وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہشت ناک رویے

بدھ 10 اگست 2016 دہشت ناک رویے

terrorism-in-pakistan

چرچل نے کہا تھا: رویہ بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر یہ ایک بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ ‘‘دہشت گردی کے متعلق ہمارا رویہ کیاہے؟ اگر اس ایک نکتے پر ہی غور کر لیاجائے تو ہماری قومی نفسیات ، انفرادی عادات اور اجتماعی حرکیات کا پورا ماجرا سامنے آجاتا ہے۔

پاکستان دہشت گردی کا شکار آج سے تو نہیں ہے۔1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے روایتی جنگوں میں نہیں بلکہ غیر روایتی میدانوں میں مقابل ہوں گے۔ غیر واضح چہروں اور نامعلوم ہاتھوں کی لڑائی کا رجحان ہرگزرتے دن تقویت پکڑتا گیا۔ یہ لڑائی اب تقریباً نصف صدی پر محیط ہوچکی ہے اور اس نے اپنی تاریخ ، نفرت اور جڑیں بنا لی ہیں۔ یہاں تک کہ اس لڑائی میں دونوں طرف استعمال ہونے والے غیر ریاستی جتھے اور گروہ خود بھی اتنی مہارت اور طاقت حاصل کرچکے ہیں کہ وہ ہاتھ سے بڑھ کر اب اپنی ہی جنگ کا دماغ بن چکے ہیں اور اپنے پالنے والوں سے بے نیاز رہ کربھی بقا کی لڑائی لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔مگر عملاً ان گروہوں کو اُن کی پالنے والی ریاستوں سے الگ کرنے اور خود اُن کے ہی خلاف استعمال کرنے کا کامیاب راستا امریکا نے نوگیارہ کے بعد پاکستان کے خلاف ڈھونڈا۔ امریکا افغانستان کی جنگ تو نہیں جیت سکا، مگر اُس نے پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اس طرح مبتلا کردیا ہے کہ پاکستان میں استعما ل ہونے والے مختلف گروہوں کو اُن کے اصل پالنے والوں سے چھین لیا۔ اور اُنہیں ردِ عمل کی نفسیات سے دوچار کرنے کے لئے عسکری اداروں کو اُن کے خلاف بتدریج اور آہستہ آہستہ ایسے اقدامات پر مجبور کیا کہ وہ گروہ اُن سے نفرت کرنے لگیں۔ کسی بھی لڑائی میں نفرت سے بڑھ کر اثاثہ اور اسلحہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ اب یہ نفرت اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ یہ گروہ پاکستان کے کھلے دشمنوں سے بھی ساز باز اور گانٹھ سانتھ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ اس خوف ناک رجحان کے لیے ہمارے پاس کسی بھی سطح پر کوئی تجزیہ موجود نہیں۔ یہی نہیں اس رجحان کے معمولی ادراک کی بھی صلاحیت کا بھی ہم کوئی مظاہرہ نہیں کرسکے۔ چہ چائیکہ اس حوالے سے کوئی دورس اور کثیر الجہتی حکمت عملی بنائی جاتی۔

آگے بڑھیں! چلیں ہم قومی ریاست پر صحیح اور غلط کے معروف معیارات کو تج دیتے ہیں اور اس پر ایمان لے آتے ہیں کہ جب بھی ریاست جو کچھ کرتی ہے، درست کرتی ہے۔نشاۃ ثانیہ اور نام نہاد تحریک اصلاح کے بطن سے برآمد ہونے والی بتدریج قومی ریاستوں کی موجودہ شکل وصورت 1919ء میں لیگ آف نیشن اور بعد ازاں اقوام متحدہ کی تشریحات نے بنائی ہے، پھر بھی اس سے قبل کی دنیائے انسانیت کو جہالت کی مخلوق مانتے ہوئے ایک ڈیڑھ صدی کی قومی ریاست کے اس تصور پر مکمل ایمان ہی لے آتے ہیں۔ اب کیا ایسی ریاست اپنے گزشتہ کل سے نجات پانے کی جدوجہد میں ہو، اور ایسے کل سے جس نے ایمان، عقیدہ اور نظریئے کے امتزاج سے کچھ جھوٹی سچی تشریحات پر گزارہ کیا ہو، تو ایسا فیصلہ قوم پر کیا وقت لائے گا؟ اس کا کوئی درست جائزہ لیا گیا تھا۔ اس کے لیے ریاست کو کس کس سطح پر کہاں کہاں بروئے کارآنا پڑے گا، کیا اس پر کوئی غورکیا گیا تھا؟مسئلہ یہ ہے کہ جدید ریاستوں میں فوج ملکوں کا ہاتھ ہوتی ہے، دماغ نہیں۔ اور پاکستان میں دماغ کا کام بھی ہاتھوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں دماغوں نے کبھی بھی کسی اعلیٰ درجے کی ذہانت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ اب ہاتھ جسم میں سوچنے کا کام کتنا کرسکتے ہیں ، بس اُتنا ہی ریاست میں عسکری ادارے بھی کررہے ہیں۔اس ’’بندر کی بلاطویلے کے سر ‘‘ والی ناموزوں مشقت نے پاکستان کو ایک ایسی صورتِ حال میں دھکیل دیا ہے کہ یہاں ہر نیا دن پہلے سے زیادہ پُرخطر بن کر سامنے آتا ہے۔

ریاست کو خطرات تو نظری ، فکری اور وجودی سطح کے ہیں مگر ریاست تو اس سکت کا بھی مظاہرہ نہیں کرپارہی کہ وہ روزمرہ کے عملی مسائل سے ہی نبر د آزما ہولے۔ اگر دہشت گرد ہمارے لیے روز ایک نئی طرز کی موت ایجاد کریں تو اُن کے اس طرزِعمل پر تو ادارے اور حکومت گنجائش کی ڈھال استعما ل کرسکتی ہے۔ مگر دہشت گرد اگر ایک ہی طرح سے بروئے کار آتے ہو، اور اُن کے اندازواطوار میں ایک’’ پیٹرن ‘‘ یا نمونہ موجود ہو، اور ہم پھر بھی اپنی قوم اور اداروں کو اس سے نبرد آزما ہونے میں ناکام پائیں ۔ تو اس کی کوئی معافی نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ایک خاص طرح کی ذہنیت کارفرما ہوتی ہیں۔ دہشت گردی کے لیے استعما ل ہونے والے ہاتھ تو اہداف پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں مگر اس کے دماغ خاص طرح سے حرکت میں آتے ہیں ۔ مثلاً عام طور پر دہشت گردی کے لیے دسمبر اور اگست کی تاریخوں کا انتخاب سقوط ڈھاکا اور ماہ آزادی کی مناسبت سے کیا جاتا ہے۔ ان مہینوں میں اداروں کو زیادہ مستعد اور چوکس ہونا چاہئے، مگر افسوس ناک طور پر ہمارا طرزِ عمل حفظ ماتقدم یا پھر اقدامی نہیں بلکہ بعد از اقدام ردِ عمل سے عبارت ہوتا ہے۔سانحہ کوئٹہ کے ہی تناظر میں اس کا جائزہ لے لیں۔ ایساہی ایک واقعہ بالکل اسی انداز میں ٹھیک اسی تاریخ کو اسی شہر میں رونما ہو چکاہے۔ کوئٹہ میں ہی ایس ایچ او محب اللہ داؤی کو 8 اگست 2013ء کو نشانا بنایا گیا۔ جب اُن کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے لوگ جمع ہوئے تو اس پر خودکش حملہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں تیس افراد لقمہ اجل بن گیے۔ اسی طرح ایک بینک مینجر کے اہدافی قتل( ٹارگٹ کلنگ) کے بعد جب ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اسی سول اسپتال کوئٹہ میں جمع ہوئے تو اُنہیں ماضی میں اسی طرح نشانا بنایا گیا۔ اس طریقہ واردات کو’’ بوبی ٹریپ‘‘(Booby trap)کہتے ہیں، جس میں پہلے ایک چھوٹا واقعہ کرکے لوگوں کو اُس کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، اور پھر ایک زیادہ بڑی کارروائی میں اُنہیں نشانا بنا لیا جاتا ہے۔ نوگیارہ کے بعد کراچی میں ہونے والے ابتدائی دھماکوں میں اس طرز کو متعدد مرتبہ استعمال کیا گیا۔ میٹروول کے علاقے میں ایک امریکن کلچر سینٹر کے قریب اس نوع کی کامیاب واردات ہوئی تھی۔ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکنا ہو کر واردات کے بعد ردِ عمل کے طریقے وضع کر لینے چاہئے تھے۔ یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ پہلی کارروائی اچانک ہوتی ہے ،مگراس کے بعد ہونے والی کارروائی کے لیے کوئی حیلہ اور جواز نہیں مانا جاسکتا۔ کوئی کچھ بھی کہے ، سانحہ کوئٹہ میں اسپتال میں ہونے والا دھماکا دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی نااہلی ہے۔

حیرت انگیز طور پرسرکاری ادارے اپنی ہر ناکامی کو زیادہ اختیارات کے مطالبے میں چھپالیتے ہیں۔ اور ہر حادثے کے بعد جواب دہی کے بجائے زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسی اُلٹی خوراک سے صرف پاکستان ہی چل سکتا ہے۔ دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں ۔

اس رویئے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ہر حادثے کو زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی جنگ میں کیوں تبدیل کردیا جاتا ہے؟ آخر کیوں ہم دہشت گردی کے متعلق اپنے فرسودہ رویوں پر غور نہیں کرتے؟اور کیوں ہر دہشت گردی کے بعد ہمارا ردِ عمل نہایت پست سطح کی گروہی تعبیرات کا آئینہ دار ہوتا ہے؟ ان سوالات پر غور اگلی تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ابھی تو صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ رویہ ہی فرق ڈالتا ہے۔ مگرہمارا رویہ دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کا فرق ڈالنے والا ہرگز نہیں۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

مارچ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں دُگنا اضافہ وجود - هفته 02 اپریل 2022

فروری میں دہشت گردی میں کمی کے بعد مارچ میں جنگجو حملوں میں بھی دو گنا اضافہ ہوا ، دہشت گردی کے رجحانات پر نظر رکھنے والے اسلام آباد میں قائم آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ماہ مارچ میں ملک میں سلامتی کی صورتحال ...

مارچ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں دُگنا اضافہ

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

انار کلی دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج وجود - جمعرات 20 جنوری 2022

انار کلی بازار سے ملحقہ پان منڈی میں ہونے والے دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کر لیا گیا ۔ مقدمہ سی ٹی ڈی کے انسپکٹر عابد بیگ کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔ مقدمے میں سیون اے ٹی اے،3/4ایکسپلو زو ایکٹ ، 302،324،بی 120اور 109کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ۔مقدمے کے متن میں کہا گیا...

انار کلی دھماکے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج

افغانستان، مسجد میں بم دھماکا، 37فراد جاں بحق، 70سے زائد زخمی وجود - هفته 16 اکتوبر 2021

افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد میں ہوئے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو گئی ہے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکا ٹھیک اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس بم دھماکے کا ہدف صوبے کی سب سے بڑی شیعہ م...

افغانستان، مسجد میں بم دھماکا،  37فراد جاں بحق، 70سے زائد زخمی

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر