وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس (8)

جمعه 27 مئی 2016 دیوار گریہ کے آس پاس (8)

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلی تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ہمارے اور اُن کے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے۔ اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا۔ یہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔

انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ اور تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے۔
===========

دائیں طرف ڈاکٹر کاشف مصطفی اور بائیں طرف حاطم

دائیں طرف ڈاکٹر کاشف مصطفی اور بائیں طرف حاتم

بات چل رہی تھی مشہور مسلمان سیاح ابن بطوطہ کی جو قبۃ الصخری کا حسن تعمیر دیکھ کر مہبوت رہ گیا تھا۔حرم الشریف کی دیگر عمارات کی طرح قبۃ الصخریٰ میں بھی صرف مسلمانوں ہی کو داخلے کی اجازت ہے۔یہاں متعین کئی عرب محافظین مدرسے کے طالبان کی مانند موجود تھے۔ ان میں سے ایک بے حد وجیہہ گارڈ لائین میرے آگے موجود ایک صاحب کے راستے میں حائل ہوگیا تھا۔یہ حضرت چہرے مہرے اور انداز سے مجھے کوئی ترک لگتے تھے ۔وہ ان سے چھٹا کلمہ سنانے کی فرمائش کر بیٹھا۔اُس کا یہ مطالبہ سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں بھی ایک سرد برقی رو دوڑ گئی ۔ چھٹا کلمہ تو مجھے بھی یاد نہ تھا۔ فارسی زبان کا محاورہ ترکی بہ ترکی جو اردو میں بھی مستعمل ہے اب میری سمجھ میں آیا ،کیوں کہ وہ ترک حضرت اس کے مطالبے پر جھنجلا کر پوچھنے لگے کہ ’’مسلمان ہونے کے لیے چھٹا کلمہ یاد ہونا اﷲ نے کہاں لازم قرار دیا ہے؟‘‘ اس کی جانب سے جو بھر پور وار ہوا ،وہ بھی عربی تکبر کی ایک واضح علامت تھا ۔ وہ کہنے لگا ’’روز قیامت تمہارے مسلمان ہونے کا فیصلہ اﷲ کرے گا مگر آج یہ اختیار مجھے حاصل ہے۔ترک بے چارے کو دروازے سے ہی لوٹنا پڑا۔ حاتم کی رفاقت میں میرا اسلام کسی آزمائش اور اس کے احتیاط بھرے تکبر کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہا اور ہم اس مشہور عمارت میں داخل ہوگئے۔

بلاشبہ ابن بطوطہ نے جو کچھ تیرھویں صدی میں بیان کیا ،وہ درست ہے۔اس کا بیرونی حسن تو دلفریب ہے ہی، اندر کا حسن بھی ناقابل بیان ہے۔دنیا میں اپنی اصل حالت میں موجود اس کی محراب آج اسلامی عمارات کی قدیم ترین محراب ہے۔اس کے اندرونی حصے میں جا بجا سنگ مرمر، دھاتی طغرے میں قرانی آیات بیلوں کی صورت میں اس طرح درج ہیں کہ کہیں کہیں ان پر رنگ برنگے، پتھروں نے ان کا حسن خطاطی اور بھی بڑھا دیا۔چونکہ وہاں ان دنوں مرمت کا کام جاری تھا لہذا چٹان (صخری) کو ایک دبیز کینوس سے ڈھانپ کر محفوظ کردیا گیا تھا۔

مجھے یہ دیکھ کر کچھ مایوسی ہوئی تو حاتم میاں نے میرے چہرے کے تاثرات پڑھ لیے اور بہت آہستگی سے مجھے اپنے ساتھ آنے اور خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ایک کونے میں دنیا و مافیا سے بے نیاز ایک بوڑھا عرب تلاوت قرآن پاک میں مشغول تھا ۔ اس کے کان میں حاتم نے جھک کر کچھ کہا تواس نے میرا بغور جائزہ لیا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں نے اردگرد دیکھا تو مجھ سمیت کل دس زائرین ایک نیم دائرے کی شکل میں موجود تھے۔وہ ان سب کو چھوڑ کر ہم دونوں کو اشارہ کرنے لگا اور ہم سمجھ گئے کہ وہ ہمیں خاموشی سے ایک دم سیدھے ہاتھ والے کونے میں جانے کا کہہ رہا ہے جہاں سے چند قدم ہی کے فاصلے پر ایک غار سا تھا۔’’بئرالارواح‘‘ (ارواح کا کنواں) حاتم نے میرے کان کے بہت پاس سرگوشی کی۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ کہاں تو میری زندگی مدتوں ایک ہی رفتار اور ایک ہی سمت میں رینگتی رہتی ہے اور کہاں اتنے قلیل وقت میں اﷲ سبحانہ تعالی مجھے اتنا کچھ دکھا رہا ہے کہ میں ارواح کے کنوئیں میں اتررہا ہوں۔آپ کو اگر ایک مشہور فلم سیریز انڈیانا جونز کی ایک فلم ’’ lost arc Raiders of the‘‘

دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو (جس کے ڈائیریکٹر بھی یہودی ہیں یعنی Steven Spielberg ) آپ کے علم میں ہوگا کہ یہودیوں کا مشہور Arc of Covenant ’’تابوت سکینہ ‘‘ یعنی لکڑی کا وہ مقدس صندوق جس میں ان کے عقیدے کے مطابق وہ دو تختیاں، جو کوہ طور پر حضرت موسیؑ کو اﷲ نے عطا کیں۔ حضرت ہارون کا عصا، وہ برتن جس میں ان پر آسمان سے بھیجا جانے والا من و سلوی محفوظ ہے۔اس صندوق کو ایک بیانیے کے مطابق، بابل کی افواج 587 قبل از مسیح اپنے حملے میں ہیکل سلیمانی کو برباد کرکے ساتھ لے گئی تھیں۔کچھ یہودی ربی البتہ بعد میں یہ کہنے لگے کہ اسے حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے عین اسی جگہ چھپادیا گیا تھا جہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا۔

مذکورہ بالا فلم میں تو انڈیانا جونز کو یہ تابوت بئر الارواح میں مل جاتا ہے۔ فلم میں البتہ ایک مصلت دور دراز کے تحت اور اسکی جانب غیر ضروری توجہ مبذول ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کی برآمدگی اور کنوئیں کا محل وقوع مصر کے قدیم شہر صان الحجر ( جنات) جس کا قدیمی نام تانس تھا وہاں سے دکھائی گئی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ روز قیامت سب ارواح قبہۃ الصخری والے اسی کنوئیں میں جمع کی جائیں گی۔ان کے ایک اہم بزرگ یہ کہتے ہیں کہ اس کنوئیں سے ان روحوں کی آوازوں میں جنت کے دریاؤں کی لہروں کی گنگناہٹ سنائی دیتی ہے۔ہم اس کنوئیں میں داخل ہوگئے۔یہ ایک کنواں ایک طرح کا غار ہے اس کے فرش کے اوپر ایک ساڑھے چھ فٹ کی انتہائی چکنی چٹان بطورایک پلیٹ فارم کے موجود ہے ۔ جس کی اونچائی ساڑھے چھ فٹ اور چوڑائی اور لمبائی تقریباً 14 فٹ ہے ۔اس کے فرش پر سجادے (جانمازیں) موجود ہیں اور ان جانمازوں کے درمیان ایک بہت صاف دائرہ نما سوراخ موجود ہے۔گویا یہ ایک طرح کا ایسا ٹیک آف اسٹیشن ہے جہاں سے کسی خصوصی سواری نے روانہ ہونا ہو۔

یہی عین وہ مقام ہے جہاں سے ہمارے نبی محترم ﷺمعراج کے لیے بلندیوں پر گئے تھ

یہی عین وہ مقام ہے جہاں سے ہمارے نبی محترم ﷺمعراج کے لیے بلندیوں پر گئے تھ

اس کمرے نما کنوئیں میں داخل ہوتے ہی حاتم کی آنکھیں ایک سرور بے پایاں سے سرخ ہوگئیں ۔نیچے آن کر لگا کہ حاتم نے مجھے موقع دیا کہ میں سیڑھیاں اتر کر عین اس سوراخ کے نیچے فرش پر کھڑا رہوں۔ اس نے اپنے لیے عین مقابل سیڑھیاں منتخب کیں۔ یہی عین وہ مقام ہے جہاں سے ہمارے نبی محترم ﷺمعراج کے لیے بلندیوں پر گئے تھے۔ وقت میں سفر کرنا ایک بے حد دل چسپ موضوع ہے۔ مجھے یہ اس سوراخ کے نیچے کھڑے ہوکر باہر آسمانوں میں جھانکتے ہوئے پہلی دفعہ سمجھ آیا ایسا لگا کہ اس سنہری گنبد کی چھت سے آر پار گزر کر نبی کریم ﷺکے عام سے ایک امتی ہونے کے ناطے ،سعادت حضوری کے انعام کے طور پر ہزارہا شعاع الانوار مجھ پر برس رہی ہیں۔یہ وہ کیفیات ہیں جن کا بیان بہت ہی مشکل ہے۔مجھے اس کے نیچے اور منڈیر کو چھوکر لگا کہ میری روح میں برکات اور ادراک کا ایک نیا باب وا ہوگیا ہے۔مجھے پہلی دفعہ زمان و مکان کی وہ گتھی بھی سلجھتی ہوئی محسوس ہوئی جو متعلق فلکی طبیعات اور خود فلکیات اور علوم ریاضی کی الجھن بنی ہوئی ہے۔مجھے وقت اور فاصلوں کے وہ حوالے جو دنیا میں رائج ہیں، اﷲ کے نزدیک بے معنی دکھائی دیے۔وہ جو مالک کن فیکون ہے۔ اس سفر کے حوالے سے اس مقام پر میرے ایمان کو مغرب کے کھرے سچے سائنسدانوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ایسا استحکام ملا کہ میرے پاس اب نبی کی اطاعت اور اﷲ کی بندگی کا جواز خالصتاً اسلامی ہے۔

میں یہاں گہری مدہوشی کے عالم میں تھا کہ حاتم نے میرے شانے جھنجوڑتے ہوئے مجھے دو رکعت نفل صلوۃ کی تجویز دی۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کہ میں اس پر عمل کرتا۔ میرے لیے یہ بیان نا ممکن ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ اس کنوئیں میں میری کیا کیفیت تھی۔میں نے انکار کردیا تو مجھے لگا کہ شاید وہ مجھ سے پہلے کسی اور کے ساتھ اسی طرح کے معاملات میں شامل رہا ہے۔مجھے وہ کہنے لگا وقت بہت کم ہے۔ میں اپنی کیفیت کی وجہ سے اس سے لا تعلق ہوچلا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا تمہارا قد اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ تم اس پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر منڈیر کو چھولو۔

میں نے اس کا کہنا مانا اور اپنا دایاں ہاتھ اس کنوئیں کی منڈیر کو چھونے کے لیے اٹھایا تو یہ ہاتھ جو بے حد نازک سرجری میں بھی کبھی نہیں کپکپایا، ایک کمزور سے پتے کی طرح لرز رہا تھا ۔یہ عالم ان ٹانگوں اور گھٹنوں کا تھا جو دوران آپریشن جانے کتنے گھنٹے بلاتکان مجھے سنبھالے رکھتے ہیں۔ میں نے منڈیر کو چھوا اور فوراً ہی بیٹھ کر دو رکعت نماز کی نیت باندھ لی اپنے پیاروں کے لیے جو دعائیں میں نے مانگنی تھیں ،یک لخت ذہن سے محو ہوگئیں۔میں نے اپنی صلوۃ ختم کی اور حاتم کے ساتھ اوپر چلا آیا۔ وہاں اب کوئی اور زائر موجود نہ تھا۔حاتم نے یہ کرم کیا کہ ان بزرگ قاری کے ساتھ مل کر اس کینوس کو ہٹا دیا تاکہ میں صخری یعنی اس چٹان کی ایک جھلک دیکھ پاؤں جہاں سے آپ معراج پر تشریف لے گئے تھے ۔ یہ 60 فٹ لمبی 40 چوڑی اور 6.5 فٹ اونچی چٹان ہے۔

 حضرت جبرئیل ؑ کے دست امین کا نشان

حضرت جبرئیل ؑ کے دست امین کا نشان

sakhra identifying hole

عرب قاری صاحب بتانے لگے کہ ہمارے رسول اکرمﷺ براق پر سوار ہوئے تو چٹان وفور جزبات اور جزبۂ وارفتگی سے براق کی رفاقت میں بلند ہونے لگی تو حضرت جبرئیل نے حکم الہی سے اس پر اپنی ہتھیلی رکھ کر اسے لوٹا دیا تو آپ کے دست امین کا نشان موجود رہ گیا ۔(دونوں تصاویر یہ فرق واضح کرتی ہیں)۔آپ یہ بھی بات جان لیں کہ صخریٰ کا جو زیریں فرش ہے ،وہ بئر الارواح کی چھت ہے اور بئرالارواح کا جو کنواں ہے اس کی نشانی آپ کو اس سوراخ سے دکھائی دیتی ہے جو بئرالارواح سے صخری کے بالائی فرش تک موجود ہے جو تصویر میں آپ کی آسانی کے لیے ایک پیلے اسکوائر سے ظاہر کیا گیا ہے۔ یہاں براق کے سموں کے نشان بھی ہیں۔

میں تیزی سے کچھ تصویریں اپنے کیمرے سے بنانے میں لگ گیا۔اتنے میں اوپر کچھ آوازیں سنائی دیں تو انہوں نے جلدی سے کینوس کو چٹان پر پھیلادیا۔میں بھی خاموشی سے ایک کونے میں الگ تھلگ انجان بن کر بیٹھ گیا۔یہ مقام یعنی قبۃ الصخری اہل یہود کے ہاں بھی بہت متبرک گردانا جاتاہے وہ اسے ماؤنٹ موریا کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ اسے دنیا کا نقطۂ آغاز سمجھتے ہیں۔یہودیوں کاعقیدہ ہے کہ اسی چٹان پر حضرت اسحقؑ کے نسلی تفاخر کی بنیاد پر قربانی پیش کی گئی تھی۔ان دنوں اسرائیل میں ان کے مذہبی پیشواؤں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس جگہ کو بزور طاقت مسلمانوں سے چھین لینے کے مطالبے اور حیلے کررہا ہے۔

اس دوران مغرب کی اذان ہوگئی اور صلوۃ کی ادائی کے بعدمجھے ایک دفعہ پھر عبدالرحمن صاحب نے گھیر لیا مگر اب کی دفعہ وہ تنہا نہ تھے بلکہ بیس عدد مریض بھی ان کے جلو میں تھے اور میری مدد کے لیے انہوں نے کہیں سے ایک طالبہ اور ایک طالب علم کو بھی معاونت کے لیے شریک معالجہ کرلیا تھا کہ وہ میری ترجمانی کے فرائض انجام دیں گے۔بسم اﷲ ، اس مقام عزت پر مجھے ان سب مریضوں کی آنکھوں میں بہت سی امیدیں دکھائی دیں۔

طبی معائنے کا یہ سلسلہ عشا کی نماز تک جاری رہا ۔میں نے عشا وہیں مسجداقصی میں پڑھی اور باب الرّحمہ کی جانب چل پڑا ۔ حاتم کہیں جاچکا تھا۔راستے میں کئی خاندان دکھائی دیے جو مصروف الطعام تھے ،مجھے کم از کم پانچ ایسے خاندان یاد ہیں جو بہت مصر تھے کہ میں ان کے ساتھ شریک طعام ہوجاؤں۔باب الرّحمہ کہ پاس پہنچ کر مجھے لگا کہ میں ملاقات کے لیے طے شدہ ،حاتم کی بتائی ہوئی جگہ بھول چکا ہوں۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ پیچھے سے مجھے کسی نے ڈاکٹر مصطفے کہہ کر آواز دی۔مڑکردیکھا تو ایام گزشتہ کی بھٹکی ہوئی روح شائم ایمون دکھائی دیا۔ شائم ایمون توآپ کو یاد ہے نا ۔ ارے وہی ایتھوپین ربی، جو جہاز میں میرا ہم نشین تھا۔

’’مجھے یقین تھا ہماری ملاقات ایک مرتبہ اور ہوگی ‘‘میں نے تکلفاً اس سے دیوار گریہ کا پوچھا کہ کیا وہ وہاں گیا تھا تو جواب میں اس نے بھی میرے معمولات جاننا چاہے میں نے تفیصلات سے گریز کرتے ہوئے صرف اقصی اور قبتہ الصخری کا ذکر کیا۔اس پر وہ کسی توقف کے بغیرگویا ہوا ’’اچھاتو تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو یہ مانتے ہیں کہ تمہارے نبی وہیں سے آسمانوں کی جانب گئے تھے؟میں نے سوال کی تحقیر بھری کاٹ محسوس کی اور مجھے لگا کہ اس قدر روشن خیال ہونے کے باوجود بھی وہ اندر سے اپنے مذہب سے ویسے ہی جڑا ہے جیسے دیگر صیہونی باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔اپنے سوال کی مزید وضاحت اس نے قبۃالصخری کی جانب اشارہ کرکے کی اور میرے مختصر سے جواب اثبات کو سن کر کہنے لگا۔’’ جان لو کہ دنیا کا مرکز اسرائیل ہے،اسرائیل کا مرکز یروشلم،یروشلم کا اپنا مرکز ٹمپل آف ماؤنٹ یعنی حرم الشریف ہے، جس کا اپنا مرکزی مقام یہ صخرہ ہے یعنی ہمارا ماؤنٹ موریا ۔ یہ چٹان ایسی ہے کہ ہمارا بھی پختہ یقین ہے کہ یہ دنیا اور ماروائے دنیاکے درمیان ایک رابطہ ہے اور اس کا مرکز ایک سوراخ ہے جہاں سے تم کہتے ہو کہ تمہارے نبی آسمانوں کی معراج پر تشریف لے گئے تھے۔

اس سے پہلے کہ میں اس کے جملے کی گہرائی کو سمجھ پاتا ،وہ مجھ سے دعا کی درخواست کرتا ہوا تیزی سے اندھیرے میں کسی بھوت کی مانند کہیں غائب ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں میرا نیا نائب وسیم جو مریضوں کے معائنے میں میرا معاون تھا میرے پاس بھاگتا ہوا آیا اور بتانے لگا کہ نبیل انصاری آپ کا رات کے کھانے پر انتظار کررہے ہیں۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر