وجود

... loading ...

وجود
وجود

چوتھا مینڈک

منگل 08 ستمبر 2015 چوتھا مینڈک

frogs-on-a-log

پھر،کیا ایک بار پھر ہم وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے! شہر گماں میں یقینوں کے خدا کی تلاش کیسے کریں؟ راکھ میں شعلہ ڈھونڈنے کا مشغلہ کہاں اچھا ہوتا ہے۔

کوئی دن جاتا ہے کہ باقی رہنے کی جبلت تصادم میں رقص کرے گی۔ پھر وہی منظر، پھر وہی منظر۔۔رُکئے! کوئی اور پیرایۂ اظہار ڈھونڈتے ہیں۔کیوں نہ خلیل جبران کو یاد کریں!جس کا وفور ِ تخیل کبھی کالج کی جواں سال لڑکیوں کی کتابوں میں موجود گلاب کی پتیوں سے جھلکتا تھا۔مگر وہ بآنداز دگر کچھ اور بھی تھا۔لکھتا ہے:

’’دریا کے کنارے ایک شہتیر تیر رہا تھا۔ اس پر چار مینڈک بیٹھے تھے۔ یکایک پانی کا ریلا آیا اور شہتیر کو بہا کر منجدھار میں لے گیا۔مینڈک خوش تھے اور مطمئن، کیونکہ آج تک اُنہوں نے ایسا لطف نہ اُٹھایا تھا۔

آخر پہلا مینڈک بولا۔ ’’درحقیقت یہ نہایت ہی عجیب و غریب شہتیر ہے اور یوں تیرتا ہے گویا زندہ ہے۔ آج تک ایسا شہتیر دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘

پھر دوسرا مینڈک بولا۔’’نہیں میرے دوست! یہ شہتیر بھی دوسرے گھٹوں کی طرح ہے اور یہ حرکت نہیں کرتا۔ یہ تو دریا ہے جو سمندر کی طرف بہہ رہا ہے اور اپنے بہاؤ کے ساتھ ہمیں اور اس گھٹے کو لے جارہا ہے۔‘‘

اب تیسرا مینڈک بولا۔ ’’نہ تو شہتیر تیر رہا ہے اور نہ دریا بہہ رہا ہے حرکت تو ہمارے خیال میں ہے کیونکہ خیال کے بغیر کوئی شے حرکت نہیں کر سکتی۔‘‘

اس طرح تینوں مینڈک آپس میں جھگڑنے لگ گئے کہ فی الحقیقت حرکت کرنے والی چیز کون سی ہے؟ تنازع بڑھتا ہی چلا گیا۔ اور وہ کسی چیز کا فیصلہ نہ کر سکے۔

یہاں تک کہ اُنہوں نے چوتھے مینڈک سے پوچھا جو اس وقت تک ساری بحث توجہ سے سنتا رہا تھا مگر چپ چاپ بیٹھا تھا ۔ تینوں مینڈکوں نے اس کی رائے دریافت کی ۔ تب چوتھے مینڈک نے کہا : تم میں سے ہر ایک راستی پر ہے اور تم میں سے کوئی غلطی پر نہیں۔ حرکت شہتیر میں بھی ہے، پانی میں بھی ہے اور ہمارے خیال میں بھی ہے۔‘‘

یہ جواب سن کر تینوں مینڈک غضب ناک ہوگئے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ اس کا دعویٰ سراسر صداقت پر مبنی نہیں۔ اور دوسرے دونوں پورے طور پر غلط نہیں۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی، تینوں مینڈک مل گئے اور اُنہوں نے چوتھے مینڈک کو شہتیر سے دھکّا دے کر دریا میں گرا دیا۔ ‘‘

مبادا! یہ مینڈکوں کے شہتیر سے دریا میں گرائے جانے کی آواز نہ ہو! ابھی تو بس اتنی ہی خبر ہے کہ باقی رہنے کی جبلت تصادم میں رقصاں ہے!

پاکستان میں کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں چوتھا مینڈک تینوں مینڈکوں کو شہتیر سے دھکّا دے کر دریا میں کبھی بھی گرانے کی طاقت رکھتا ہے۔پاکستان کے سیاسی شہتیر پر مینڈکوں کی لڑائی جاری ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اصل ’’حرکت ‘‘ کہاں ہے؟ مگر اس حرکت کی خبر، خبر دینے والے روز افواہوں کی صورت میں دے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ خبریں کہاں سے آتی ہیں ! خبروں کی دنیا میں سانسیں لیتے ہوئے اب انیس برس ہوتے ہیں۔افواہ طرازوں سے لیکر خبرتراشوں تک جو افراد اور ادارے محرک بنتے ہیں، اُنہیں سمجھنے بوجھنے میں طالب علم نے زندگی کھپا دی۔ جب اس کی’’ اور چھور‘‘ سے کچھ آگہی ہوئی تو پھر ایک نئی دنیا آباد ہوگئی ۔باضمیر امریکی دانشور نوم چومسکی اِسی کوتو روتا ہے۔ یہ خبریں کون گھڑتا ہے ؟ پاکستان میں مسئلہ دوسرا بھی ہے۔ اکثر یہ گھڑی ہوئی خبریں، اچانک حالات کی کروٹ میں خود کو درست بھی ثابت کر دیتی ہیں۔ اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار نے اِسی کرب کو ہنسی میں ٹالا:پاکستانی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ اکثر سچ نکلتی ہیں۔‘‘مگر ان افواہوں کو فروغ دیتے دیتے، سچ کے مغالطے پیدا کردینے والے آخر کیوں اور کس کا کھیل کھیلتے ہیں؟یہ ایک سوال ہے جس کو تشنہ جواب چھوڑتے ہیں۔

وقت کی طنابیں ٹوٹ رہی ہیں یہ عمران خان کے دھرنے ایسا خطرہ نہیں، جس میں ذرائع ابلاغ پھر بھی کچھ آزاد تھے کہ وہ اپنی رائے خود ہی بنا سکیں۔یہ کچھ اور ہیں۔ یہاں رائے بنانی نہیں ،کسی کی تحویل میں دینی پڑتی ہے۔ اُن’’ بہادروں‘‘ کوبھی جو بظاہر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مخالفت کے خطرات مول لیتے ہیں اور کراچی میں کسی اور پر نہیں، اپنے ’’الطاف بھائی‘‘ پر اعتراض اُٹھا لیتے ہیں۔ پھر وہ اُس’’ آسمان ‘‘کے قریب پہنچ کر پلٹ آتے ہیں جہاں پَر ہی نہیں سالم انسانی وجود جل جاتے ہیں۔

افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف ِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دُھند آلود ہوچکا۔ تضادات کی گھمن گھیریوں نے سب کو آلیا۔ ایک بار پھر ’’قیدیوں‘‘ کو ’’زنجیر‘‘ بدلنے کی ’’بشارت ‘‘دی جارہی ہے۔افسوس یہ بشارتیں سنانے والے ذرائع ابلاغ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ چھ برس ایک طاقت ور اور غلبے کے خواہش مند ٹولے کے آلۂ کار کے طور پر کام کیا۔ اور اب وہ پھر سے کمر بستہ ہیں۔ مگر اب کی بار’’ کمانداروں ‘‘کے ہدف کی حمایت عوام میں پیدا کر لی گئی ہے۔ اور سیاست میں ہر ایک کاہاتھ دوسرے کے گریبان تک پہنچادیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کے معاہدوں کو ایک دوسرے پر بوجھ بنا دیا گیا ہے۔ اور عسکری و تمدنی تعلقات کی مساوات کو بدعنوانیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ماتحتی میں دے کر ترجیحات کی ترتیب تبدیل کر دی گئی ہے۔ اس دوران ’’تمدنی‘‘برتری کے دعویدار حکمرانوں کو اُن کی ’’بداعمالیوں‘‘ (جو حقیقت بھی ہیں) کے آئینے میں شرمندہ کر کے اُن کی پیش قدمی کی حس کو ہی مردہ کر دیا گیا ہے۔ اب معاملات جہاں تک چلے گئے ہیں اُنہیں کسی انجام کا چہرہ دکھائے بغیر واپس الماریوں میں مقفّل نہیں کیا جاسکتا۔ پھر،کیا ایک بار پھر ہم وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے!

شہتیر پر مینڈکوں کی لڑائی جاری ہے۔دیکھئے ! حرکت کی بحث، چوتھے مینڈک تک کب پہنچتی ہے؟ کوئی دن جاتا ہے کہ ایک آواز سنائی دے گی۔ مبادا یہ مینڈکوں کے شہتیر سے دریا میں گرائے جانے کی آواز نہ ہو!ابھی تو بس اتنی ہی خبر ہے کہ باقی رہنے کی جبلّت تصادم میں رقصاں ہے!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر