وجود

... loading ...

وجود
وجود

آئینہ

بدھ 12 اگست 2015 آئینہ

Imran-Khan-2

عمران خان نے خود کو ہی نہیں تبدیلی کی حقیقی اور جائز آرزو کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ (روداد) سامنے آنے کے بعد یہ عمران خان کے لئے خود کو تولنے ٹٹولنے اور کھولنے کھنگالنے کا ایک موقع ہے۔اُنہیں سنجیدگی سے اب تک اپنی نارسائیوں اور کارگزاریوں پر غور کرنا چاہئے۔ اگر وہ یہ نہیں کریں گے تو آئندہ کے لئے اپنے قابلِ رسا اہداف کا بنیادی شعور تک حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اور ایک بار پھر گمراہ کن مقاصد متعین کرکے، ناقابلِ حصول تمناؤں کے قیدی بن کر خود کو ایک تماشا بنا دیں گے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ ابھی تک آئینے میں دوسروں کو اُن کے چہرے دکھانے کے کارِ لاحاصل میں مبتلا اور خود اپنا چہرہ اُسی آئینے میں دیکھنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ جس کے باعث وہ ملکی منظر نامے پر اپنی سنجیدگی کا کوئی نقش مرتب نہیں کر پارہے۔ یہی ماجرا اُن کی کُل جماعت اور اس کے انگڑ کھنگڑ کا ہے۔

عمران خان کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے والی ’’قوتوں‘‘ نے دراصل عمران خان کو ’’داؤ‘‘ پر لگا کر یہ پورا ناٹک رچایا تھا۔ ا س پورے ناٹک میں شامل ایک اہم ادارے کے اہم ترین ’’صاحب‘‘ سے ایک موقع پر جب اس ضمن میں مکالمہ ہوا تو وہ اِس ناٹک کو رچانے سے کئی ماہ پہلے ہی اس پر پوری طرح واضح تھے کہ عمران خان سیاست کا متبادل راستا نہیں بن سکتا۔ وہ اُس کی سیلانی طبعیت کا ایک پورا خاکہ کاغذ پر مرتب کرکے بیٹھے تھے۔ اُنہیں یہ معلوم تھا کہ عمران خان پر پورا بھروسا کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کالم نگاروں اور کرائے پر حاصل ٹیلی ویژن میزبانوں کی زبانوں سے بنائے گئے مصنوعی ماحول کے بالکل برعکس وہ عمران خان کی انتظامی صلاحیتوں پر بھی شک رکھتے تھے۔ اُن کی تمام باتوں کا خلاصہ ایک فقرے میں یوں بیان کیا جاسکتا تھا کہ ’’عمران احتجاج کا چہرہ تو بن سکتا ہے اقتدار کا نہیں۔‘‘خاکہ کش قوتوں کو کبھی بھی یہ شک نہیں ہوا کہ عمران خان اپنی سیاسی موسیقی کے اس گیت یعنی ’’گو نواز گو ‘‘ کو ’’کم عمران کم‘‘ میں بدل سکتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ غور کیجئے! عمران خان کو احتجاج کی حدت وشدت میں مسلسل جہاں دھکیلا جارہا تھا، اُس سے کہیں یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی خود ایک حکمران بننے کے لئے قابلِ قبول مقام حاصل کر پائیں گے۔ اگر غور کیا جاتا تو تب ہی لوگ سمجھ سکتے تھے کہ نواز شریف سے اگر زور زبردستی سے اقتدار چھین بھی لیا جاتا تو بھی اُنہیں معاشرے کی اُن تمام مستقل قوتوں سے نبردآزما کر دیا گیا تھا جنہیں بہرحال باقی رہنا تھا۔ عمران خان کبھی بھی ذرائع ابلاغ کی اُن قوتوں کو اب اپنے حق میں مکمل استوار نہ کرپائیں گے جنہیں وہ کچھ ’’عناصر‘‘ کے اشاروں پر للکارتے اور دھتکارتے رہے۔ وہ اُنہیں نشانۂ تنقید کے بجائے نشانۂ تحقیر بناتے رہے۔ آدمی تنقید گوارا ورپھر فراموش بھی کردیتا ہے مگر وہ اپنی تحقیر کبھی نہیں بھولتا۔ آخر عمران خان کس کے بوتے اور برتے پر ہر ایک کو گالی دے رہے تھے۔ ذلت کے ایسے مناظر وہ لوگ بھی برداشت نہیں کرپارہے تھے جو اس کے شکار نہیں تھے۔جناب قدرت اللہ چوہدری نے شمار کررکھا ہے کہ عمران خان نے افتخار چوہدری پر 73مرتبہ اورنجم سیٹھی پر 65مرتبہ دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اُنہوں نے میر شکیل الرحمان کا نام لے لے کر اُن پر ملامت کی۔ میر شکیل الرحمان پر گفتگو کے لئے اُن کے پاس کوئی ارفع مقصد نہ تھا۔ اُنہیں اُن کی اُن ابلاغی پالیسیوں پر مہذب الفاظ میں نشانۂ تنقید بنایا جاسکتا تھا جس کے تحت اُنہوں نے مذہب ، معاشرت ، ثقافت اور صحافت سب کو تجارت بنا کر اُنہیں سرمائے کی پرستش پر مامور کردیا ہے مگر عمران خان کے پاس میر شکیل الرحمان کو نشانۂ تنقید بنانے کی وجہ بہت ہی پست اور کہتر تھی کہ اُنہوں نے انتخابی دھاندلی میں نون لیگ کی مدد کی ہے۔ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ جیو انتخابی ماحول میں بعض مواقع پر خود تحریکِ انصاف کے حق میں غیر متوازن دکھائی دیا تھا۔ مگر ظاہر ہے کہ عمران خان نے یہ کسی کے ایما ء پر کیا تھا۔ یہی کچھ مولانا فضل الرحمان کے معاملے میں بھی ہوا ۔ جن کے خلاف ایک متعصبانہ ماحول میں اکثر زبانیں دراز رہتی ہیں۔ وہ سیاست کے اسرارورموز کو سمجھنے والے ایک کامیاب سیاست دان ہیں۔ جنہیں بہت سے ’’عناصر‘‘ طرح طرح کے غیر ثابت شدہ ’’اسکینڈلز‘‘ (فضیتوں) میں ملوث کرکے اپنی ڈھب پر لانے میں ناکامی کے بعد اپنے مستقل نشانے پر رکھتے ہیں۔ اُن کے خلاف بازاری زبان تو اب استعمال کی گئی مگرعمران خان کی سیاست میں پیدائش سے قبل بھی اُن کے خلاف بازاری عورتیں تک میدان میں لائی جاتی رہیں۔ کیا یہ سارا کھیل کسی بھی آدرش سماج کی تشکیل میں گوارا کیا جاسکتا ہے؟مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ کے خاکے کے برخلاف رہ کر اپنے رجحانات سے سیاست کرکے ایک کامیاب سیاست دان کا تاثر اپنے مخالفین پر بھی نقش کر چکے ہیں۔ عمران خان کسی بھی سطح پر اخلاقی طور پر مولانا کے خلاف بات کرنے کے اہل نہ تھے ،مگر یہ بھی اُن کے ہاتھ تھمائے گئے خاکے کا حصہ تھا۔ وہ گھوڑے گدھے، چوزے اور پلے کے درمیان فرق کو ہی نہیں سمجھ رہے تھے ۔ہر ایک کے لئے اُن کے پاس ایک زبان اور ایک سی حقارت تھی۔ اوئے اور ابے تبے کی جو زبان وہ بار بار بولتے رہے،اگر پورا انتخابی عمل منظم دھاندلی کا شکار ہوتا اور عدالتی کمیشن کی رپورٹ مکمل عمران خان کے حق میں آجاتی، اس کے باوجود بھی یہ زبان گوارا نہیں کی جاسکتی تھی ۔مگر عمران خان یہ زبان کسی بھی ثبوت کے بغیر استعمال کرتے رہے۔ 35 پنکچرز والی بات عمران خان نے خود سیاسی بات کہہ کر ٹال دی اور اب افتخار چوہدری کے ملوث ہونے کی بات حامد خان نے غلط کہہ دی۔ یہ سب کچھ کیا اتنا ہی آسان ہے۔ اس نے کتنے دماغوں کو چھلنی کتنے دلوں کو زخمی اور کتنے افراد کو متعصب بنا دیا۔ جیسے نوازشریف کے کچھ حامی کرائے کے قلم کار بتائے جاتے ہیں ،کیا عمران خان کے حامی قلم کاروں پر اسی نوع کی پھبتی کسی جاسکتی ہے؟ عمران خان نے صرف دھرنا نہیں دیا تھا بلکہ ہمارے پورے سماج کی بنت کو دھچکا دیا تھا۔یہ سماجی بنت اپنی بنیادوں میں عمران خان کے دھرنے سے کہیں زیادہ کسی حکومت کی غلط روی کے خلاف دفاع کی طاقت رکھتی ہے اور اِسے کسی ادارے کے’’ چند ملازمین ‘‘ کے جنبشِ ابرو کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔عمران خان کو ان پہلوؤں پر بہت ٹھنڈے دل ودماغ سے اب غور کی ضرورت ہے۔کیونکہ عمران خان کے لئے آئندہ کا راستا پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ثابت ہوگا۔

عمران خان کے لئے اب جائز انتخابی عمل سے اسلام آباد کا سفر نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ وہ گزشتہ انتخابی ماحول کی سنسنی خیزی کبھی حاصل نہ کرسکیں گے۔ انتخابات سے پہلے اُن پر داؤ لگانے والی قوتیں اب اُن کے معاملے میں ’’ محتاط روی‘‘ پر مجبور رہیں گی۔پھر عمران خان کے رویئے اور ناپختگی نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ ان سے کسی نوع کامعاملہ سانجھے کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے پر لانے کے مترادف ہوگا۔ اُنہوں نے دھرنے سے پہلے اور بعد کے کچھ عرصے تک جس طرح کچھ لوگوں کے نام لئے اور لوگوں کے ذاتی اعتماد کو ٹھیس پہنچایا۔ وہ اُن کے حوالے سے ایک ناقابلِ اعتبار شخص کے طور پر ایک خطرناک رائے پیدا کرنے کا موجب بنا ہے۔ اُنہوں نے ایک حاضر خدمت برگیڈئیر کا نام انتخابی دھاندلی کے حوالے سے منکشف کرنے کا اعلان کیا اور پھر اُنہیں اعلان کردہ وقت پر چپ سی لگ گئی۔ اس کاپسِ منظر ظاہر کرتا ہے کہ ایک بہادر آدمی کے طور پر ان کی بنائی گئی چھوی بھی پوری طرح درست نہیں۔ اُنہیں اسی ادارے کے کچھ لوگوں نے زمان پارک میں ملاقات کرکے اس کے خطرناک نتائج کی طرف متوجہ کیا جس کے بعد بہادر عمران خان کو ایک چپ سی لگ گئی۔ یہی کچھ ماجرا توہین عدالت کے حوالے سے اُن کی طلبی کے حوالے سے ہوا۔ جس میں ایک لفظ کے استعمال پر اُنہیں معافی مانگنی پڑی۔مگر وہ پھر اُسی تیور کے ساتھ نمودار ہوئے۔اس نے عمران خان کا رہاسہا اعتبار بھی اب ختم کردیا ہے۔عمران خان کے لئے اب اپنے ماضی کو ٹٹولے بغیر مستقبل کی راہ نہیں نکل پائے گی۔ اس کے باوجود کہ نوازشریف اپنی حکمرانی کے بدترین طرزِ عمل سے شدید مخالفت کی زد میں آجائیں ، عمران خان کو جو کچھ مل گیا ہے اُس سے زیادہ کی حصولیابی انتہائی مشکل ترین ہوگا۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ وہ بات آدرش کی کرے ہیں اور اپنا عمل چند بدترین لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا دیتے ہیں۔ جس نے اُن کی منزل کو خود اُن سے ہی نہیں خو اُنہیں بھی اپنے آپ سے دور کردیا ہے۔ اُن کے تصورات اور اعمال کی اس آویزش کا جائزہ اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان وجود - هفته 17 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر