وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

جمعه 02 ستمبر 2016 دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


آخری طعام گاہ

آخری طعام گاہ


اپنی ایستادگی وسطی کی وجہ سے مجھے یہ بھی ادراک ہوا کہ حضرت شائم آمون بہت چہک رہے ہیں ، متجسس ہیں، مبتلائے حیرت ہیں۔ میں نے ان تمام جذبات بے جا کو اپنے اظہار مختصر کی پتلی نائلون کی ایک ہی رسی سے باندھنا مناسب سمجھا اور انہیں بتایا کہ میرا ایک یہودی مریض ہے۔ جو جاں بہ لب ہے،سفر سے قاصر ہے۔ وہ خواہشمند تھا کہ میں اس کا یہ تعویذ مطالبات بہ حضور الٰہی پیش کردوں۔

جس سرعت سے انہوں نے اپنی خدمات اس فریضہ گمنام کو انجام دینے کے لیے پیش کیں اس سے مجھے لگا کہ میں ان کی نظروں میں کچھ سرخرو سا ہوچلا ہوں۔وہ آہستگی سے دیوار کے سیدھے جانب وہاں موجود انبوہ گریہ کو کاٹ کر آگے بڑھتے رہے۔لکڑی کے اس برج پر سے جس سے غیر مسلموں کو اس احاطے میں آنے کی قطعی اجازت نہیں وہاں پہنچ کر انہوں نے مجھے اس دعائیہ رقعے کو رکھ دینے کی تجویزاس لیے دی کہ یہ حصہ اس معبد سلیمانی کے قریب ترین ہے جسے کم بخت رومی جرنیلوں نے تاراج کرڈالا تھا۔

اس قربت کی وجہ سے اس کی قبولیت کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے۔میں نے اس تجویز کو مناسب جانا ۔ ان کوتاہ قد یہودیوں میں اپنی پوٹھوہاری بلند قامتی کا لابھ لیا اور ایک دوسرے سے قدرے ناراض دو قدیم اینٹوں کے درمیانی فاصلے میں سفید کاغذ پر لکھا ،سرخ دھاگے سے بندھا ،وہ دعائیہ رقعہ اڑس دیا۔

میرا اپنا خیال تھا کہ میں ان سے تخصیص مقام کے حوالے سے ضرور پوچھوں گا مگر وہ میرا دماغ پہلے ہی ناپ کر بیٹھے تھے ،کہنے لگے کہ’’ وہ محاورہ تو سنا ہے نا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔اس محاورے کا تعلق اسی دیوار سے ہے‘‘۔انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور کمال محبت سے مجھے باہر احاطے کی طرف لے چلے۔ میں نے غور سے ان کا چہرہ دیکھا تو جانے کیوں مجھے اس بوڑھے چہرے میں ایک روحانی سرور کی کیفیت دکھائی دی۔ اس پر ایک ایسی چھلکن تھی جسے وہ سنبھال نہیں پارہے تھے کہنے لگے کہ ’’کچھ دل پتھر کے ہوتے ہیں اور کچھ پتھروں کا بھی دل ہوتا ہے‘‘،جب انہیں احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی بول رہے ہیں تو لجاجت سے کہنے لگے کہ میرا مت پوچھو ، اب بوڑھا ہوگیا ہوں۔ دیگر اشیا کی طرح جذبات بھی ٹھیک سے سنبھال نہیں پاتا ۔ مجھے یقین نہیں کہ پھر کبھی یہاں آنے کی مہلت ملے گی ۔ویسے بھی میرا یہاں آج آخری دن ہے۔میں لوٹ کے جارہا ہوں‘‘

مورخین کی تحقیق کی رو سے حضرت داؤد علیہ السلام شہرکے جنوب مشرق میں مدفون ہیں۔مورخ جوزیفس کے مطابق بادشاہ ہیرڈ نے ان کے مرقد عالیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ایک شعلہ سا لپک کر اس کے تعاقب میں دوڑ پڑا ، بمشکل پیچھا چھوٹا ۔

’’مجھے آپ کے جذبات کا پورا ادراک ہے گو میرے محسوسات کی شدت ان کی ہم رکاب نہیں‘‘ میں نے بھی انہیں اپنا شانۂ تسلی سونپ دیا۔وہ مزید خوش ہوئے تو مجھے حضرت داؤد علیہ السلام کے مزار عالیہ پر لے جانے کی پیشکش کر بیٹھے۔ یہ میرے لیے بونس تھا۔ہم اپنی یاترا کا اختتام وہیں پر کرتے ہیں۔ماؤنٹ زیون شہر کی دیوار حصار سے باہر کی جانب ہے۔ روایت ہے کہ عثمانی خلیفہ سلیمان عالی شان کے حکم پر دو انجینئر شہر کے ارد گرد دیوارِ حصار و حفاظت بنا رہے تھے ،وہ نادانی و نالائقی کی وجہ سے اس جبل صیہون( ماؤنٹ زائن ) کو دیوار سے باہر رکھ بیٹھے۔سلیمان عالی شان جب افتتاح کے لیے آیا تو اس قدرناراض ہوا کہ ان کا انجینئر صاحبا ن کا پروانۂ اموات جاری کردیا۔میں جب آمون شامون کے اس نو افراد کے قافلۂ حبشہ کے ساتھ چلا تو مجھے لگا کہ ان کے ساتھ قدم ملا کر چلنا کتنا مشکل ہے۔ سب ہی ایتھوپین مرد و زن پیدائشی ایتھلیٹ ہوتے ہیں۔

مورخین کی تحقیق کی رو سے حضرت داؤد علیہ السلام شہرکے جنوب مشرق میں مدفون ہیں۔مورخ جوزیفس بیان کرتا ہے کہ بادشاہ ہیرڈ نے ان کے مرقد عالیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں ایک عظیم گنجینۂ گوہر موجود ہے۔جب وہ حجرہ ٔتدفین میں داخل ہوا تو ایک شعلہ سا لپک کر اس کے تعاقب میں دوڑ پڑا ، بمشکل پیچھا چھوٹا تو سب کی ہمت ایسی ٹوٹی کہ کوئی اس مہم جوئی پر دوبارہ رضامند ہی نہ ہوا۔

حضرت داؤد علیہ السلام یہ ساز بجاتے تھے

حضرت داؤد علیہ السلام یہ ساز بجاتے تھے


حضرت عیسیٰؑ ابن مریم کے دنیا سے چلے جانے کے135 سال بعد یہاں’’ بغاوت بارخوخبا ‘‘ برپا ہوئی اور یہ مرقد عالیہ برباد ہوکر لُٹ گیا۔ہزار سال تک یہودی مورخین اور مفتیان دین اس کی کھوج کرتے رہے حتی کہ بینجمن ٹیو ڈیلا کو کہیں سے اچانک ماؤنٹ ذیون پر ایک چرچ کی مرمت کے دوران میں اس مرقد اکرام کا پتہ چل گیا اور بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے موجودہ مرقد کھڑا ہوگیا۔اس مرقد کے احاطے میں داخل ہوں تو پہلی نظر ایک سنہری مجسمے پر پڑتی ہے جوبربط(HARP) بجارہا ہے۔ مرقد میں داخل ہونے کا دروازہ تنگ ہے۔یہاں انگریزوں کے بنائے ہوئے ہمارے پرانے برجوں اور پیرس کی لور آرٹ گیلری کی طرح فوٹو کھینچنا سخت منع ہے ۔خلاف ورزی کرنے والے کو حوالہ ٔپولیس کردیا جاتا ہے۔پہلی منزل پر اب بھی اس بازنطینی چرچ کی کچھ باقیات موجود ہیں۔ اس کے چھوٹے سے کمرے میں حضرت داؤد علیہ السلام محو استراحت ہیں۔یہاں بھی مشتاقان دید اور عقیدت کا ایک انبوہ کثیر جمع تھا۔ہر طرف ہل ہل کر توریت پڑھی جارہی تھی ۔یہاں پہنچ کر شائم آمون اور ان کے قافلے عقیدت میں شامل افراد نے اپنے چوغوں سے اپنے اپنے توریت کے نسخے کھینچ نکالے اور جھوم جھوم کر یک زباں ہوکر ان کا ورد شروع کردیا۔

لیونارڈو ڈا ونچی کی "The Last Supper"

لیونارڈو ڈا ونچی کی “The Last Supper”


میرے مسلک کے حساب سے فاتحہ لازم اور وہاں کے مخاصمانہ ماحول کی وجہ سے یہ غیر معقول اصرار تھا۔وہاں چار سو قدامت پسند یہودی موجود تھے۔ہر کوئی ہاتھ اٹھا کر ہلا ہلا کر اپنی عقیدت کا اظہار کررہا تھا ۔میں نے بھی ہمت پکڑی اور فاتحہ کے لیے ہاتھ بلند کرلیے۔ میری رسم فاتحہ پر کسی نے کوئی کلمۂ اعتراض بلند نہ کیا تو میں نے شائم سرکار کے کان میں آہستگی سے کہا کہ میں باہر اس کمرے میں جہاں حضرت داؤد ؑ کا مقبرہ عالیہ ہے ،وہاں ان کا منتظر ہوں گا۔ایک بیان کے مطابق اس مقبرے سے متصل ایک کمرہ وہ بھی ہے ۔ جہاں حضرت عیسیؑ ابن مریم نے اپنا آخری طعام کھایا تھا۔انگریزی میں اسے Last Supper کہتے ہیں۔اسے مشہور بنانے والوں میں لینوارڈو ڈا ونچی کی اس نام کی شاہکار پینٹنگ بھی ہے۔خود ہمارے اپنے صادقین کی شہرت کا باعث پیرس میں ان کی بنائی ہوئی یہ پینٹنگ بنی۔ یہ سن پچاس کا آخری سال تھا۔شغال ،گوگاں اور پکاسو اور دیگر افراد نے بہت بھیانک تصاویر بنانے کا آغاز کردیا تھا۔ صادقین پر اس تحریک کا رنگ بہت غالب تھا۔ صادقین کی طعام آخر والی یہ تصویر خود حضرت عیسیؑ کے حواری دیکھ لیتے تو جو تلوار پیٹر نے رومی سپاہیوں کو گرفتاری کے وقت مارنے کے لیے اٹھائی تھی مگر جسے حضرت عیسیٰؑ کے اس مشہور عالم قول کے حوالے سے واپس داخل نیام کرلیا تھا کہ ” Smite not. For those who live by the sword , die by the sword”.

صادقین کی "The Last Supper"

صادقین کی “The Last Supper”


اس سے کم از کم صادقین کا سر ضرور قلم کردیتے۔اس کمرے میں جہاں تیرہ افراد کی یہ آخری دعوت طعام ہوئی تھی ،یہاں پانچویں صدی تک ایک چرچ ہوتا تھا اس کا نام صیہون مادر کلیسۂ کل’’ ” Zion Mother of all churches تھا۔ اسی زمانے میں اس کمرے کی شہرت آخری طعام گاہ کے طور پر ہوئی تھی۔یہ ایک خالی کمرہ ہے۔ دیواروں پر کشید کردہ تصاویر وقت کے ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی ہیں۔ یہاں چندتصاویر کھینچ کر میں باہر آگیا۔شائم اور ان کے رفقائے دین بھی چلے آئے ۔ انہیں ہوٹل اور ہوائی اڈے پہنچنے کی جلدی تھی۔شائم نے مجھے بہت گرم جوشی سے گلے لگایا پھر ملنے کے وعدے وعید ہوئے فون نمبر کا لین دین بھی ہوا۔میں نے وعدہ کیا کہ’’ میں ایتھوپیا کی قدیم بستی اکسم Axum دیکھنے آؤں گا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہودیوں کا گم شدہ تابوت سکینہ یہاں ایک کلیسہ میں موجود ہے۔اس کا مزہ تم سے اہل علم و سلوک کی رفاقت میں اور بھی آئے گا‘‘اس نے مجھ پر گہری نگاہ ڈالی اور کہنے لگا کہ تمہارے اندر جو ایک کھوجی سیاح چھپا ہوا ہے اسے قرار نہیں آئے گا۔

He gave me a deep look “I know you will come, the explorer historian like you” میں اگر زندہ ہوا تو تمہیں یہ سب حتی کہ وہ تابوت سکینہ بھی بہت ہی قریب سے دکھاؤں گا۔ یہ وعدہ ہے۔رات ہوٹل میں جو لمبی تان کر سویا تو فون کی گھنٹیوں نے نیند کو صور اسرافیل کی طرح برباد کردیا۔میری ہیلو سے پہلے ہی دوسری طرف سے گالم گلوچ اور لعن طعن کے وار پر وار ہونے لگے۔اگلی جانب سے میرے پاکستانی، ناقابل اعتبار ہونے سے لے کر خود پسند ، اپنی ذات میں انجمن ہر طرح کی شائستہ دشنام تھیں ۔ یاد نہیں آرہا تھا کہ دنیا میں اب ایسا کون سا انسان زندہ نہیں بچا جو مجھ سے اتنا بے تکلف ہو کہ نیند سے یوں جگائے۔میں نے تکلفاً پوچھ لیا کہ ’’حضرت اپنا تعارف تو کرائیں‘‘۔

میرے اس اصرار نے ان کے اشتعال میں مزید اضافہ کیا ۔میں وہ ہوں جو تمہاری کھال اتار کر تمہیں جنوبی افریقا میں مگر مچھ کے تالاب میں پھینک سکتا ہے۔میں تمہارا دوست احمق لانس ہوں‘‘

مجھے یاد آیا کہ لانس لاسرسن جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والاAnaesthetist, تھا۔ہم جوہانسبرگ میں کئی برس تک آپریشن کے دوران میں رفیق کار ہوتے تھے۔اس نے پانچ سال پہلے الیا Aliya” کیا تھا ۔ الیا( گھر واپسی)۔کیا لاجواب انسان تھا۔ دیانت تو اس کی ہڈیوں کے گودے میں سمائی تھی،محبت اس کے ہر عمل کا حصہ تھی اور قابلیت میں اپنی مثال آپ۔وہ ایک ہسپتال میں شعبہ بے ہوشی Anaesthesia کا سربراہ تھا۔ فون بند ہوا تو میرے دماغ میں وقت کا پہیہ اُلٹا گھومنے لگا۔ یاد آیا کہ آٹھ برس پہلے مجھے مملکت چاڈ میں تعینات اقوام متحدہ کے ادارے سے منسلک ایک ڈاکٹر صاحب کا فون آیا تھا۔وہ میرے پاس ایک پانچ سال کے بچے کو بغرض علاج بھیجنا چاہتے تھے ۔اس کی سانس کی Tracheaنالی ایک عجیب بیماری کی وجہ سے اب قریب قریب مکمل بند ہوچکی تھی۔اگر اسے مستقل طور پر وینٹی لیٹر سے جوڑے رکھو تو وہ زندہ رہ سکتا تھا ورنہ وہاں سے ہٹتے ہی مرنے کے قوی امکانات تھے۔بچے کو چاڈ سے جب میرے ہسپتال لایا گیا تو میرا اپنا حال بُرا تھا ۔کیونکہ میری معلومات اس بیماری کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر تھیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں دوستوں کو پیشہ ورانہ رہنمائی کے لیے فون کیا تو وہاں بھی ایک ٹھنڈی سانس سنائی دی۔ریسرچ اور لائبریریاں سبھی خاموش تھیں۔بچہ مسلمان گھرانے کا تھا اور چاڈ میں رہنے کی وجہ سے والدین انگریز ی سے نابلد۔

مجھے دیکھتے تو اللہ اللہ کی صدائیں بلند کرتے تھے ، رو رو کر دعائیں کر تے تھے۔یہ لڑکا ان کی چار بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔میرے لیے کسی اس کیس کو چھیڑنا جس کی مجھے معلومات ہی نہ ہوں ،پیشہ ورانہ آداب کی خلاف ورزی تھی مگر دوسری طرف انسانی جان کا مسئلہ تھا۔کئی دفعہ سوچا جی کڑا کرکے والدین کو جواب دے دوں کہ بچے کو واپس لے جائیں۔بالآخر میں نے ہمت پکڑی والدین کو اعتماد میں لیا اور ایک بے حد خطرناک طبی طریقۂ کار اختیار کرنے کا سوچا۔مجھے اس کے لیے ایک بے حد مضبوط اعصاب والے اور اتنے ہی قابل Anaesthetist کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر لانس کو طبی تفصیلات اور ضروریات سے آگاہ کیا تو تاؤ کھاگیا کہ میں پاگل تو نہیں ہوگیا۔مجھے جب اس نے بضد دیکھا اور والدین کو پر اعتماد تو میرا ساتھ خوش دلی سے دینے پر رضامند ہوگیا۔ہم نے اگلے دن ایک جانور کے دل سے وہ بڑی شہ رگ Aorta نکالی جو دل سے نکل کر باہر دماغ تک جاتی ہے۔اس کے ساتھ ضروری پیوند کاری کی تاکہ اسے انسانی جسم کے لیے قابل قبول بنادیا جائے۔ بچے کی اپنی سانس کی نالی نکال دی اور یہ نالی لگادی۔صرف آپریشن میں ہی گیارہ گھنٹے لگے۔اللہ کا شکر ہے اس آپریشن نے مجھے دنیا بھر میں بطور ایک ماہر سرجن کے شہرت بخشی۔اس میں شاید جہاں میرے اپنے والدین بچے کی ماں باپ کی دعاؤں کا کردار تھا وہیں ڈاکٹر لانس کی اس دن میرے ساتھ لمحہ بہ لمحہ موجودگی اور مدد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جس دن بچہ ہسپتا ل سے اپنے پیروں پر گھر جارہا تھا تو سارا ہسپتال اظہار تشکر سے اشک بار تھا۔ اللہ اسے ہر بیماری اوربلا سے محفوظ رکھے۔ وہ ان دنوں تیرہ سال کا گبرو شہزادہ ہے۔لانس کو میری موجودگی کی اطلاع ڈاکٹر کلور لی نے دی تھی۔ اسے تمہارے ہوٹل کا نام یاد تھا، لہذا تمہیں تلاش کرنا کچھ ایسا مشکل ثابت نہ ہوا۔ آپ کو تو یاد ہوگا کہ یہ کلور لی وہی نیک دل بی بی ہے جس کا ہم نے اپنی دوسری قسط میں تذکرہ کیا تھا۔ اس بے چاری کا پاکستانیوں نے فیس بک پر ناک میں میں دم کردیا ہے۔ مدتوں کی شادی شدہ ، ازدواجی طور پر آسودہ ، دنیا میں اپنے پیشے میں نامور افراد اور اپنے دین سے خوش اس خاتون کو کوئی اپنی بیوی بنانا چاہتا ہے تو کوئی مسلمان کرنا چاہتا ہے تو کوئی مرد ہشیار و بے کار اس سے اسرائیل میں پاکستانیوں کے لیے ملازمت کے مواقع تلاش کرنے کی فرمائش کرتا ہے۔

ہم سب آج سات بجے شام جمع ہوں گے۔میں نے تل ابیب کے بہترین ڈاکٹروں کو ہمارے بہترین ہوٹل میں تم سے ملانے کے لیے ڈنر پر بلایا ہے۔ سات بجے شام میں تمہیں لینے ہوٹل آجاؤں گا۔تیار رہنا۔یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات تھی۔اسرائیل میں اس وقت دنیا بھر کے بہترین ڈاکٹر جمع ہیں۔میرے لیے پرانے ساتھیوں سے بھی ملنے کا موقع تھا اور ان میں سے اکثر وہ تھے جو کہیں نہ کہیں میرے ساتھ کانفرنسوں وغیرہ میں شریک رہے تھے۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر