وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30

منگل 30 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


جبل صیہون

جبل صیہون


راجہ ممریز کے ہاں سے واپسی پر میرے ذہن میں تقدیر سے متعلق بہت سے سوالات منڈلاتے رہے۔میں ان کی زندگی کو لمحوں کی ایک ایسی خطا سمجھتا ہوں جس کی سزا صدیوں کو ملی۔عبدالقادر بھی غیر محسوس طریقے پر تمام مسافت کے دوران میں چپ تھا۔اسے ممکن ہے راجہ ممریزکے بارے میں کچھ کچھ معلوم ہو مگر وہ ان کے پنڈی کے پس منظر اور پنجاب کے عظیم شاعر وارث شا ہ کے بقول ’’د کھ درد وچھوڑے عمراں دے عاشقاں صادقاں دی تقدیر ہووے ـ‘‘کا کوئی درد اور ادراک نہ رکھتا تھا۔اس کی سرخ آنکھوں کے بارے میں میرے سوال پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رات بھر تاش کھیلتا رہا ہے ۔

یروشلم پہنچ کر اس نے مجھے ہوٹل اُتارا اور خود اپنی نیند کی کمی پوری کرنے گھر چل دیا۔ہوٹل کی لابی میں مجھے دیکھ کر منیجر رفیق صاحب اپنی سیٹ سے اچھل پڑے اور بھاگ کر میری طرف آئے ۔ میری سلامتی کی انہیں فکر تھی۔یہ تفکر ان کے چہرے پر بھی عیاں تھا اور تواتر سے پوچھے گئے سوالات میں بھی ۔میں نے انہیں جب حلحول میں اپنے قیام شب کا بتایا تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔اُن کا اصرار تھا کہ ایسی کوئی نوبت آئے تو میں انہیں ضرور بتاؤں۔اُن کا خیال تھا کہ میں بے رحم موساد کے ہاتھ لگ گیا ہوں۔وہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل میں سنگ دل قانون تو بہت ہے مگر حقوق نہیں۔ان کے ہاتھ لگ جاؤ تو زندہ برآمد ہونا مشکل ہے۔ان کے چہرے پر تفکرات اور ان کے جذبات میں امڈتی سچائی دیکھ کر مجھے معافی مانگنے میں اور جلدی سے کمرے کا رخ اختیار کرنے میں ہی عافیت دکھائی دی۔شاور لے کر کپڑے تبدیل کرکے میں جب ٹیرس پر آیا تو دن ابھی اپنے شباب پر تھا۔میرا دل نہ چاہا کہ میں یہ عرصہ اس کمرے میں گزار کر وقت ضائع کروں اُنہیں لمحات میں مجھ پر یہ کوتاہی عیاں ہوئی کہ میں نے یہاں کی اہم ترین عمارت دیوار گریہ تو ابھی تک نہیں دیکھی۔یہ سوچنا تھا اور اگلے دس منٹ میں خاکسار یروشلم مکی سڑکوں پر موجود تھا۔ دیگر شہروں کی نسبت یروشلم میں ایک اپنائیت ہے۔میں اس کا نفسیاتی تجزیہ کروں تو اس کے عوامل میں فلسطینیوں کی خود داری،دلبری، مجبوری،مظلومیت کے ساتھ ساتھ اس شہر کی وقت کے ساتھ مسلسل ہم آغوشی اور تاریخی بہاؤ کا بھی بہت ہاتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے یہاں کے لوگوں سے ایک فطری میلان محسوس ہوتا ہے۔۔یروشلم نے مجھے دوست کے گلی محلے اور بیٹھک کی مانند اپنا لیا ہے۔ یوں تو ہر شہر کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔آپ کی طبیعت کے سُر اس شہر کے مزاج سے مل جائیں تو یہ احساس یگانگی محسوس ہوتا ہے۔

بس ہماری دعا نہیں سنتا

بس ہماری دعا نہیں سنتا


مجھے اور میرے دوست اقبال دیوان کو نیویارک کی جدیدیت ، دولت اور امارت میں ایک شور اور آپ کو دبوچ لینے والی خصلت کا احساس ہوتاہے۔ لندن بہت گستاخ اور نسل پرست ہے اور برسلز کا ذائقہ بیمارکے سوپ جیساہے ۔ان سب سے ہٹ کر یروشلم ایسا ہے کہ جیسے لڑ کی میکے میں آگئی ہو یا بھٹکا ہوا داد محمد یونان سے خجل خوار ہونے کے بعد واپس پنڈ دادن خان آگیا ہو۔یہاں تکلف برطرف ہے۔

مسجد اقصیٰ کے محافظ تھوڑے اور جذبۂ ایمانی سے لیس ہیں۔ مگردیوار گریہ کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے احاطے میں داخل ہونا ایسا ہے گویا آ پ سندھ یا پنجاب پولیس کے آئی جی صاحب کے دفتر یا نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہورہے ہیں ۔جا بجا فوجی ، ہر طرف دھاتی کھوجی(metal detectors)

ایسا لگتا ہے کہ اس کی ہواوں کا ہر جھونکا آپ کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔آج اس کی تنگ گلیوں سے گزرا تو اس میں ایک عجب سی اپنائیت کا احساس ہوا۔میں نے اس کی تین بڑی نشانیاں ازبر کرلی ہیں۔ یہ تینوں حیرت ناک طور پر مذہبی عمارات ہیں۔ایک تو ہماری اپنی مسجد اقصیٰ ہے دوسرا کلیسہ آلام ہے اور تیسری وہ آہوں سے تپتی ہوئی اوراشک ہائے عصیاں سے تر دیوار گریہ۔یہ ایک دوسرے کی ضد میں سب کی سب ایک کلو میٹر کے دائرے میں گھسی ہوئی ہیں۔شہر والوں نے سوچا ہے کہ اہل عقیدت خود ہی تقدیس کے شیرے میں لتھڑے اور اپنے جنون کی راستی پر مُصرانہیں ڈھونڈ لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نشاندہی کے لیے کوئی بورڈ کہیں نصب نہیں۔قربتوں میں دوری کا یہی ادراک بے پایاں ہے جو میرے سفر نامے کا عنوان بنا ہے۔میں نے بھی قانون کی مناسبت سے جس میں ایک اصطلاح ADVERSE POSSESSION طویل جبری قبضہ استعمال ہوتی ہے جسے مناسب قانونی اہلیت نہ ہونے پر عدالت بادل ناخواستہ قابض کے حق کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ یہ قبضہ سر دست مملکت اسرائیل کا ہے۔ اہل یہود کو اپنے اصل دشمن عیسائی اتنے بُرے نہیں لگتے جنہوں نے ان کی بستیاں تاراج کردی تھیں۔ قیمتی خزانے لوٹ لیے تھے۔ ان کا داخلہ یروشلم میں مدتوں ممنوع قرار د ے رکھا تھا ،کیوں کہ وہ تو وطن چھوڑ کر یورپ ،آسٹریلیا ، کینیڈا اور امریکابھاگ رہے ہیں مگر فلسطینی اور عرب مسلمان ان کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے اسے اپنا مرکزی نقطۂ حوالہ بنایا ہے۔

اس ایک کلومیٹر میں پتھریلی ، بل کھاتی اوپر نیچے ہوتی گلیوں کا جو جال ہے وہ ایک عام سیاح کے لیے بہت اُلجھاؤ کا باعث ہوسکتا ہے مگر ایک دفعہ محلِ وقوع سے آشنائی ہوجائے تو کھیل بچوں کا ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں کیسے ؟دمشق گیٹ سے آپ سیدھے چلتے چلے آئیں تو ایک سہ راہا آجاتا ہے۔دھیان رکھیں یہ پہلا سہ راہا ہے۔بائیں جانب مڑجائیں تو مسجد اقصیٰ آجاتی ہے۔دائیں ہاتھ کا مڑنا آپ کو کلیسۂ آلام تک لے جائے گا اور سیدھے چلتے جائیں تو دیوار گریہ آپ کا راستہ روک لے گی۔

کلیسۂ آلام Church of Sepulchre کے ارد گرد حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مسجد اقصیٰ کے محافظ تھوڑے اور جذبۂ ایمانی سے لیس ہیں۔ مگردیوار گریہ کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے احاطے میں داخل ہونا ایسا ہے گویا آ پ سندھ یا پنجاب پولیس کے آئی جی صاحب کے دفتر یا نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہورہے ہیں ۔جا بجا فوجی ، ہر طرف دھاتی کھوجی(metal detectors)۔سادہ لباس، رنگیں ادا غنچہ دہن ،شیریں سخن خفیہ پولیس کی Kerv Maga میں سیکھی سکھائی سیاح نما حلف یافتہ کارکنان بقول چچا غالب ع اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

آزمائش اور احتیاط کے ان سب مراحل سے گزر کر میں ایک بڑے سے احاطے میں آن پہنچا۔اس احاطے کے سامنے سیدھے ہاتھ کی جانب یروشلم کے یہود کا علاقہ ہے اور بائیں جانب دیوار گریہ۔یہاں سیاحوں کے درمیان اسرائیلی خفیہ پولیس کے اہل کار یوں گھل مل گئے تھے جیسا ہماری طرف کی عورتوں کی آنکھ میں کاجل۔بہ لباس درست فوجی ان کے علاوہ تھے۔

دیوار گریہ کی زیارت پر کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں لیکن ہفتے والے دن جو اہل یہود کا یوم السبت ہے، اس دن صرف یہود ہی یہاں آسکتے ہیں۔ مشتاقان دید کے لیے ستر پوشی کی شرط البتہ ہمارے مدرسوں والی ہے۔ٹی شرٹ اور نیکروں میں مرد اور عورتیں دونوں ہی نہیں آسکتے ،عورتیں ٹخنوں کے اوپر والے اسکرٹ پہن کر نہیں آسکتی ہیں۔آدھی آستین مرد کی ہو یا عورت کی ، دونوں پر پابندی ہے۔سر ڈھانپنا دونوں کے لیے لازم ہے۔

دعا کی عرضیاں

دعا کی عرضیاں


سعودی عرب اور ایران کی طرح ان کے شرطے (مذہبی پولیس ) بھی بہت سنگ دل اور حجت ناآشنا ہیں۔وہ تو بھاولپور کے آموں پر قربان جائیے کہ پاکستان میں بچت ہوگئی اور بقول اس وقت صدر بننے والے غلام اسحق خان کے جنرل صاحب کا جہاز ہوا میں ’’پٹ ‘‘گیا۔ ورنہ بقول قیوم نظر

تم چلے جاؤگے رہ جائیں گے سائے باقی
رات بھر ان سے میرا خون خرابہ ہوگا

ان کے شرطوں میں ایک یہ زمین بھی نئی نکلی ہے کہ ان مذہبی پولیس والوں میں چاق و چوبند خواتین بھی حفاظت دین یہود کے لیے بھرتی کی گئی ہیں۔مجال ہے ان کی دید بانی اور دیدہ دلیری سے کوئی بچ کر اپنی مرضی کا لباس پہن کر یہاں آجائے۔بحث کی ان کے پاس بھی گنجائش نہیں۔لباس درست نہیں تو دید کا یارا بھی نہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں تو پولیس کے جو اسپیشل یونٹوں میں چن چن کر تیری میری بیبیاں بھرتی کی گئی ہیں وہ نقلی برانڈز کے پرس اور چشمے لگا کر اصلی ہتھیاروں سے سیاست دانوں کے اپنے جیسے بیٹوں کی حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے ۔ ان کے محافظین خصوصی کی پوسٹنگ اگر یہاں دیوار گریہ پرہوتی اور ان کی ڈیوٹی کے دوران میں یہودی عقیدے کے مطابق دیوار کے اس پار سے کانا دجال آکر دنیا کو تہس نہس کردیتا تو اپنے سیاسی تعلقات کے نشے میں سرشار ان پولیس والیوں کو اس کی آمد کی اطلاع بھی سما ٹی وی کے خبر نامے سے ملتی۔

ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں

ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں


اہل یہود کے ہاں دیوار گریہ سب سے مقدس مقام تصور کیا جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی آمد سے ایک ہزار سال پہلے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔اسے بابل کے بادشاہ نے تعمیر کے 586 سال بعد برباد کردیا، ستر سال بعد یہودی کچھ آسودہ حال ہوئے تو پھر سے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کا آغاز ہوا۔یہاں ان کے بادشاہ ہیرڈ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی آمد سے انیس برس قبل بہت توسیع اور ترقی کا کام کیا۔اس کے بعد روم کے بادشاہوں کی جانب سے ایک اور عذاب نازل ہوا اور اس کو لوٹ کر تاراج کردیا گیا۔ان کا تابوت سکینہ بھی اسی دوران غائب ہوگیا۔موجودہ دیوار چونکہ اس احاطے کی بیرونی دیوار تھی، لہذا اسے درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا۔یہودیوں کے لیے وہ اس ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی ہونے کی وجہ سے مقدس ترین مقام بنی ہوئی ہے۔


جب رومی یہاں حکمران بن گئے اور بعد میں یہ حکمران لادینیت چھوڑ کر عیسائیت کو اپنا بیٹھے تو انہوں نے یہودیوں پر بہت سختیاں کیں،یروشلم سے انہیں نکال باہر کردیا گیا۔ انہیں اس شہر میں سال بھر میں صرف ایک دفعہ آنے کی اجازت ملتی تھی۔اس محرومی پر یہودی بہت دل گرفتہ و گریہ ہوتے تھے۔ سال میں ایک دفعہ یہاں آتے تو دیوار کو لپٹ کر روتے تھے۔ عیسائی حاکمین اور ان سے وابستہ افراد کے لیے یہ بہت قابل تمسخر و تضحیک موقع بن جاتا۔انہوں نے ہی اس دیوار کو دیوار گریہ کا نام عطا کیا۔ خود یہودی اسے دیوارِ گریہ نہیں کہتے۔وہ اسے اپنی عبرانی زبان میں ’’ کوتل ‘‘ مغربی دیوار کا نام دیتے ہیں۔اس کی دراڑوں میں وہ اپنی دعائیں اور تحریری مطالبات اور منتیں اڑس دیتے ہیں۔یہ اب ایک اچھا خاصا بین الاقوامی کاروبار ہے۔وہ یہودی جو یہاں پہنچ نہ پائیں وہ ای میل کے ذریعے یہ دعائیں اور منتیں بھجوادیتے ہیں جو ان کی جانب سے یہاں اڑس دی جاتی ہیں۔میری تحویل میں بھی میرے ایک یہودی کرم فرما کی دی ہوئی ایک ایسی ہی منت ہے۔مجھے اسے کسی مناسب مقام پر ٹھونسنا ہے۔

جب میں ایسے ایک مقام کے قریب رکاوٹیں عبور کرکے پہنچا تو آہ و بکا اور عزا داری کا ایک عجب منظر تھا ، توریت کا باآواز بلند ورد جاری تھا۔اسی تگ و دو میں مجھے ایتھوپیا والے حضرت شائم آمون دکھائی دے گئے۔وہ بھی دیوار سے لپٹے ہوئے تھے۔ میں بہت خاموشی اور احترام سے ان کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔وہ اپنا سیاہ چہرہ دیوار کی جانب کیے دیوانہ وار کبھی آگے ہوتے تو کبھی پیچھے۔اِنہی حرکات میں ذرا توقف ہوا تو ان کا چہرہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھا۔ لمحے بھر کا توقف کیے بغیر انہوں نے با آواز بلند میری مذہبی رواداری، کشادہ دلی اور وسیع المشربی پر مسرت کا بے پایاں و بے حساب اظہار کیا ۔ وہ جتانے لگے کہ قدامت پسندمسلمان یہاں نفرت کے مارے نہیں آتے اور روشن خیال ڈر کے مارے۔ سو میں ان کے اپنے اندازے اور بیانیے کی رو سے کہیں درمیان میں بے خانماں حیرت و حسرت کا مارا، برباد کھڑا ہوں ساحل پہ۔(جاری ہے)

ہو حلقہؑ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

ہو حلقہؑ یاراں تو بریشم کی طرح نرم


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر