وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

منگل 02 اگست 2016 دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


مغربی کنارے کا شہر الخلیل دو حصوں میں تقسیم ہے

مغربی کنارے کا شہر الخلیل دو حصوں میں تقسیم ہے


آج ہمارا سفر ہیبرون کی جانب ہے۔ اسے عرب الخلیل کہتے ہیں۔ ہیبرون میں آج کے اسرائیل کا مکمل اور بھرپور نمونہ دیکھا جاسکتا ہے۔ عبرانی زبان میں لفظ ہیبرون کے کئی معنی ہیں، دوستی، ملاپ۔ جس طرح یروشلم کو دار السلام کہنا باعث تمسخر و تحیرّہے بالکل اسی طرح یہ شہر اپنے معنی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا میں یہ شہر سیاسی طور پر آتش بداماں، منقسم اور باہمی مخاصمت میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہودیوں کے ہاں یروشلم کا درجہ مکہ المکرمہ کی طرح ہے، اسی طرح الخلیل کو مدینہ طیبہ کی مانند سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی عرب البتہ اسے اسلام کا چوتھا اہم شہر مانتے ہیں۔ یعنی مکہ المکرمہ، مدینہ طیبہ اور یروشلم کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے کسی اور شہر کا نہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے جب تک اپنا دار الخلافہ یروشلم منتقل نہیں کیا تھا یہ ان کے مملکت کی راجدھانی تھا۔ اس شہر کو سات سو برس تک مسلسل مسلمانوں کے زیر انتظام رہنے کا بھی شرف حاصل رہا، یہاں تک کہ1967 کی جنگ میں اسرائیل نے اسے اُردن سے چھین لیا۔

فلسطین کے مغربی کنارے واقع یہ شہر بہت بڑاہے اور اس کی صنعتی حیثیت بھی ہے۔ 1994 میں ناروے کے شہر اوسلو میں ہونے والے معاہدے کی رو سے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک حصے کو H-1 کہتے ہیں جس میں آج کل یہاں تین لاکھ فلسطینی عرب رہتے ہیں۔ اس کا انتظام فلسطین کی حکومت کے پاس ہے۔ اسے آپ بلاشبہ شہر کا اسی فیصد علاقہ مان سکتے ہیں۔ دوسرا حصہ جسے H-2 پکارتے ہیں اس میں ساڑھے سات سو اسرائیلی اور تیس ہزار فلسطینی عرب آباد ہیں۔ ان ساڑھے سات سو اسرائیلی گھس بیٹھیوں کی اعانت، امداد، حفاظت اور طمانیت قلب کی خاطربندوقوں سے لیس ڈیڑھ ہزار فوجی ہر وقت تعینات رہتے ہیں۔ یعنی ہر پناہ گیر کی حفاظت پر دو فوجی، گویا یہودی پناہ گیر نہ ہوئے سندھ اور پنجاب کے بڑے رینک والے پولیس افسر ہوگئے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے جب تک اپنا دار الخلافہ یروشلم منتقل نہیں کیا تھا تو الخلیل ہی ان کے مملکت کی راجدھانی تھا۔ اس شہر کو سات سو برس تک مسلسل مسلمانوں کے زیر انتظام رہنے کا بھی شرف حاصل رہا

سر دست یہ فلسطین کی آزادی تحریک کا مرکز ہے۔ فائرنگ، بم دھماکوں، خنجر گھونپنے کی وارداتیں جو اخبار ات کے ذریعے آپ تک پہنچتی ہیں وہ واردتیں اسی شہر سے متعلق ہوتی ہیں۔ اسرائیل نے جن یہودیوں کو یہاں بسایا ہے۔ ان کی اکثریت شدت پسند امریکی اور فرانسیسی یہودیوں کی ہے۔ فرانس میں تخریب کاری اورفسادات کی ایک تحریک برپا دکھائی دیتی ہے، اس کے تانے بانے ماضی میں الجزائر، تیونس، مصر اور تازہ ترین لیبیا میں فرانسیسوں کے مظالم سے جوڑے جاسکتے ہیں۔ یہ یہودی پناہ گیرسرکاری سر پرستی میں قدیم فلسطینی آبادی پر مظالم ڈھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ابراہیم مسجد، الخلیل

ابراہیم مسجد، الخلیل


ان مظالم کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ ایک ہی نوعیت کے جرائم میں ملوث یہودی اور عربوں کے لیے مختلف ضابطے اور سزائیں ہیں۔ عربوں کے جرائم کا فیصلہ برق رفتاراور قہر مزاجی سے فوجی عدالت میں ہوتا ہے اور یہودی مجرم کا ایک تسلی بخش، دھیمے مزاج کی کومل سی مسکراہٹ والی سویلین عدالت میں۔ یہاں رہنے والے ان عربوں کو جن کے پرانے گھر اہم شاہراوں پر واقع ہیں حفظ ماتقدم کے طور پر انہیں اپنے گھر کے مرکزی دروازوں سے داخلے کی اجازت نہیں۔ وہ عقبی دروازے، دیواروں سے کود کر یا کھڑکیوں کے راستے سے گھر میں داخل ہوتے ہیں، شرف انسانی کی ایسی توہین دنیا کے کسی شہر اور معاشرے میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔

میرے نزدیک ہیبرون کے الخلیل پکارے جانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شہر ہے۔ اپنی زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے اسی شہر میں بسر کیا۔ ان کی پیدائش عراق کی بستی اُر میں ہوئی تھی۔ لیکن ان کا وصال الخلیل میں ہوا۔ اس وجہ سے شہر کو عربوں نے ان کے لقب سے موسوم کر رکھا ہے، اُن کا مدفن مبارک اسی شہر میں ہے۔ ایک روایت کے مطابق اپنی حیات طیبہ میں ہی انہوں نے ایک قطعہ زمین خرید لیا تھا۔ اس جگہ کو انہوں نے اپنے خاندانی قبرستان کا درجہ دے دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسی احاطے میں آپ کو ان کے صاحبزادے حضرت اسحق ؑ اور پوتے حضرت یعقو ب کے مبارک مقبرے بھی ملتے ہیں۔ ان انبیائے کرام کی ازواج محترم کی قبور بھی یہیں پر ہیں۔ بادشاہ ہیرڈ نے آج سے دو ہزار سال پہلے ان مزارات کے اردگرد ایک حفاظتی حصار بنوایا تھا جو آج بھی محفوظ ہے۔ اسی وجہ سے یہ تمام احاطہ اب حرم ابراہیمی اور انگریزی میںCave of the Patriarchs’ کہلاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار


اس کے علاوہ چونکہ یہاں ہرمقبرے کی ترتیب اس طرح ہے کہ میاں بیوی کے مقبرے ساتھ ساتھ ہیں۔ لہذا اسے عبرانی زبان میں مرائت ہا مک فیلا Me’arat ha-Makhpela بھی کہتے ہیں۔ اس احاطے کے زیر زمین مقبروں میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سارہ، حضرت اسحقؑ اور ان کی اہلیہ رقا ( Rebecca) اور حجرت یعقوب اور ان کی پہلی بیوی بی بی لیہ ابدی نیند سورہے ہیں۔ اس پورے احاطے کو ایک بلٹ پروف شیشے سے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف حضرت سارہ، حضرت اسحقؑ اور ان کی اہلیہ رقا کے مقابر ہیں اور دیگر یعنی حضرت یعقوبؑ، ان کی اہلیہ لیہ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے مزارات یہودی احاطے میں ہیں۔ لطف و حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار مبارک آپ دونوں طرف سے دیکھ سکتے ہیں۔ شہر میں اکثر سیاح محض اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ اہل یہود تو حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ اور حضرت یوسف علیہ السلام کا مرقد عالیہ بھی اسی مقام کو مانتے ہیں۔

حضرت اسحٰق اور ان کی اہلیہ کے مزارات

حضرت اسحٰق اور ان کی اہلیہ کے مزارات


ہم ہیبرون کے لیے جلد نکل آئے تھے۔ یروشلم سے اس کا فاصلہ حالانکہ کل چالیس کلو میٹر ہے مگر میرا ارادہ اس شہر کو اس کے تمام تر تضادات اور عداوتوں کی روشنی میں دیکھنے کا تھا۔ ہم جب فلسطینیوں والے علاقے جسے H-1 کہتے ہیں داخل ہورہے تھے تو شہر کسی فتنۂ تازہ کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہورہا تھا۔ فلسطین شہر کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ اس کا وصف انتشار اور قدامت پسندی ہوتاہے۔ خواتین وہاں بہت کم بہت دکھائی دیتی ہیں اور وہ بھی بہت لپٹی لپٹائی، کاریں بھی ان سڑکوں پر بہت کم دکھائی دیتی ہیں، زندگی البتہ ان کے گھروں کی بالکونی سے کسی نہ کسی صورت لٹک رہی ہوتی ہے۔ دُھلے ہوئے کپڑوں کی صورت میں، کھیلتے ہوئے بچوں کی کلکاریوں میں۔ اس کی خاک آلود شاہراووں پر جابجا تعمیراتی سامان بکھرا ہوا تھا۔ ہم شہر کے وسط میں بڑی سی ابو صبیح حلوائی کی دُکان کے سامنے رک گئے۔ ان دنوں یہ سارا علاقہ دو قبائل کا مسکن ہے ایک کا نام ہے ابو صبیح تو دوسرا ابو سنانا کہلاتا ہے۔ عبدالقادر کے دام الفت و شناسائی کے جال میں دونوں قبائل بہت موثر انداز میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف خود ابو صبیح سے تعلق رکھتے ہیں تو دامن مناکحت میں ابو سنانا کو لپیٹ رکھا ہے۔ حضرت کی کار کو دیکھتے ہی ہر طرف سے میکے اور سسرال والے دوڑ پڑے۔


چچا، ماموں، کزنز، نسبتی بھائی مرحبا مرحبا کہتے کہتے ہمارے اردگرد جمع ہوگئے۔ عربوں کے روایتی بوسوں اور گرم جوش معانقوں سے میرا بُرا حال ہوگیا۔ شہر کی یہ مارکیٹ یوں بھی ایک خاندانی کاروباری مصروفیت ہے۔ اس بازار تعلق داری میں اس نے میرا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ میں اس کا گم شدہ کزن ہوں۔ میرے دادا ابو صبیح قبیلے کے فرد تھے۔ جن کو جنگ عظیم اول میں میرے پر دادا عدن لے گئے تھے۔ میرے والد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہاں سے انگلستان گئے تھے۔ دوران قیام ایک نیک دل پاکستانی خاتون سے شادی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے اس تعارف کو جی جان سے قبول کیا کیوں کہ چار جنریشن پہلے کا کوئی حوالہ وہاں موجود نہ تھا۔ یہ سب کچھ سنتے ہی میرے لیے ابو صبیح حلوائی کے کاریگر میدے کی سویوں، بکری کے پنیر اور شہد سے کنیفہ تیار کرنے میں لگ گئے۔ اسی دوران اس کا کوئی رشتہ دار بھاگ کے اپنے اسٹور سے لبان یعنی چھاچھ Butter Milkلے آیا۔ ایک اور رشتہ دار جسے ایسے معاملات میں پیچھے رہ جانے سے نفرت تھی وہ بھاگ کر اپنی اسٹور سے تازہ تازہ کاک ( اب آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ معین الدین چشتی ؓ کے خلیفۂ عظیم بابا فرید الدین گنج شکر کے مرشد محترم خواجہ بختیار کے لفظ میں کاک سے مراد وہ نان ہیں جو انہیں دوران عبادت ایک طاق میں بھوک مٹانے کے لیے مل جاتے ہیں۔ بخارہ کے علاقے اوش میں بھی جہاں سے آپ کا تعلق تھا نان کو کاک کہتے ہیں) اور کھولتی ہوئی کافی کی کیتلی لے آیا۔ میرے اس نودریافت خانوادے کی ہرگز یہ مرضی نہ تھی کہ میں اب عمر بھر ان کا ساتھ چھوڑ کر کہیں اور جاؤں مگر عبدالقادر نے انہیں سمجھایا کہ میرا ارادہ شہر یعنی H-1 اور H-2 دیکھنے اور حرم ابراہیمی میں صلوۃ الجمعہ ادا کرنے کا ہے۔

الخلیل کا ایک بازار

الخلیل کا ایک بازار


’’ No H-2 ‘‘ اس کے ایک رشتہ دار نے احتجاجاً اعلان کیا۔ میرے اس استفسار پر کہ وہاں جانے میں کیا قباحت ہے؟ تو وہاں موجود کسی فرد نے کہا کہ وہاں جو یہودی پناہ گیر بسائے گئے ہیں وہ شیطان کے جڑواں بھائی ہیں۔ ان سے قدیم اسرائیلی یہودی بھی نفرت کرتے ہیں۔ یہ بہت شدت پسند اور انسانیت سے عاری گروہ ہیں۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 28 جولائی 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر