو نوگیارہ کو امریکا کی اندرونی کارستانی(اِن سائید جاب) قراردیتے ہیں۔ مگر خود امریکا میں جو دانشورنوگیارہ کو امریکا کے اندرونی کھیل کا ایک نہایت مکارانہ اور مکروہ حصہ سمجھتے ہیں، وہ خود مغربی معیارات میں وہاں کے اعلیٰ ترین دانشور سمجھے جاتے ہیں۔

اب یہ سوئے اتفاق ہے یا حُسن ِ انتظام کہ پیرس حملوں کا معاملہ بھی شکوک کے ان ہی سایوں میں گھرا ہواہے۔ پیرس حملوں سے صرف دوہفتے قبل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ جان برینن اور فرانس کے ڈی جی ایس ای(ڈائریکٹر برائے خارجہ سیکورٹی)کے درمیان ایک اہم اور خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔ جو ممکنہ طور پر مشرقِ وسطیٰ کی نئی تشکیل کے ممکنہ حالات سے متعلق تھی۔ ابھی اس پہلو کو یہیں چھوڑ کر ایک دوسرے رخ کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

امریکی خفیہ ادارے امریکا پر ممکنہ حملوں کے بارے میں کافی معلومات رکھنے کے باجودہ حملوں کو روک نہیں سکے۔ اسی طرح فرانس کامعاملہ بھی ہے۔ برطانوی اخبار میل نے دعویٰ کیا ہے کہ بتاکلان تھیٹر کے قریب مارا گیا دہشت گرد، دراصل پیرس کا ہی رہائشی ہے۔ اور پیرس حملوں سے قبل ہی فرانس کی انسدادِ دہشت گردی کی متعدد ایجنسیاں اُسے جانتی تھیں۔ اسی سال گستاخ جریدے شارلی ایبڈوکے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ فرانس کے خفیہ ادارے اُن کے بارے میں پہلے سے ہی آگاہ تھے۔ اُن میں سے ایک شخص پہلے دو مرتبہ گرفتار بھی ہو چکا تھا۔اُن میں سے دو افراد جب بیرون ملک تھے، تو اُن پر فرانسیسی اداروں نے کڑی نگاہ رکھی۔ یہاں تک کہ اُن افراد کی شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے کی خبریں بھی خفیہ اداروں کے پاس تھیں۔پھر وہ نہایت کامیابی سے فرانس واپس آکر حملے کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ صورتِ احوال کچھ مشکوک نہیں لگتی؟

نوگیارہ کے حملوں سے مسلم دنیا کی ذہنی پسپائی اور اختلالِ اعصاب کا جو سفر شروع ہوا تھا،وہ پیرس حملوں کے بعد اپنی آخری حدوں کو چھونےلگا ہے۔

ان تمام شکوک کے پیچھے چُھپے اصل حقائق کو بآلاخر روس نے اپنی اطلاعات کے ذریعے بے نقاب کر دیا ہے۔روس کی وزارتِ دفاع کے مطابق اُنہیں روس کی مرکزی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ (جی آر یو) نے ۱۳؍ نومبر(بروز جمعہ) کو پیرس کے ممکنہ حملے کے بارے میں پندرہ روز قبل یعنی ۲۷؍ اکتوبر کو آگاہ کر دیا تھا۔ اُسی روز واشنگٹن ڈی سی میں ایک انتہائی خفیہ اجلاس ہوا تھا۔ جس میں امریکی سی آئی اے کے سربراہ جان برینن، فرانس کی ڈی جی ایس ای کے ڈائریکٹر برنارڈ بایو لیٹ، ایم آئی سکس کے سابق سربراہ جان ساوورزاور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ڈی ایم آئی کے سابق سربراہ اور موجودہ قومی سلامتی کے مشیر یاکوو آمید ورنے شرکت کی تھیں ۔ اس اجلاس میں مغربی نقطۂ نگاہ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کے نئے نقشے پر بات کی گئی۔ روسی وزارتِ دفاع کے مطابق اس اہم ملاقات کے بعد ان شخصیات نے امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ بائیڈن رومن کیتھولک یسوعی ہیں۔ اور امریکی سی آئی اے کا سربراہ جان برینن بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عیسائی مکتبِ فکر جنگ کے نظریئے پر یقین رکھتا ہے۔ مذکورہ ملاقات کے بعد روسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے کہا تھا کہ روسی حفاظت میں موجود ہ شامی ریاست دوسری جنگِ عظیم میں قائم کی گئی ریاست سے مختلف ہوگی۔ منصوبہ بالکل واضح ہے۔ پیرس حملے اس کے بعد کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ نتائج قارئین خود اخذ کریں ۔ یہاں سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینٹ کی کتاب ’’At the center of the storm‘‘ کا ایک فقرہ پیش خدمت ہے جو ان حقائق کو سمجھنے کے لئے رہنماحیثیت رکھتا ہے۔ وہ اپنی کتاب کے تیسرے باب ’’Shot out of a cannon‘‘میں لکھتا ہے کہ

’’ جان ڈیوچ کے دور میں قائم مقام ڈائریکٹر آف آپریشنز کی حیثیت سے کام کرنے والے نہایت اہل خفیہ ادارے
کے ایک افسر جیک ڈیوائن نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ ’’جارج! اگر کوئی شخص شمالی عراق میں آج ایک گولی چلائے،
تو تمہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ دوسال بعد کہاں جا کر لگے گی۔‘‘

پیرس حملے کا معاملہ دو سال بعد کا نہیں ، بس دو چار دن کا معاملہ ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ کہاں جا کر لگتا ہے۔ نو گیارہ کا تو سب کو معلوم ہے کہ یہ سیدھے افغانستان میں جاکر لگے تھے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر