وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

جمعرات 04 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


شاہراہ نسلی منافرت پر خوش آمدید


آپ کو یاد ہوگا کہ میں وہاں الخلیل میں عبدالقادر کے رشتہ دار تاجروں سے ایچ ٹو ایریا میں جانے کی ضد کررہا تھا اور وہ مجھے روک رہے تھے کہ وہ بہت شورش زدہ علاقہ ہے۔ وہاں کے یہودی شیطان کا دوسرا جنم ہیں۔ وہاں جانے کی کوشش میں انہیں قائل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوگیا کہ میں نے انہیں باور کرایا کہ میں وہاں موجود تیس ہزارفلسطینیوں کے حالات کا خود جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ فلسطینی عربوں میں موجود یہ مسلمان، برما کے روہنگیا، چین کے یوغور مسلمان، سینٹرل افریقن ری پبلک اورشام کے مسلمان اس وقت دنیا کے مظلوم ترین مسلمان ہیں۔ میں ان فلسطینیوں سے ملنا اور گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

ممکن ہو تو میں وہاں موجود یہودی پناہ گیروں سے بھی ملنا چاہتا ہوں۔عین اسی لمحے ایک اور رشتہ دار آگے بڑھا۔ یہ پی ایل او فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا ایک سرگرم کارکن تھا۔وہ بتانے لگا کہ وہاں کے حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ اگر تمہیں کچھ ہوجائے تو اس کی اسرائیل اور دنیا بھر میں کوئی شنوائی نہیں ہوگی ۔یہاں فائرنگ، خنجر زنی اور گرفتاریاں روز مرہ کا معمول ہیں۔وہاں سیاح جانے سے گریز کرتے ہیں۔بڑے ٹور آپریٹر اپنے مہمانوں کو باقاعدہ اطلاع دے کر اسرائیلی فوج کی نگرانی میں لے جاتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس غیر ضروری مہم جوئی سے باز رہیں۔ مجھے لگا کہ وہ بہت غیر محسوس طریقے سے میرے لگاؤ کو بھانپ رہے ہیں ۔بہت آہستگی سے یہ ضد جب انہیں بھی مہمان کی ضد سے آگاہی کا سفر نظر آنے لگی اور انہیں بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ میں واقعی اپنے فلسطینی بھائیوں کے حالات زندگی اور ان کے کرب کا اندازہ خود وہاں کا مشاہدہ کرکے لینا چاہتا ہوں۔ یہ کھوج لگانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا جذبہ اور تحریک ہے جس نے انہیں ان مشکل اور نامساعد حالات میں بھی وہیں قیام کرنے پر آمادہ کیا ہواہے۔تذبذب کی اس دھندلی فضا کو عبدالقادر نے اسطرح صاف کردیا کہ عین اس موقع پر باکسنگ رنگ میں موجود ریفری کی طرح اعلان کیا کہ مصطفے وہاں ضرور جائے گا ، وہ باز آنے والا نہیں مجھے وہاں جانے کے لیے ایک ایسا شخص درکار ہے جو اسے یہ سب کچھ دکھا سکے‘‘۔ ایک دو فون کال اور میرے لیے وہاں غسان صاحب کا بندوبست ہوگیا۔

ایک چالاک یہودی گائیڈ اب انہیں اس عجائب گھر کے بارے میں بتارہا تھا۔میرے لیے اس عجائب گھر میں داخلے کا امکان بہت کم ہے۔یہاں موجود نوادرات کو اس انداز اور نقطۂ نظر سے رکھا گیا ہے کہ یہودیوں کا اسرائیل پر حق ابتدائے آفرینش سے ثابت ہو۔

وہ حضرت مجھے یہودی آباد کاروں کے علاقے H-2.میں مل جائیں گے۔عبدالقادر کے پاس گو پروانۂ راہداری ہے ، وہ بھی وہاں کا باشندہ ہے مگر مجھے لگا کہ وہ جانے میں کچھ ہراساں ہے۔ سو، میں نے وہاں موجود اپنے میزبانوں کو اللہ حافظ کہا اور تنہا پیدل ہی چل نکلا۔ مٹی سے اٹی سڑکوں پر چلتے چلتے،کچھ موڑ ادھر ادھر مڑتے میں ایک ایسی دیوار کے سامنے آن پہنچا جس کے پاس جگہ جگہ ریت کے تھیلوں سے بنے ہوئے بنکرز تھے جن کے اندر اور باہر دھوپ کے چشمے لگائے اسرائیلی فوجی تعینات تھے ان کی آرپی جی رائفلوں کو بھی بخوبی دیکھا جاسکتا تھا۔شہر کو دو حصوں میں بانٹنے کے لیے ایک زنگ آلودturnstile بھی لگا تھا۔دوسری طرف بھی کئی کمانڈو اور فوجی ہمیں چبھتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ان فوجیوں کا تعلق نو بھرتی شدہ فوجیوں میں ہوتا ہے۔اسرائیل میں ہر نوجوان مرد و زن پر ترکی کی طرح فوجی تربیت لازم ہے۔انہیں جس مرحلے سے گزارا جاتا ہے اسے Aliyah (گھر واپسی )کہا جاتا ہے۔یہ ان کی لازمی ہدایت کا حصہ ہے کہ وہ خطرے کو بھانپتے ہی بندوقوں سے عربوں کو بھون دیں۔

اسرائیل کے یہودی آبادکار ایک فلسطینی خاتون پر حملہ کرتے ہوئے

اسرائیل کے یہودی آبادکار ایک فلسطینی خاتون پر حملہ کرتے ہوئے


پاکستان بھی اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی مملکت ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہاں لازمی فوجی تربیت سے کیوں منہ موڑا ہوا ہے جب کہ یہ قومی تشکیل، میعاریت،نظم وضبط، دہشت گردی کے خاتمے اور جاسوسی کے اندرونی نظام کے لیے بے حد موثر اور ناگزیر قومی ضرورت ہے۔چیک پوسٹ پر میں نے اپنا پاسپورٹ ایک مستعد سنتری کے حوالے کیا۔جس نے میرے سراپے کا جائزہ لیا ۔بیگ کی تلاشی لی اور ایک حفاظتی گیٹ سے گزرکر آگے جانے کی اجازت دے دی۔یہ پہلا مرحلہ تھا۔دوسری طرف کی سرحدی باڑ کئی عدد سیمنٹ کے بڑے بلاکس پر مشتمل تھی۔یہاں سوال جواب کا نیا مرحلہ شروع ہوا کہ میں H-2 علاقے میں کسے جانتا ہوں؟میرا صحافت سے کیا کوئی تعلق ہے؟ میرے انکار اور سرجن ہونے کی وضاحت پر وہ مطمئن ہوگیا اور مجھے آگے جانے کی اجازت دے دی۔

جالی در حفاظت

جالی در حفاظت


مجھے لگا کہ میرے قدم مجھے ایک شہر آسیب میں لیے چلے جاتے ہیں۔یہاں دُکانیں بند ، ٹریفک نہ ہونے کے برابر۔غسان سے میری ملاقات شہدا اسٹریٹ پر طے تھی۔میں نے گوگل کے نقشوں کی مدد سے مغرب کی سمت سفر کرنا شروع کردیا۔آدھ کلومیٹر چل کر مجھے ایک سیاحتی بس دکھائی دی جو شاید یروشلم سے یہاں آئی تھی اور ایک خالی پلاٹ میں کھڑے ہونے کی کوشش میں تھی۔بس کے رکتے ہی اس میں دس مشٹنڈے بندوق بردار اسرائیلی فوجی کودے اور چار اطراف سے بس کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کی اجازت سے پھر کوئی پچاس سہمے ہوئے سیاح بس سے اُترے۔ میری مسکراہٹ نے ان میں سے ایک بوڑھی عرب عورت کوحوصلہ دیا۔ اُس نے پوچھا’’ کیا میں بھی عرب ہوں؟‘‘نہیں میں بھی سیاح ہوں آپ کی طرح۔ارے تو پھر آپ کا گروپ کہاں ہے؟ یہ اس کا اگلا سوال تھا۔میں تنہا ہی گھومتا ہوں۔آہستہ آہستہ رہائشی علاقے کی جانب بڑھتے ہوئے مجھے اب ایسے یہودی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دکھائی دے رہے تھے جن کا لباس و اطوار قدامت پسند انہ تھے ۔یہ مختلف بائیسکلوں پر سوار تھے۔گلی کے ہر نکڑ پر اسرائیلی فوجی کھڑے تھے اور چند خواتین بھی روز مرہ کے سوداسلف کی ٹوکریاں اٹھائے آجا رہی تھیں۔ ان سے مولی کے پتے باہر جھانک رہے تھے ۔مجھے وہاں بتایا گیا تھا کہ میں اس علاقے میں خواتین کی تصاویر لینے سے گریز کروں گو کہ یہ مناظر یقینا کیمرے میں محفوظ کرکے آپ کے ساتھ شیئر کرنے والے تھے ۔دس منٹ کی واک کے بعد میں شہدا ء اسٹریٹ پر پہنچ گیا۔اس گلی کا ایک اور نام بھی ہے،Apartheid streetیعنی شاہراہ نسلی منافرت ۔

بہت برس پہلے ایک یہودی جنونی ڈاکٹر Baruch Goldstein حرم ابراہیمی کے احاطے میں داخل ہوگیا تھا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے اس نے تیس مسلمانوں کو دوران صلوۃ الجمعہ شہید کردیا تھا۔اسے مسلمانوں نے وہیں موقع پر دبوچ کر ماردیا جس کی وجہ سے ہنگاموں کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔

چھاپے کے بعد ایک فلسطینی کے گھر کا حال

چھاپے کے بعد ایک فلسطینی کے گھر کا حال


یہ ہنگامے سارے فلسطین میں پھیل گئے جس کے نتیجے میں ناروے کے دار الخلافہ اوسلو میں1994 میں معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کی رو سے اب یہ شہر الخلیل دو حصوں میں تقسیم ہے حتی کہ حرم ابراہیمی بھی۔ اس کا ایک حصہ مسلمان اور دوسرا یہودیوں کے لیے مختص ہے۔مسلمان حصے میں حضرت اسحق علیہ السلام ، ان کی اہلیہ ربیکا اور بی بی سارہ کے مقابر ہیں ۔یہودی حصے میں حضرت یوسفؑ ، حضرت یعقوبؑ کے مقابر عالیہ ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقبرے کو دونوں حصوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔اس کو ایک عجب انداز سے منقسم کیا گیا ہے کہ بلٹ پروف شیشے سے مزار آدھا ادھر تو آدھا یہودی حصے میں آجاتا ہے۔1994 سے پہلے شہداء اسٹریٹ کو یہودی کنگ ڈیوڈ اسٹریٹ کہتے تھے۔یہاں بڑا کاروباری مرکز تھا ، صدیوں پرانا ایک بازار جسے سوق کہتے تھے، اس شہر کی اہم علامت مانا جاتا تھا۔سوق میں اکثر دُکانوں کے مالکان عرب تھے۔ ان کو برباد کرنے اور ان کے لیے عرصۂ حیات مزید تنگ کرنے کی خاطر اب ان یہودی پناہ گیر آباد کاروں کی حفاظت اور سیکورٹی کے نام پر اس شاہراہ اور ان دکانوں کو عربوں کے لیے مستقل طور پر نو گو ایریا بنادیا گیا ہے۔عربوں کے وہ گھر جن کا رخ اور صدر دروازے اس مرکزی شاہراہ پر تھے، ان پر اب یہ پابندی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں مرکزی دروازے سے داخل نہیں ہوسکتے بلکہ چوروں اور نقب زنوں کی طرح کھڑکیوں اور چور دروازوں سے یا دیواریں پھلانگ کر اندر آسکتے ہیں۔ پورے بارہ سال تک تو فلسطینوں پر شہدا ء اسٹریٹ میں چھوٹے گروپوں کی شکل میں قدم رکھنے پر بھی پابندی تھی۔معمولی سی خلاف ورزی پر چوکیوں اور واچ ٹاوروں پر ایستادہ یہودی سپاہیوں کی گولی انہیں نشانا بنا لیتی تھی۔2007 میں شدید بیرونی دباؤ میں آن کر اب یہ شرط نرم کردی گئی ہے۔ پیدل ٹولیوں کو وہاں آنے کی اجازت ہے۔ لیکن گولی اب بھی ویسے ہی چلتی ہے۔ کاروں کو البتہ وہاں آنے کی اب بھی ممانعت ہے۔

ایچ 1 الخلیل

ایچ 1 الخلیل


Bait Hadassah Museum کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نگاہ ان ہی سہمے ہوئے سیاحوں پر پڑی جنہیں میں نے بس سے اترتے دیکھا تھا ۔ ایک چالاک یہودی گائیڈ اب انہیں اس عجائب گھر کے بارے میں بتارہا تھا۔میرے لیے اس عجائب گھر میں داخلے کا امکان بہت کم ہے۔یہاں موجود نوادرات کو اس انداز اور نقطۂ نظر سے رکھا گیا ہے کہ یہودیوں کا اسرائیل پر حق ابتدائے آفرینش سے ثابت ہو، گویا اسرائیل جنت کا حصہ تھا جہاں آدم علیہ السلام رہا کرتے تھے اور انہیں جنت سے بے دخل اس قطعہ مملکت سمیت کیا گیا۔ عربوں کی بند دکانوں پر غلیظ عرب دشمن نعرے لکھے ہوئے تھے۔ایک جگہ بڑے الفاظ میں Free Israel کا نعرہ بھی درج تھا۔ یہ اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند صیہونیت سوچ کا نعرہ ہے۔ ہیبرون کے اکثر یہودی پناہ گیر آباد کار اس سوچ کے حامی ہیں۔ سڑک کے خاتمے پر ایک سیمنٹ بلاک کی اوٹ مجھے ایک گول متھلو سا نوجوان نظر آیا یہ غسان تھا ۔ مجھے اسے پہچاننے میں اس لیے دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ مجھے اس کی تصویر دکھا دی گئی تھی۔ (جاری ہے)

نوشتہ دیوار

نوشتہ دیوار


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر