وجود

... loading ...

وجود
وجود

شرم

پیر 31 اگست 2015 شرم

ashamed

گاہے خیال آتا ہے ! شرم اُنہیں نہیں، دراصل ہمیں آنی چاہئے۔ یہ ایسے ہی لوگ تھے۔ یہ ایسے ہی لوگ ہیں۔مگر بار بار عوام ان سے بے وقوف بنتے ہیں۔ امریکی کارکن ’’Randall Terry‘‘ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ

“Fool me once, shame on you. Fool me twice, shame on me.”

دراصل عوام پر پوری طرح یہ بات صادق آتی ہے جن کے انتخابی فیصلوں پر جمہوریت کی تقدیس کے گیت گائے جاتے ہیں۔اگر کوئی ڈاکٹر عاصم کو ذرا بھی جانتا ہے تو اس مملکت کے کسی بھی خود دار شہری کے لئے یہ باعث ننگ ہوگا کہ اُسے جمہوریت کے نام پرموصوف کا مقدمہ لڑنا پڑے۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس معلوم نہیں کون سے ہتھیار تھے ، جن کے بل بوتے پر وہ اعلانِ جنگ کرنے لگے۔ ابھی اُن کے الفاظ پر اُن کی نام نہاد ’’ شرمندگی‘‘ کا سفر شروع نہ ہواتھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے پھلجڑی چھوڑی۔۔۔

’’کوئی ریاست ہے یا جنگل کا قانون، وزیراعظم سے کہہ دیا سندھ پر حملہ کیوں کیا؟‘‘

ان الفاظ کو بار بار پڑھا جائے تب بھی حیرت کم نہیں ہوتی۔ کیا یہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کے الفاظ ہو سکتے ہیں؟ان کے نزدیک ریاست کیا ہے اوریہ جنگل کا قانون کسے سمجھتے ہیں؟ڈاکٹر عاصم آخر کون ہیں؟ایک سفاک لٹیرا ،جس نے اسپتالوں کومنفعت کے حصول میں ننگ ِ انسانیت طریقے پر استعمال کیا ۔(واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے) نااہلوں کے ہاتھوں میں معالجوں کی سندیں تھمائیں۔ اور دنیا بھر میں علاج معالجے کے مقدس پیشے کو بدنام کیا۔ ایک معالج کے طور پر حاصل اختیارات کو اپنے پیشے سے وابستہ اخلاقیات کے ساتھ استعما ل کرنے کے بجائے اس نے اسے ’’زرداری‘‘ سے دوستی گانٹھنے اور اس کا قرب پانے کے لئے استعمال کیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ زرداری صاحب نے اپنے ایام اسیری میں جن طبّی وجوہات کو قانون سے کھیلنے کے لئے بار بار استعمال کیا وہ سب اِسی ڈاکٹر(؟) عاصم حسین کی وجہہ سے ممکن ہوتی رہیں۔تب زرداری صاحب کو اسپتال میں ’’خوش ‘‘ رکھنے کے لئے رات کو چور دروازے کھولے جاتے۔ اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ سرِ شام کون آیا اور صبح دم کون گیا ہے؟تب کے اخبارات میں یہ خبریں چھپتی رہیں۔ مشرف کے تخلیق کردہ ’’این آراو‘‘ کے دھوبی گھاٹ سے سارے گندے اور بدبودار کپڑے پاک و مصفا بن کر اچانک سامنے آگئے۔ اور ریاست کا لباس بن گئے۔ اگر انہیں ایک ’’این آر او‘‘ کی ’’ڈھیل‘‘ بھی دے دی گئی تھی تو بھی اُنہیں حکومت کی ’’ڈیل ‘‘ دینا کہاں تک جائز تھا۔پیپلز پارٹی کی بات دوسری تھی مگر یہ لوگ ایک خاص پس منظر سے اُبھرے تھے۔ بدمعاشی اور بدکاری کا بھیانک پس منظر جو کسی بھی شریف او رنجیب معاشرے میں گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوریت اور ووٹوں کا سوال تو بعدمیں پیدا ہوتا ہے۔ اس مرحلے سے پہلے شخصیات کو کم ازکم قانون و اخلاق کی ایک سطح پر تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہ پورا ٹولہ اس پر کہیں سے بھی پورا نہیں اُترتا تھا۔ مگر یہ سب اس نظام نے برداشت کیا۔ تمدنی ادارے ہی نہیں عسکری اداروں نے بھی ان سے تال میل رکھی۔ افسوس کسی کوذرا بھی شرم نہیں آئی۔

ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے فوراً بعد کا ایک مکالمہ اب زیرِ گردش ہے۔ موصوف نے تفتیش کاروں کو فرمایا کہ اُن پر سختی کے کچھ خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کراچی اندھیرو ں میں مستقل ڈوب سکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دماغ کس قسم کا ہے جس میں ہر نوع کی بدعنوانیاں کی جاتی ہیں اور اس پر کسی شرمندگی کے بجائے مملکت کو نقصان پہنچانے کی طاقت حاصل کر لی جاتی ہے۔ اور اس طاقت کو قانون اور ریاستی اداروں کو اپنے تابع مہمل بنانے یا حرکت میں آنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ پوری ریاست ان چند لٹیروں سے بھی کمزور ہو گئی ہے؟ ایک پاکستانی کے طورپر کسی کے لئے تب اطمینان کی کیا بات رہ جائے گی اگر یہ لوگ قانون کو دھوکا دے کر باہر نکل آئیں اور سیاست وجمہوریت اُن کی مدد گارہو۔ خدارا کچھ تو شرم کرو!

ذرا ان لٹیروں کا طرزِ کلام تو ملاحظہ کیجئے! سابق صدر آصف علی زرداری نے فرمایا کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘پھر وضاحتیں کرتے پھرے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر خورشید شاہ نے کہا کہ مزید آگے بڑھے تو یہ اعلان ِجنگ ہوگا۔ پھر وہ بھی وضاحتیں کرنے لگے کہ اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ بالکل غلط ! اُن کا بیان پورے سیاق وسباق میں درست پیش کیا گیا۔ مگر کسی نے اُنہیں ٹوکا نہیں حالانکہ ٹوکنا چاہئے۔ پھر آخر میں حضرت قائم علی شاہ بھی چپ نہ رہ سکے اور اُنہوں نے کراچی کے سمندر کوزہریلا کر دینے والا بیان دے دیا۔ ’’سندھ پر حملہ کیوں کیا؟‘‘ ۔ حد ہوگئی! زرداری کا ایک پسندیدہ ٹولہ ملک کے ہر ادارے کو لوٹتا رہا۔ یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ پچھلے سات برسوں سے سندھ کے پورے کے پورے میزانئے ڈکار لئے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ ملک ریاض کے ساتھ مل کر سندھ کی زمینوں پر لوٹ مارجاری ہے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔کراچی کا ہر اہم پلاٹ ڈاکٹر عاصم حسین نے ہڑپ کر لیا ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ ایسی ایسی عورتیں سندھ میں اختیارات کی مالک بنا دی گئیں جن کے ذکر سے ایک احساس ندامت پھوٹتا ہے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ لاکھوں روپے کے ترقیاتی کام کروڑوں میں اور کروڑوں کے کام اربوں میں ظاہر کرکے سالم جیبوں میں بھر لئے گئے، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ مگر اس کی باز پرس کے لئے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سندھ پر حملہ ہے۔ کسی کو شرم ہی نہیں آتی۔

ڈاکٹر عاصم نے خوامخواہ یہ نہیں کہا تھا کہ کراچی اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ یہ ان کامنصوبہ تھا۔ ڈاکٹر عاصم حسین نہیں آصف علی زرداری اس پورے کھیل کا پشت پناہ ہے۔ یہ سوچتے تھے کہ جب قانون حرکت میں آئے گا تو اُنہیں کس طرح اور کہاں کہاں سے مات دی جائے گی۔ زرداری کے پورے پانچ برسوں میں الطاف حسین کا خیال بلاوجہ نہ رکھا گیا تھا۔ یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ ایک پوری ریاست کو ردِعمل کی طاقت سے یرغمال بنایا جاسکتا ہے۔ مگر انہوں نے جن پتوں پر تکیہ کررکھا تھا وہی اب ہوا دینے لگے ہیں۔ بہت تھوڑے دنوں میں وہ اعدادوشمار بآلاخر منظر عام پر آجائیں گے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے کس طرح سوئی سدرن گیس کی زائد بلنگ کے الیکٹرک کو کی اور کے الیکٹرک سے اضافی رقم کی وصولی لے کر اُنہیں کس طرح سرکاری خزانے سے یہی اضافی رقم لوٹائی جاتی رہی۔ اس کھیل کو کس پُرکاری سے کھیلا گیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کے چیف فنانشل افسر امین راجپوت اور ڈی ایم ڈی شعیب وارثی کی گرفتاریاں جعلسازی کے اسی کھیل کے باعث ہوئی ہیں۔یہ محض ایک معاملہ نہیں ۔ یہ دراصل بدعنوانیوں کاایک زنجیری سلسلہ ہے۔ جس نے ریاست کے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا ۔ ہر ادارہ اور ہر کام ان کی ’’خدمت ‘‘سے منسلک تھا۔ جس کا حساب ناقابلِ اندازا ہے۔اگلے چند دنوں میں ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے وہ راز بھی منکشف ہوسکتے ہیں جو شہر کراچی میں جاری بعض سنگین سرگرمیوں سے متعلق ہیں جس میں کراچی سے لندن تک پھیلا روابط کا ایک خفیہ سلسلہ حالات کی صورت گری کرتا تھا۔اس کی پوری تفصیلات ڈاکٹر عاصم حسین اُگل چکے ہیں اور ابھی تک شہر کراچی بھی اندھیروں میں نہیں ڈوبا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے اندر سندھ کارڈ استعمال کرنے کے چرچے اور مشورے زوروں پر ہیں۔ مگر ان کی صفوں میں پھیلا انتشار بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔یہ سارا شغل اس وقت بیکا ر ہی جائے گا اگر اس پوری جعلسازی کے اصل کرتادھرتا اور سیاسی سرپرست آصف علی زرداری قانون کی گرفت میں نہ لائے گئے۔مگر اُن کے معاملے میں ایک اور طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری دراصل ایک واقعہ نہیں ۔ یہ جمہوریت کاچہرہ ہے۔جس کی تقدیس کے گیت گانے پر لوگ مجبور کر دیئے گئے۔ سیاست دانوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ طالبان سے زیادہ وحشت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ لازم ہے کہ جمہوریت کے لئے زرداری کو بچایا جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ شرم اُنہیں نہیں ہمیں آنی چاہئے!!!!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

سابق صدر آصف علی زرداری اسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل وجود - پیر 10 اکتوبر 2022

سابق صدر آصف علی زرداری ہسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل ہوگئے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے معالج ڈاکٹرعاصم حسین نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا تھا کہ سابق صدر کی صحت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق آصف زرداری کو ہسپتال سے بلاول ...

سابق صدر آصف علی زرداری اسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری وجود - پیر 05 ستمبر 2022

سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...

اداروں اور جرنیلوں کوعمران کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے،آصف زرداری

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

عمران خان کی جانب سے زرداری سے معاملات کرانے پر زور، آصف زرداری، ملک ریاض کی مبینہ آڈیو لیک وجود - هفته 28 مئی 2022

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عمران خان اور آصف زرداری کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ وائرل آڈیو کال نے سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ملک ریاض کی ٹیلیفونک گفتگو سامنے آئی ہے جس میں ملک ریاض ...

عمران خان کی جانب سے زرداری سے معاملات کرانے پر زور، آصف زرداری،  ملک ریاض کی مبینہ آڈیو لیک

آصف علی زرداری کا شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف وجود - جمعرات 14 اپریل 2022

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف کیا ہے اور کہا کہ انہیں وزیراعظم بنانے کی پیشکش اسی دوران کی، سابق وزیراعظم عمران خان بال ٹیمپرنگ کے بغیر سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ اسمبلی میں واپس آجائی...

آصف علی زرداری کا شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف

مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر