وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

منگل 09 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


اپنے گھر میں آمد

اپنے گھر میں آمد


شہدا ء اسٹریٹ کے اختتام پر ایک سیمنٹ بلاک کی اوٹ میں مجھے گول متھلو سا غسان دکھائی دے گیا۔ چلتے وقت الخلیل کے ایچ ون علاقے میں اس کا تعارف مجھے بہت تفصیل سے کرادیا گیا تھا۔ غسان میاں چالاک تھے۔ ایسے چالاک جو ذہانت بہت سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ مجھے بھی انہوں نے دور سے پہچان کر بہت سرعت سے پتلی گلی پکڑی۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ ع

ملنا جلنا جہاں ضروری ہو
ملنے جلنے کا حوصلہ رکھنا

میں بھی بہت آرام سے ٹہلتا ہوا اُس گلی میں چلا گیا۔ وہ لاتعلقی سے تیز تیز آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسی جگہ آگئے جہاں کسی چھاپے کی صورت میں فرار کے بہت سے راستے تھے۔ میرے نزدیک آنے پر ایسے لپٹ گئے جیسے جنم جنم کی ملاقات ہو۔ چند سو میٹر کی یہ پھرتی اس کی سانسوں کو بھاری پڑی تھی۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا، شاید خوف بھی تھا۔ گلے ملنے اور سانسوں کے بحال ہونے تک حضرت نے ملاقات کی اس بے ضابطگی کا احوال اس وضاحت سے دیا کہ وہاں ملتے تو اسرائیلی فوجی اسے گرفتار کرلیتے اور مجھے شامل تفتیش کرکے ہراساں کرتے۔ چندگلیاں چھوڑ کر جب ان کا محلہ اور گھر آگیاتومجھے لگا کہ یہ تو وہی شہدا اسٹریٹ کا پچھواڑہ ہے۔ یہ درست تھا کیوں کہ اس کا مرکزی دروازہ بھی دیگر گھروں کی مانند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیل کردیا گیا۔ داخلے کی اجازت عقبی دروازے سے تھی۔ اس میں کسی قسم کوئی رو رعایت نہ تھی۔

اسی دوران میں مجھے پانچ اسرائیلی فوجیوں نے گھیر لیا۔ ان کی بندوق کی نالیوں کا رخ میرے سر اور سینے پر تھا۔ وہ عبرانی زبان میں چیخ رہے تھے۔ ان کی گرفت سے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے ان رسوائے زمانہ فوجیوں نے حراست میں لے لیا ہے۔ میں نے اطمینان اور سکون سے ہاتھ اوپر کرلیے اور انہیں آہستگی سے بتلایا کہ میں تو سیاح ہوں۔

وہ مجھے لے کر چھت پر چلاگیا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ نارمل زندگی کسے کہتے ہیں، اس کا ہمیں تو اب ادراک اور ذائقہ بھی نہیں رہا۔ ہمارا ہر گھر بیت الآم ہے۔ ماتم کدہ رفتگاں و شھیدان وطن ہے۔ شاید ہی کوئی فلسطینی گھر ایسا ہو جس کی میز پر کسی شہید کی تصویر نہ ہو۔ کوئی ماں بہن بیٹی ایسی نہیں جس کی آنکھ اپنے بیٹے بھائی یا باپ لیے اشکبار نہ ہو۔ ہم ایسے مجبور ہیں جو شہادت کے منتظر ہیں۔ اس چھت سے بائیں جانب وہ جو گھر ہے وہ اُم حبیبہ کا ہے۔ ان یہودی پناہ گیر آباد کاروں نے اس کے میاں اور دو نوجوان بیٹوں کو مارڈالا۔ یہ قاسم کا گھر ہے۔ اس نے ایسے ہی کسی گھر کی جانب اشارہ کیا، قاسم نابینا اور جھلسا ہوا ہے۔ اس کے چہرے پر کسی یہودی نے تیزاب پھینک دیا تھا۔ میں گھر کی جانب کیا دیکھتا۔ میری آنکھیں دُھندلا چکی تھیں۔ کانوں میں سناٹے گونج رہے تھے اور ذہن ماؤف ہوچکا تھا۔ میں خود کو کوس رہا تھا کہ اس بستی کرب و بلا میں آنے کا فیصلہ میں نے آخر کیوں کیا۔ ساری دنیا انہیں نظر انداز کیے بیٹھی ہے۔ انہیں مرنے دو۔ میں بھی ایسا کرلیتا۔

کسی دن ان کا تہوار ہوتا ہے تو یہ بہانے سے ہماری بستی میں آجاتے ہیں، اس قدر بے ہودگی اور ظلم کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔ ہم اقوام متحدہ کے فوجیوں کو درخواست کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر وہ آجایا کریں۔ ہمارے بچے بھی اب انہیں مبصرین کی نگرانی میں اسکول جاسکتے ہیں، تنہا نہیں۔

’’تمہارے بچے ہیں ڈاکٹر صاحب‘‘ مجھے لگاکہ وہ یہ سوال شاید مجھے ڈی اسٹریس کرنے کے لیے پوچھ رہاہے۔ میں نے بھی اپنی نارمل حالات میں لوٹنا مناسب سمجھا ’’ جی۔ دو‘‘

’’آپ یقینا اُن سے پیار بھی بہت کرتے ہوں گے‘‘۔ غسان نے اپنا بیان جاری رکھا۔ مجھے لگا کہ میں تو اسی خارزار میں بھٹک رہا ہوں

جی ہاں دنیا میں وہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔ میں نے بھی زندگی کی اس بڑی حقیقت کا اظہار ایک ایسی کیفیت میں کیاجس کی بے یقینی سے ان لمحات کی تلخی کے حوالے سے صرف میں ہی واقف ہوں۔

جدوجہد آزادی

جدوجہد آزادی


اُن کی آواز اب ڈوب چلی تھی۔ ایسا لہجہ ہوچلا تھا جو یا تو بہت پیار میں ڈوبی گھڑیوں کا ہوتا ہے یا ان کڑواہٹوں کو جو آپ کی صوتی رگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا ان سے پیار کرنا مت چھوڑیے گا۔ ہمارے بچوں کی زندگی کی سب بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شہدا اسٹریٹ پر کھیلیں کودیں دوڑیں بھاگیں۔ وہ ہماری لاکھ احتیاط اور ممانعت کے باوجود ایسا کرتے بھی ہیں۔ انہیں موت کی مستقل مزاجی کا علم نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موت REVERSIBLE PHENOMENONہے۔ سارا دکھ تو زندہ رہ جانے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اس کو آزادی اور بغاوت سمجھ کر نکل جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک موت کا ہاتھ تھام کر اس سڑک پرنکلنا ہی زندگی ہے۔ یہی آزادی ہے، بے حیثیت ہی سہی مگر اختیار تو اپنا ہے۔

میں نے گفتگو کا یہ الم انگیز بیانیہ حل اور تجزیے کی جانب موڑ دیا۔ آپ تو بہت عمدہ موٹر مکینک ہیں۔ یہ جگہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ایچ ون یا کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے۔ ہمارے دشمن، یہ گھس بیٹھیے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی ان حرکات سے زچ ہوکر علاقہ چھوڑ دیں۔ ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ ہمارا یقین ہے کہ ہم نہ سہی ہمارے دوسری تیسری چوتھی نسل اس سرزمین پر ایک دفعہ پھر آزادی کا سانس لے گی۔ اب اس کی آواز میں توانائی اور اعتماد تھا۔ ہر ظلم کو ایک دن مٹ جانا ہے۔ ہر ظالم کو برباد ہوجاناہے۔

ہم وہاں سے نکل کر ایک گھنٹے تک عرب علاقوں میں گھومتے رہے۔ یہاں ہر جانب غربت عیاں تھی۔ ان کے غریبوں میں اور ہمارے غریبوں میں دو بڑے واضح فرق ہیں۔ اجتماعی شعور، اور بے پناہ صفائی۔ ان کی خواتین، ان کے لباس سے غربت اور لمحات اندوہ کرب میں بھی پاکیزگی اور رکھ رکھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ وہاں جن سے بھی بات ہوئی ہر گھر سے وابستہ ایک داستان الم کے پیچھے اعتماد اور امید تھی۔ یہ بڑے غازی اور مجاہد لوگ ہیں، میں جب ایچ ون کی طرف واپس آرہا تھا تو اندر سے بہت کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ بہت سے سوال تھے جن کا میرے پاس اپنی زندگی کے حوالے سے اور ان کی زندگی کے حوالے سے کوئی جواب نہ تھا۔ آپ ٹی وی پر جو مناظر دیکھتے ہیں ان کے ساتھ گھر کا ایک احساس تحفظ وابستہ ہوتا ہے، ان جگہوں کو جب حقیقت میں وہاں جاکر دیکھتے ہیں تو آپ پر سچ کا بوجھ سنگِ گراں کی مانند آن پڑتا ہے۔

غسان کہہ رہا تھا اپنے بچوں سے پیار کرنا مت چھوڑیے گا۔ ہمارے بچوں کی زندگی کی سب بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شہدا اسٹریٹ پر کھیلیں کودیں دوڑیں بھاگیں۔ وہ ہماری لاکھ احتیاط اور ممانعت کے باوجود ایسا کرتے بھی ہیں۔ انہیں موت کی مستقل مزاجی کا علم نہیں۔

ایچ ون کے علاقے میں میری واپسی تک دوپہر ہوچکی تھی اور عبدالقادر میرا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے یہ نہ پوچھا کہ وہاں میں نے کیا دیکھا یا میرے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ ایسا لگتا تھا میرا احوال میرے چہرے پر درج تھا جو اس نے بہت خاموشی سے پڑھ لیا ہے۔ میں نے صلوۃ الجمعہ کا قصد کیا۔ اس مقصد کے لیے ہم آہستہ آہستہ حرم ابراہیمی کی جانب بڑھنے لگے۔ اسے یہودی Cave of Patriarchs, یعنی غار بزرگاں بھی کہتے ہیں۔ راستے میں تین ملٹری چیک پوسٹ آئیں۔ تیسری چیک پوسٹ سے گزر کر ہم ایک پختہ احاطے میں داخل ہوگئے۔ اس احاطے میں بائیں جانب نصب turnstiles سے گزر کر فلسطینی داخل ہوسکتے ہیں۔ انہیں یہاں سنگل قطار میں کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ ہر فرد واحد کو اسرائیلی فوجی اچھی طرح سے کھنگالتے ہیں۔ مکمل جامہ تلاشی کے بعد انہیں مسجد میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ قادر کو چونکہ وضو کرنے کے لیے جانا تھا۔ لہذا وہ مجھے اس ہدایت کے ساتھ کہ میں اس کے واپس آنے تلک اسی جگہ اس کا انتظار کروں، چھوڑ کر چلا گیا۔ مجھے خیال آیا کہ یوں ہی بے کار اس کی راہ تکنے سے تو بہتر ہے کہ میں ایک آدھ تصویر اس مقام کی کھینچ لوں۔ میں نے قطار مجبوری میں کھڑے عربوں اور اس چیک پوسٹ کی تصویر کھینچ لی۔ جیسے ہی میرا ارادہ دوسری تصویر کھینچنے کا تھا مجھے چار سو ایک یلغار سنائی دی۔ اسی دوران میں مجھے پانچ اسرائیلی فوجیوں نے گھیر لیا۔ ان کی بندوق کی نالیوں کا رخ میرے سر اور سینے پر تھا۔ وہ عبرانی زبان میں چیخ رہے تھے۔ ان کی گرفت سے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے ان رسوائے زمانہ فوجیوں نے حراست میں لے لیا ہے۔ میں نے اطمینان اور سکون سے ہاتھ اوپر کرلیے اور انہیں آہستگی سے بتلایا کہ میں تو سیاح ہوں۔ میرا پاسپورٹ بھی میرے داہنے ہاتھ میں تھا۔ ایک فوجی نے میرا پاسپورٹ جھٹ سے چھین کر اس کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ اس دوران اس کی نگاہیں گاہے بہ گاہے پاسپورٹ سے اٹھ کر میرے چہرے پر مرکوز ہوجاتیں۔ یہاں کیسے آئے ؟ اس نے قدرے درشتگی سے پوچھا۔ ’’بذریعہ ٹیکسی ‘‘ میں نے جواباً وضاحت کی۔ ڈرائیور کہاں ہے؟ اس نے اگلا سوال داغا مگر اس کا لہجہ اب قدرے نرم تھا۔ میری نگاہ سامنے سے آتے ہوئے عبدالقادر پر پڑی تو یک گونہ اطمینان سا ہوا، مجھے یقین تھا کہ مقامی باشندہ ہونے اور اس طرح کے حالات کا مسلسل سامنا کرنے سے وہ بخوبی واقف ہوگا۔ جیسے ہی انہوں نے قادر کو دیکھا وہ اس پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ اور گریبان قابو کرکے اس کا سر ایک دیوار سے لگا دیا۔ یہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا کہ ایک بوڑھا ڈرائیور میری وجہ سے اس عتاب بے جا کا نشانا بنے۔ میرا خون کھول گیا۔ میں ان کے اور عبدالقادر کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ جس پر عبدالقادر نے چیخ کر مجھے ایک جانب ہٹ جانے کو کہا وہ کہہ رہا تھاDoc go away, stay away, I will handle it۔ میں نے بھی انہیں تقریباً چیخ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر یہ کوئی جرم ہے تو میرا ہے وہ بے چارہ تو وہاں موجود بھی نہ تھا۔ جو معاملہ ہے مجھ سے کریں۔

شہدا اسٹریٹ کی بندش کے خلاف مظاہرہ

شہدا اسٹریٹ کی بندش کے خلاف مظاہرہ


عبدالقادر بے چارہ مریض قلب ہونے کی وجہ سے بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ لائن میں کھڑے دیگر نمازیوں میں جو یہ سارا واقعہ دیکھ رہے تھے ایک بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی وہاں سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگی اور ایک ہنگامہ پھوٹ پڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ میری نگاہ اس دوران اقوام متحدہ کے دو مبصرین پر پڑی جو غار بزرگاں Cave of Patriarchs کی ڈھلوان پر کچھ فاصلے پر کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں نے جست بھری اور ان کے پاس جاپہنچا۔ ان دو مبصرین میں ایک تو ڈنمارک کی خاتون تھی اور دوسرے صاحب کا تعلق جنوبی افریقا کے شہر کیپ ٹاؤن سے تھا۔ میں نے انہیں جلدی جلدی اپنی بپتا سنائی۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں مجھے ساتھ لے کر تقریباً بھاگتے ہوئے ان اسرائیلی فوجیوں کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھے۔ موقع کی نزاکت بھانپ کر اسرائیلی فوجی ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ ایک نے ذرا فاصلے سے انہیں بتایا کہ میں ممنوع علاقے میں تصاویر لے رہا تھا۔ میں چونکہ ایک سیاح ہوں لہذایہ ڈرائیور کی ذمہ داری ہے کہ مجھے وہ ان تمام مضمرات سے پہلے ہی آگاہ کرتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ قادر تو وضو کرنے گیا تھا اور ایک تاریخی اور سیاحتی اہمیت کی جگہ ہونے کے ناطے تصاویر لینے کا فیصلہ خالصتاً میرا محرکاتی عمل تھا۔ میرا ہم وطن جو واضح طور پر میرے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے تجویز پیش کی کہ فوجی میرا آئی فون دیکھ لیں اور وہ دو تصاویر جو میں نے اس احاطے میں کھینچی ہیں۔ اُنہیں ڈیلیٹ کردیں۔ انہیں بھی یہ تجویز بھلی لگی۔ اس پر فی الفور عمل بھی ہوگیا اور انہوں نے ہم دونوں کو مسجد میں صلوۃ الجمعہ کے لیے جانے دیا۔

مسجد کی راہداری تک پہنچتے پہنچتے قادر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے مجھے کہا کہ میں تو ایک مجاہد ہوں۔ میں نے اسے کہا کہ میرا تعلق پاکستان کے علاقے پو ٹھوہارسے ہے۔ ہمیں ویسے بھی غیر ضروری جنگوں کی بہت عادت ہے۔ ہٹلر نے جب ہمارے سپاہیوں کو اتحادیوں کے لیے جان لٹاتے دیکھا تو اس نے جنرل رومیل کو کہا کہ اگر مجھے انگلش ٹینک اور پوٹھوہاری سپاہی مل جائیں تو دنیا فتح کرنا اتنا مشکل کام نہیں۔

مجھے لگا عبدالقادر کو ہٹلر کی حکمت عملی پسند آئی اور ہم مسکراتے ہوئے حرم ابراہیمی میں واقع صلوۃ ہال میں داخل ہوگئے۔

(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر