وجود

... loading ...

وجود
وجود

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

جمعه 03 مئی 2024 ٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

زریں اختر

ستمبرگیارہ المعروف نائن الیون ۔ پچھلے دن ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ”دہشت گردی کے خلاف جنگ پر برطانوی اور پاکستانی اخبارات کے اداریوں کا موازنہ ”پڑھتے گزرے۔یہ تحقیق ‘اوٹارا یونیورسٹی ،ملائشیا ‘ میں عاصمہ صفدر نامی مقالہ نگار نے کی ،سالِ اشاعت ٢٠١٥ء ہے ۔اس تحقیق کے لیے برطانیہ کے دو روزنامے، گارجین اور انڈیپنڈنٹ اور پاکستا ن کے دوانگریزی روزنامے ڈان اور دی نیوز کابارہ ستمبر ٢٠١١ء تا گیارہ ستمبر ٢٠١٣ء یعنی دو سال کے اداریوں کا مطالعہ شامل تھا۔
مقالہ پڑھتے ہوئے کہیں میری توجہ نظریے ،تکنیک اور طریقۂ تحقیق پر ہوتی جو کہ مقالے کو پڑھنے کا اصل مقصد تھا تو کہیں میں موضوع میں کھو جاتی کہ یہ ایسا موضوع ہے جس کے ایک طرف عالمی سیاست ،علاقائی سیاست اور پاک امریکہ تعلقات کی جہات تھیں تو دوسری طرف اس نے دنیا میں مذہبی تقسیم کے تصور کو تقویت دی اور بد قسمتی سے یہ سب اکیسویں صدی کے پہلے ہی سال ہوگیا۔ اس تحقیق کے مطابق اس وقت کے امریکی اخبارات کی پالیسی مکمل طور پر بش انتظامیہ کے ساتھ تھی اور یہ اخبارات کا اپنا آزادانہ فیصلہ نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ تحقیق میںامریکہ میں آزادیٔ اظہار کے جمہوری حق پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔دوسری طرف اس تحقیق کے مطابق امریکی اخبارا ت کو بش انتظامیہ کے اقدامات کے مخالف نکتہ نظر پیش کرنا تو دور کی بات غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی یعنی پالیسی یہ رہی کہ آپ کو لکھنا ہے اور ہمارے حق میں لکھنا ہے ۔ممکن ہے کہ بش انتظامیہ کی طرح اخبارات کو بھی لگا ہو کہ ستمبر گیارہ کا مطلب یہ ہے کہ ملکی سا لمیت براہ ِراست نشانے پر ہے اور اس کا منہ توڑ جواب ہی دیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف تمام ادارے ایک صفحے پر ہوں بلکہ رائے عامہ بھی اسی سمت ہموار کی جائے،یہ نہ ہو کہ داخلیت پر حملے سے نبٹنے کے لیے مخالف عوامی ردّ ِ عمل کا بھی سامنا کرنا پڑے۔لیکن بش کے تاریخی الفاظ ”یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں”کی روشنی میں یہ کہا جاسکتاہے کہ بش انتظامیہ کی بیرونی ہی نہیں بلکہ اندرونی پالیسی بھی یہی تھی۔
ستمبر گیارہ کا بش پر اثر ایسا ہی تھا جیسے بل فائٹنگ کے میدان میں بل کو سرخ کپڑا ہی نہیں دکھایا گیاہو بلکہ بل کے سینگ بھی توڑ دیے، گئے ہوں، اس غصیل بل کی چنگھاڑ بش کی دھاڑ کی صورت میںدنیا میں چہار سمت سنی گئی ۔بش کی ‘دہشت گردی کے خلاف’ جنگ کی حکمت ِ عملی کی ملکی سطح پر مشہوری ، مقبولیت اور قبولیت کا بین ثبوت امریکہ اگلے صدارتی انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی سے بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ اب یہاں امریکی اخبارات کی آزادانہ جمہوری روایات پر مزید لب کشائی کی ضرورت نہیںجب اس لب کشائی کی جرأت امریکی اخبارات نہ کرسکے کہ انہوں نے تو اپنے لیے خود پہلی آئینی ترمیم کو بھی اپنی ڈھال نہیں بنایاجو تقریباََِِ ڈھائی سو سالہ تاریخ رکھتی ہے کہ کانگریس ایسا کوئی قانون منطور نہیں کرے گی جو آزادی اظہار کے خلاف ہو،بل آف رائٹ ٤ ِ جولائی ١٧٧٦ئ۔
اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اگرچہ کہ بش کے برابر کے اتحادی بنے لیکن جن دوبرطانوی اخبارات کے اداریوں پر تحقیق کی گئی ان کی پالیسی واضح طور پر بلیئر کی بش کے ‘شانہ بشانہ ‘ پالیسی کے مخالف رہی ۔اس تحقیق کے مطابق ان اداریوں میں جو حکومتی اقدامات کے مخالف استدلال سامنے آیا وہ یہ کہ کسی دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کسی ملک کی طرف سے کسی دوسرے ملک یا ممالک پر حملے کا جواز نہیں بنتا جب کہ بش انتظامیہ کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو قراردیا گیا لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیااور نہ ہی اقوام متحدہ کو امریکی اقدامات کی حمایت حاصل تھی ۔لیکن امریکہ کی جانب سے پہلے مرحلے پر افغانستان اور دوسرے مرحلے پر عراق پر جنگ مسلط کردی گئی ۔ برطانوی اخبارات نے ملکی پالیسیوں پر تنقید کی اور انہوں نے ان دوملکوں میں انسانی جانوں کے اتلاف ، املاک کی تباہی ، سماجی نظام کی صورت حال ،خوارک کی کمی ، پانی کی فراہمی ، زخمی ہونے والے شہریوں کے لیے علاج کی سہولیات ان سب کو موضوع بنایا۔اخبارات نے انسانی حقوق کی صورت حال اوربحالی کے اقدامات کو بھی مستقل اداریوں کا موضوع بنایا۔ عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود کے وہاں امریکی الزام کے مطابق کوئی نیو کلیئر بم نہیں ہے اور صدام حسین یہ درخواست کررہا ہے کہ اس کو اپنے بیٹوں کے ساتھ ملک چھوڑنے کی اجازت دی جائے ،عراق پر حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور برطانیہ کے ساتھ دینے پر برطانوی اخبارات نے کھل کر تنقید کی ۔ اس سے برطانیہ میں اخبارات کی آزادی کی صورت حال بھی سامنے آتی ہے لیکن کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ نائن الیون کابراہ راست شکار برطانوی سرزمین نہیں تھی کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب سلطنت انگلشیہ میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔
پاکستانی اخبارات کے اداریوں میں جو موقف اختیار کیا گیا وہ دنیا کی مذہب کی بنیادپر تقسیم ، امریکہ کی تیل تک رسائی اور مشرق وسطیٰ میں امریکی رسوخ کی کوششیں تھا جو امریکہ کا مقصد تھا۔ افغانستان کی حوالے سے پاکستان کی پالیسی نے یو ٹرن لیا۔ کل کے مجاہد اب دہشت گرد تھے۔پاکستان امریکہ کا ساتھی بنا جس کے بدلے میں پاکستان کے حصے میں امریکی بد اعتمادی اور مذہبی انتہا پسندی آئی ۔ستمبر گیارہ کے جواب میں امریکہ یا بش انتظامیہ کا جو ردّ ِعمل دنیا کے سامنے آیا اس نے مذہب کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کرنے کی منفی سوچ پر تہذیب کے اتنے لمبے سفر کے بعد مہر ِ تصدیق ثبت کر دی۔ سماج کی تاریخی جدلیاتی تقسیم سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کھیل میں مذہبی کارڈ استعمال کا موقع آنے نہیں دینا چاہیے ۔ستمبر گیارہ کے جواب میں جو بش انتظامیہ نے پالیسی بنائی وہ اپنی بنیاد میں تہذیبی ،اخلاقی ، قانونی غرض ہر لحاظ سے بد ترین تاریخی نتائج رکھتی ہے۔ یہ دنیا میں مذہبی تقسیم کی بنیاد بنانے میں انتہاپسندی کو تقویت دیتی ہے۔ یہ امریکہ مخالف رویے کو بھی فروغ دیتی ہے۔ بش نے تاریخ میں تہذیبی سطح پر اپنا اور امریکہ کا نام بلند کرنے کا تاریخی موقع گنوادیا۔ اس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے زخمی سانڈ کی ۔ اس نے اخبارات کے اداریوںپر کی جانے والی تحقیق کے مطابق جس کی لاٹھی اس کی بھینس (مائٹ از رائٹ ) کے مقولے کو درست ثابت کردیا۔ ہم اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی ) اور عرب ممالک کی تنظیم کو بھی رو سکتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق بل کلنٹن جو دو مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے نے بش کو اس ردّعمل سے باز رہنے کا مشورہ دیاتھا۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ کاش اس وقت بل کلنٹن صدر ہوتے تو شاید آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی اور امریکہ کی تصویر ایسے ملک کی جس کے واحد عالمی طاقت ہونے پر دنیا فخر کرتی اور سوچتی کہ طاقت کا توازن اگر جھکائو رکھتا بھی ہے تو یہ اتنا بھی برا نہیں کہ کائنات کا نظام بھی ایک خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ،لیکن افسوس یہ ہو نہ سکا۔
میں اس بات پر سہمت ہو ں کہ تاریخ بااختیار سیاسی شخصیت لکھتاہے۔ اس وقت وہ شخص جارج ڈبلیو بش تھا جو بعد میں دوبارہ امریکہ کا اگلے چار برس کے لیے صدر منتخب ہوا۔ قانون وہی جو انگریزی زبان میں بھی مروج ہے اور اردو میں بھی موجودہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر