وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹیکس چور کون؟

جمعه 03 مئی 2024 ٹیکس چور کون؟

علی عمران جونیئر
دوستو، ملک کے معاشی حالات سدھرنے کا نام نہیں لے رہے، ملکی و غیرملکی قرضوںکا تخمینہ ایک سو اکتیس ارب ڈالر بتایاجارہا ہے، گزشتہ روز ایک خبر یہ بھی سامنے آئی کہ حکومت کی اتنی آمدن نہیں جتنا قرضوں کا سود ادا کرنا ہے۔حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس چوروں یعنی نان فائلر کی پانچ لاکھ سمیں بند کی جارہی ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اربوں ڈالر قرضہ لیا، قیام پاکستان سے لے کر آج تک قرضے لے کر اسے اپنی مرضی سے خرچ کرتے رہے، ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ لیکن غریب جو دن رات دو وقت کی روٹی کی فکر میں رہتا ہے، اس کے پیچھے یہی ٹیکس ہڑپنے والے پڑے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عوام مزید ٹیکس دیں تاکہ ان کی عیاشیاں چلتی رہیں، تعیشات سے گھربھرا رہے ، یعنی دھندا ہے پر گندا ہے یہ۔۔ہمارے پیارے دوست نے ہمیں اس معاملے پر ایک خوب صورت میسیج واٹس ایپ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ حکومت و ریاست کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔ایک عام شہری کو حکومت کیا سہولت دیتی ہے؟ دوائی سے لے کر تعلیم اور یہاں تک سیکورٹی بھی خود اپنی رکھنی پڑتی ہے۔
ہمارے پیارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا عام شہری ٹیکس نہیں دیتا؟ پھر ہم ٹول پلازے پرکیا دیتے ہیں؟؟جب شناختی کارڈ بنواتے ہیں تو جو فیس لی جاتی ہے وہ کیا ٹیکس نہیں ہوتا؟جب پاسپورٹ بنواتے ہیں تو اس وقت جو پیسے لیے جاتے ہیں اسے کیا کہتے ہیں؟ہوٹل پر کھانا کھانے جاتے ہیں تو بائیس فیصد بل میں کیا لگایاجاتا ہے؟بجلی کے بلوں میں درجن بھر مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی مد میں جو رقم اینٹھی جاتی ہے وہ کیا ہے؟موبائل سیٹ پر پی ٹی اے کیا ٹیکس نہیں لیتا؟جو لوگ اپنے فون میں کارڈ کے ذریعے یابراہ راست ایزی لوڈ کراتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے؟ سو روپے کا بیلنس ڈلوانے پر تیس سے پینتیس روپے کاٹ لئے جاتے ہیں۔سوئی گیس کے بل پر جو لگائے جاتے ہیں کیا وہ ٹیکس نہیں؟جب ہم نئی گاڑی خریدتے ہیں یا پراپرٹی لیتے ہیں اس وقت جو لیتے ہو وہ کیا ہوتی ہے؟پراپرٹی فروخت کرتے وقت حکومت کا حصہ الگ سے نکالنا پڑتا ہے، پراپرٹی کرایہ پر دو یا اپنے پاس رکھو، کیا پراپرٹی ٹیکس نہیں لیا جاتا؟جب اپنی موٹرسائیکل یا گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں توعالمی مارکیٹ میں نوے سے سوروپے فی لیٹر فروخت ہونے والا پٹرول ہم پونے تین سو روپے لیٹر خرید رہے ہوتے ہیں یہ اضافی پیسے کس مد میں لیے جاتے ہیں؟ جب منرل واٹر۔ کوک۔ اسپرائیٹ۔ پیپسی پیتے ہیں تو اسے پینے سے پہلے حکومت کی مقرر کردہ فیس پہلے لازمی ادا کرنا پڑتی ہے۔سگریٹ لیں تو ہر پیکٹ پر ٹیکس، ماچس کی ڈبیہ خریدیں اس پر بھی ٹیکس۔۔ ادویات خریدنے پر بھی حکومت کی عائد کردہ فیس پہلے لازمی ادا کرناپڑتی ہے۔۔موٹروے پر سفر کریں تو ٹوکن کے نام پر ادائیگی لازمی ہے۔ نئے کپڑے لیں یا جوتے،حکومت کو ٹیکس پہلے چاہیے۔ اسپتال میں داخل ہوں تو وہاں بھی ٹیکس لگا ہوا ہے۔موٹرسائیکل خریدیں یا سائیکل حکومتی ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر اسے چلانا ممکن نہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کراس کے اسکول میں داخلے تک کبھی برتھ سرٹیفیکٹ کے نام پر، کبھی ب فارم کے نام پر اور کبھی اسکولوں کی فیس کے نام پر ہر جگہ ،قدم قدم پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔یہاں تک کہ مرنے پر قبر کی خریداری، ڈیتھ سرٹیفیکٹ سب کی الگ الگ فیس مقرر ہے۔زمین کی رجسٹری کرانی ہو، نہر کا پانی استعمال کرنا ہو،جب کسان کو اپنی فصل منڈی لے جانا ہو، کوئی کام بغیر ٹیکس ادا کئے نہیں ہوسکتا۔۔ٹی وی لائسنس کی ماہانہ فیس تک بجلی کے بلوں میں لگا کر زبردستی وصول کی جاتی ہے۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت ملنی چاہیے لیکن وہاں بھی فیس کے نام پر کمائی کا سلسلہ جاری ہے۔گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن، اسلحہ کے لائسنس، ڈرائیونگ لائسنس بنوانے سے لے کر ہر سال اس کی تجدید تک، حکومت کو اپنا حصہ لازمی چاہئے۔۔ جو تم انٹر نیٹ پر کٹوتی کرتے ہو اسکا کیا نام ہے؟ہر سرکاری محکمے سے جو بھی عوام نے لائسنس یا این او سی لیناہو، نکاح نامہ رجسٹرڈ کرانا ہو فیس تو لازمی دینی ہوگی۔۔ یہ نیلم سرچارج بجلی کے بلوں میں لگ کر آتا ھے اسکا کیا نام ہے۔ ؟؟ہر چیز پر جی ایس ٹی لینا ٹیکس نہیں تو اور کیا ہے؟بارڈر ایریا سے درخت کاٹنے، مالک کی اپنی زمین سے مٹی یا ریت نکالنے ،عدالت میں دعویٰ دائر کرنے پر ٹیکس وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔۔کسی کو اپنا گھر تعمیر کرانا ہو تو نقشے کی منظوری سے لے کر اس کے لئے سیمنٹ، سریا، ریتی بجری ، بلاکس کی خریداری تک ہر جگہ ٹیکس لازمی ہے۔۔
حکومتی وزرا ہوں یا حکمران سب یک زبان ہوکر ٹی وی چینلز پر دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔اگر عوام ٹیکس نہیں دیتے تو پھر اوپر جو کچھ بتایا ہے ، جسے عوام آج تک دیتے آئے ہیں وہ سب کیا ہے؟عوام کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے کسی دن عوام کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ جائیں اور پوری ایمانداری سے حساب کتاب کریں کہ آج تک جو عوام سے لیا وہ کہاں گیا؟اوپر جتنے ٹیکسوں کا بتایا ، یہ تو سرسری ذہن میں آئے تو نشاندہی کرتی، بہت سارے ٹیکس ایسے ہیں جو عوام سے وصول کیے جاتے ہیں جن کا عوام کواور ہمیں علم نہیں۔اب یہاں سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے ٹیکس لے کر عوام کو سہولت کیا دیتے ہو؟ کیا سستا اور بروقت انصاف دیتے ہو؟کیا جان ومال کی امان دیتے ہو؟ کیا بوقت ضرورت مدد کو آتے ہو؟ اگر آتے ہوتے تو مری میں لوگ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر نہ مرتے۔عوام کو سچ سچ کیوں نہیں بتاتے کہ تمہیں مزید ٹیکس چاہیے اپنے شاہی پروٹوکول کے لئے اپنے شاہانہ محلات کے لیے۔۔ ہم غریب ملک ہیں نہ تو پہلے خود سے شروع تو کرو سادگی پر آؤ پھر مزید ٹیکس کا تقاضہ کرو۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مصر والوں کو اہرام مصر میں پڑا مردہ فرعون اربوں روپے سالانہ کما کر دیتاہے جب کہ ہمارے زندہ فرعون اربوں روپے سالانہ کھاجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر