وجود

... loading ...

وجود
وجود

متبادل

بدھ 16 ستمبر 2015 متبادل

شاعر نے کہا:

خلق ہم سے کہتی ہے

سارا ماجرا لکھیں

کس نے کس طرح پایا

اپنا خوں بہا لکھیں

چشمِ نم سے شرمندہ

ہم قلم سے شرمندہ

سوچتے ہیں کیا لکھیں

کیا لکھیں؟ گردوپیش کے حالات میں جب خود سے بھی اتفاق نہ کرنے کا مسئلہ درپیش ہو تو ’’رزق‘‘ کو ’’عشق‘‘ سمجھنے والے لکھاری کیا لکھیں؟جب آدمی لکھے ہوئے ہر لفظ سے اوب گیا ہو، تو وہ کیا لکھے؟جب اُس کا گردوپیش دھند کی مصنوعی لپیٹ میں ہو، اور اُس کی ’’تشریح‘‘ طاقت کی تحویل میں چلی جائے تو پھر کسی کے پاس لکھنے کے لئے کتنا کم اندوختہ رہ جاتا ہے؟تذبذب، تردّداور اندیشوں کی آگ چاروں طرف پھیل رہی ہے اور اس سے دامن بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ مگر یہ مملکت خداداد پاکستان ان سب چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ اس کے تقاضے ہر طرح کے خطرات مول لینے کا جوش بھرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد!

جی نہیں! ہم حالات کے کسی خوش کن موڑ کی طرف نہیں بڑھ رہے ۔ بلکہ زیادہ بڑی ناکامیوں کی طرف بگٹٹ دوڑ رہے ہیں۔ معاشرتی زندگی جدلیاتی حرکت میں نمو پاتی ہے۔ یہ حرکت متبادل فراہم کرتی ہے۔ ایک دعویٰ (THESIS)معاشرے میں جڑ پکڑتا ہے۔ پھر اُس پر ماندگی کا ایک دور آتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک جوابی دعویٰ(ANTITHESIS)فطری طور پر اُبھر آتا ہے۔ یہ متبادل کی جدلیاتی حرکت ہے۔ اسی آویزش میں قابلِ عمل امتزاجی حل (SYNTHESIS) برآمد ہوتے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے۔جو معاشرہ اس نظام ِ حرکت سے محروم ہو وہ جمود کا شکار ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا کہ وہ اپنی اجتماعی موت کی طرف دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہے۔ہم اسی بدقسمت گرداب کی لپیٹ میں ہے، اگرچہ عرصۂ مہلت میں کچھ اقدامات سے اُمید بندھتی ہیں۔مگر ادھوری ادھوری ، ناتمام ناتمام!!

معاشرے میں خرابیاں اس لئے جنم لیتی ہیں کہ وہ اپنی جدلیاتی حرکت میں متبادل فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ پاکستان کے ہر شعبۂ حیات میں یہی مسئلہ بآنداز دگر درپیش ہے۔کراچی بھی اسی کا شکار ہے۔ ضربِ عضب کی جراحت اور بلوچستان کا معاملہ بھی اسی مسئلے سے دوچار ہے۔ ہماری افواج بڑے بڑے محاذوں پر سرگرم ہیں۔ مگر اُن کی جراحت مسئلے کو مکمل حل نہیں کر سکتی۔معاشرتی تقاضے کچھ اور بھی ہیں۔ اور فوج ہی نہیں حکومت بھی اس کا درست ادراک نہیں کر پارہی۔ کراچی کو لیجیے! کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کے کچھ مسائل اس کی مخصوص بناوٹ کی وجہ سے ہیں مگر اس کے بیشتر مسائل اس پر مسلط کیے گیے ہیں۔ بدترین سیاست کے ہنگام یہ عسکری اور تمدنی تنازعات کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ کراچی آج جو کچھ بھی ہے اس کی ذمہ داری بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی سے نمٹنے کی فوجی حکمتِ عملی پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے ذرا قبل یہ ایوب خان کا دور تھا جس نے یہاں بدترین عصبیت کے زہریلے بیج بوئے۔ ضیاء دور میں یہ جھاڑیوں کی شکل میں اُگ آئے۔ ان کے علاوہ معلوم نہیں،جنرل جہاں داد خان اور غوث علی شاہ کے متعلق تاریخ کن الفاظ میں فیصلہ صادر کرے گی؟مگر یہی وہ سب لوگ تھے جس نے آج کا کراچی تخلیق کیا۔ کیا اس فضا میں بننے والے کراچی کے لئے کوئی’’ متبادل‘‘ گزشتہ چار دہائیوں میں فطری طور پر اُبھرنے دیا گیا؟ جواب سب کو معلوم ہے۔

کراچی سے اُبھرنے کے لیے کوشاں ہر فطری متبادل کا گلا طاقت سے گھونٹ دیا گیا۔ یہ ایک نہایت بہکی اور آوارہ حکمتِ عملی کا حصہ ہے کہ کراچی جیسے شہر کو ’’ایک ہاتھ‘‘ سے گرفت میں رکھنا چاہیے۔ اس معلوم حکمتِ عملی کو کراچی میں اس طرح برتاگیا ہے کہ ایم کیوایم کے حوالے سے بیرونِ شہر سے آنے والی ہر آواز کچھ اِسی نوع کی ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے ، بس الطاف حسین مطلوب نہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کراچی کی نمائندگی تسلیم کرنے کا استدلال نہیں ۔ بلکہ نہایت خطرناک طور پر یہ نقطۂ نظر اُسی ذہن کی پیداوار ہے جو کراچی کو ایک آزمودہ ہاتھ سے گرفت میں رکھنے کا خواہشمند رہتا ہے۔ اِسی ذہن نے کراچی کی نمائندگی کے ذریعے نو ّے کی دہائی کی پوری سیاست کو نائن زیرو سے اپنی نگرانی میں رکھا۔ اور مشرف دور میں یہی انتداب(مینڈیٹ) آمریت کے فروغ میں استعمال ہوتا رہا۔ کراچی کی اس سیاسی قوت سے غلطی بس یہ ہوئی کہ یہ ایک ہاتھ سے کھیلتے ہوئے متعدد ہاتھوں اور گودوں میں کھیلنے لگی۔ اس کا خود پر انحصار اس قدر بڑھ گیا کہ وہ بیرونی ہاتھوں میں خود کو ملک کی ایک ناقابلِ شکست قوت سمجھنے لگی۔ الزامات کی اس لمبی فہرست کو گنوانے کے باوجود بھی ہمارے اصل اور مقتدر منصوبہ ساز کراچی میں فطری متبادل کی نمو میں رکاوٹ کیوں بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنے استدلال کو یہاں سے کیوں شروع کرتے ہیں کہ ایم کیوایم ایک حقیقت ہے ، مسئلہ اُس کی قیادت سے ہے۔

یہ مسئلہ ماہرین عمرانیات کی خدمت میں رکھنا چاہیے کہ جس شہر میں گزشتہ چار دہائیوں سے کوئی بڑا مسئلہ حل نہ ہو سکا ہو ، جو خدمات کی فراہمی کے نظام میں آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا ہو، جہاں بنیادی انسانی ضروریات کے مسائل ہر گزرتے دن بڑھتے ہی جارہے ہوں۔ پینے کا صاف پانی بھی اُس سے چھین لیا گیا ہو، ہر روز جوشہر دس لوگوں کی لاشیں اُٹھا تا ہو، جہاں دریافت شدہ علاج والی بیماریوں سے مریض محض سہولتوں کی عدم فراہمی سے مر جاتے ہو، جہاں کے شہری نظام کی نگرانی بھی مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ رہی ہوں،جہاں کے مقامی لوگ تھانوں میں اپنی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کے لیے روز مادر زاد اور برہنہ گالیاں سننے کی رسوائی سہتے ہوں، جہاں کے شریف زادوں کو سڑکوں پر رینجرز اور پولیس کے ہاتھوں روز تلاشی دینے کی خفّت اُٹھانی پڑتی ہو، جہاں عام گھروں میں کسی بھی وقت کوئی بھی گھس کر تلاشی لے سکتا ہو، جس کے شہریوں کو سڑکوں پر کتوں بلیوں کی طرح مار کر پھینکنے پر سوال تک نہ اُٹھایا جاسکتا ہو، اُن کے جرائم کے شواہد تک طلب نہ کیے جاسکتے ہو، جس کی وقائع نگاری تک یک رخی کردی گئی ہو اور جس کے متعلق گفتگو تک دوسرے شہروں کے اجنبی لوگوں سے کرائی جاتی ہو، وہاں کوئی نظام کام کیسے کر سکتا ہے؟ وہاں پر نمائندگی کا کوئی متبادل کیوں فراہم نہیں ہوپاتا؟ وہاں کی مایوسی کسی فیصلہ کن متبادل کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتی؟ وہاں کے شہری اپنی آزادیوں کو ایک ہی جماعت کے پاس رہن کیوں رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں؟ وہاں کیا شرمناک سقم اور کربناک خلل واقع ہو چکا ہے؟ماہرین ِ عمرانیات و سیاسیات معلوم نہیں اس کا کیا جواب دیں گے۔ مگر ایک آواز مشاہدے کی بھی ہے۔

مشاہدے کی آواز یہ ہے کہ ۱۹۹۲ء کی جراحت نے ایک ورثہ پیدا کیا تھا۔ جو ۱۹۹۹ء کی جراحت کا ہدف بنا۔ پھر ۱۹۹۹ء کی جراحت نے ایک ورثہ پیدا کیا۔ جس نے اس شہر کے درودیوار کو خون سے نہلا دیا۔ اب نئی جراحت کا بھی ایک ورثہ پیدا ہورہا ہے۔ خدا خیر کرے! اگر اسے موقع ملا تو یہ کیا کیاقیامتیں برپا کرے گا۔

معاشرے کی جدلیاتی نمو کا سبق یہ ہے کہ جو معاشرہ بہتر متبادل کی تخلیق نہیں کر سکتا وہ اپنا حال نہیں، بس اپنا ماضی بدلتا رہتا ہے۔ باقی ! جو قلم رہن رکھے گئے ، اُن سے انقلابی داستانیں تراشنے والوں کواُن کے حال پر چھوڑتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ وجود - جمعه 04 نومبر 2022

کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی وجود - بدھ 05 اکتوبر 2022

کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری وجود - پیر 19 ستمبر 2022

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا وجود - پیر 19 ستمبر 2022

بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر