وجود

... loading ...

وجود
وجود

ساکھ؟

پیر 04 جنوری 2016 ساکھ؟

nawaz-sharif-narendra-modi

نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات پر سوالات ہیں اور بہت سوالات ہیں؟ پہلا مسئلہ ساکھ سے جڑا ہے اور پھر اُسی سے جڑا دوسرا مسئلہ مذاکرات پر اعتماد کا ہے۔ نوازشریف کسی اور کونہیں اپنے فارغ بیٹھے صدر کوہی یقین دلائے۔ جو قوم کے قیمتی وسائل پر دانشوروں کواپنے قیمتی خیالات سے نوازتے رہتے ہیں۔ کیا بریک تھرو ہو سکتا ہے؟سجاد میر کے سوال پر اُنہوں نے جو کچھ فرمایا اُسے چاپلوسوں نے فوراً ہی آف ڈی ریکارڈ کی آوازوں میں اُچک لیا۔ مگر اُنہوں نے کہا کہ مودی کا ٹریک ریکارڈ ہی یہ ہے کہ وہ کہہ کر مُکرجاتا ہے اس لئے اُ س پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اگلی بات زیادہ اہم تھی کہ ہمیں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ مگر عجلت کس کو ہے؟ جناب نوازشریف کے اہلِ خانہ اور بھارت کی پراسرار کاروباری شخصیت سجن جندال کو ؟

ایک بات جناب نوازشریف کی سمجھ میں نہیں آتی۔ پاک بھارت تعلقات کا معاملہ اُن کے خاندان کی کسی کاروباری ڈیل کی طرح سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔ برصغیر کی تقدیر کچھ کاروباری لوگوں کے سپر د نہیں کی جاسکتی جن میں سے کچھ اتفاقاً’’دھاندلی زندہ ‘‘عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے، محترم مجید نظامی نے یہ بات خوب سمجھی تھی۔اُنہوں نے فروری ۱۹۹۹ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور پر تب دو بنیادی اعتراضات اُٹھائے تھے۔ دووزرائے اعظم کی ملاقات کو ذاتی رنگ نہ دیں ۔ اور واجپائی کو لاہور نہ بلائیں۔ مجید نظامی صاحب کا خیال تھا کہ واجپائی کو واہگہ سے لانا اپنے آپ میں ایک قابلِ اعتراض بات تھی۔ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کو لاہور تب لایا جائے جب تعلقات معمول پر آجائیں۔ تب مجید نظامی کو وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایک جواب دیا:کچھ نئیں ہوندا۔‘‘تاریخ نے ایک چکر کاٹ کر ہمیں واپس وہیں لاپھینکاہے۔اور حد تو یہ ہے کہ نوازشریف نے تاریخ سے کوئی سبق ہی نہیں سیکھا۔اس مرتبہ وہ فروری ۱۹۹۹ء کی کج ادائیوں سے زیادہ بڑھ کر ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے روابط کے ایسے طریقے نکالے جو سفارت کاری کے مسلمہ طریقوں سے مکمل ہٹ کر تھے۔ یہ کوئی نکسن قسم کا دورہ نہیں تھا۔ ریاستوں کے درمیان سفارتی محاذ پر ’’بیک ٹریک ‘‘کا ایک طریقہ موجود ہوتا ہے۔ مگر اِسے بھی ایک ’’کنونشنل ‘‘ یعنی روایتی انداز سے برتا جاتا ہے۔ نوازمودی کے درمیان ’’بیک ٹریک‘‘کا پورا عمل سفارتی زبان میں ہر گز ’’اسٹینڈرڈ بیک ٹریک‘‘نہیں تھا۔ پھر مودی کو وہ اپنے’’ کیمپ ڈیوڈ‘‘ یعنی امرتسر کے ایک امیر محلے پر رکھے گئے نام اپنے گھر ’’جاتی عمرا‘‘ لے گیے۔ نریندر مودی کی آمد کی خبروں سے پہلے وزیر اعظم نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو بھی چھٹی پر بھیج دیا۔ اس پورے عمل سے خوش گمانیاں وابستہ کرنے کے لئے حد سے زیادہ امید پرست یا پھر حد سے زیادہ مفاد پرست بن کر دیکھنا پڑتا ہے۔ یوں بھی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے صحافیوں پر سب سے زیادہ نوازشات کی بارش کررکھی ہے۔ کوئی اِسے اب اسکینڈل (بھدنامہ) بھی نہیں سمجھتا۔

بھارت کی باخبر خاتون صحافی برکھا دت نے پہلے سے ہی اس پورے معاملے کو اپنی کتاب ’’ڈی ان کوئیٹ لینڈ‘‘ میں طشت ازبام کر رکھا ہے کہ کس طرح نوازمودی کے درمیان ایک بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال ملوث ہیں۔ یہ معاملہ تب زیادہ شکوک آلود ہو جاتا ہے جب سجن جندال اور شریف خاندان کے عرب امارات سے لے کر بیلا روس تک پھیلے کاروباری مفادات کے اشتراک کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خرابیاں کوئی معمولی یا روایتی نوعیت کی نہیں۔ پاکستان کے اندر حب الوطنی کا پورا علم الکلام بھارت سے تعلقات کی نوعیت پر متحرک ہوتا ہے۔ اگر یہ سارا معاملہ پنجاب کے بغیر کسی دوسرے صوبے کے سیاسی رہنما کے ہاتھوں روبہ عمل آتا تو اب تک غداری کے نامعلوم کتنے افسانے تراشے جاچکے ہوتے۔ اس معاملے کا ایک نظری پہلو یہ بھی ہے کہ اس بحث کو فوی سیاسی تعلقات کے تعصب میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ اور پنجاب سے وابستہ دانشوروں کی طرف سے سیاسی قیادت کو اس کی گنجائشیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ ریاستی امور چلانے کا حق فوجی کا نہیں بلکہ سیاسی قیادت کا مانا جاتا ہے۔ نظری طور پر اس بحث کو طے ہوئے ابھی پچاس برس بھی نہیں گزرے ، مگر اس بات کو طے ہوئے تو ہزاروں برس بیت گیے کہ ریاستی امور کسی ’’تاجر‘‘ کے سپرد نہیں کئے جاسکتے۔ ۴۲۷ سال قبل از مسیح میں افلاطون نے اپنی کتاب ’’جمہوریہ‘‘ میں واضح کر دیا تھا کہ ریاست کی سربراہی کسی تاجر کے حوالے نہیں کرنی چاہئے۔ جدید ریاستوں کا اس پر کامل ایمان ہے ۔ اور جدید ریاستوں میں’’ دستوری جمہوریت‘‘ کی ساری بحث ہی اس تناظر میں ہے کہ ’’کارپوریٹ ڈیمو کریسی‘‘نے جمہوریت کو یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ فوجی آمریت سے زیادہ بھیانک بن کر اپنا آپ دکھا رہی ہے۔

دوسری طرف خود بھارت سے مذاکرات کی تاریخ میں کوئی چیز بھی امید دلانے والی نہیں۔ یہاں جس چیز کو سب سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، وہ بات چیت کا عمل ہی ہے۔ اور یہی چیز دونوں ممالک کی سب سے ناکام شے ہے۔ اس معاملے میں بھارت کا ایک سوچا سمجھا رویہ ہے ۔ وہ عالمی دباؤ پر مذاکرات کرتا ہے اور کسی بھی واقعے کو بہانہ بنا کر اس ملتوی کر دیتا ہے۔ بھارت نے اب تک جو کچھ پاکستان سے حاصل کیا ہے وہ چیز وں کو التوا کی کھونٹی سے باندھ کر کیا ہے۔ کسی اور کی طرف نہیں بھارتی مصنف کلدیپ نائر کی طرف دیکھتے ہیں۔ کلدیپ نائر بھارت میں مختلف مناصب پر بھی فائز رہے ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’Beyond the lines‘‘ میں ہند چینی تنازع کے بعد بھارت پر پڑنے والے عالمی دباؤ کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ مذکرات شروع کرنے کے پورے عمل سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ۱۹۶۲ء میں تب برطانوی اور امریکی سفارت کار بھی مذاکرات کی جگہوں پر خود موجود رہتے تھے، تب بھارتی وفد کو جو کسی وجہ سے مذاکرات سے باہر جانا چاہتے تھے، عالمی دباؤ کے باعث جب ایسا نہ کرسکے تو اُنہیں دارالحکومت سے ہدایت دی گئی کہ ’’مذاکرات بھلے جاری رہیں، مگر پرنالہ جوں کا توں رہے۔‘‘تب بھی راولپنڈی اور نئی دہلی کے درمیان اصل مسئلہ مذاکرات کے موضوعات ہی پر تھا۔ بھارت دیگر موضوعات کو زیربحث لانا چاہتا تھا اور پاکستان کا اصرار مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر تھی۔ اگر کسی کو بھارتی عزائم او رسوچنے کے انداز کو جانچنا ہو تو وہ کلدیپ نائز کی کتاب کے چھٹے باب میں چند فقروں کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔

’‘شاستری کی شدید خواہش تھی کہ وہ بھارت کی نمائندگی کرے۔ پاکستان بھی یہی چاہتا تھا۔نہرو نے سورن سنگھ کو نامزد کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سورن سنگھ لایعنی گفتگو کا بادشاہ تھا۔‘‘

اب بھارت کو اس سے ذرا کچھ زیادہ چاہئے ، پہلے لایعنی گفتگو سے کام چل جاتا تھا، اب اتنے وعدے اور دعوے ہو چکے ہیں کہ بھارت کو کہہ کر مکرنے والے کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے بھارت کی طرف سے خود نریندر مودی آگے بڑھے ہیں۔ مودی سے بڑھ کر مکرنے والے کون ہوگا۔ یہ بات تو خود نوازشریف کے پسندیدہ صدر جناب ممنون حسین فرما رہے ہیں۔ جو ایوان صدر میں ممنویت کے جذبات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں رکھتے۔ بدقسمتی یہ نہیں کہ مگر بھارت کی اس معاملے میں کوئی ساکھ نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے بھارت سے بات چیت کے معاملے پر خود اپنی ساکھ کو باقی نہیں رہنے دیا۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائی، مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی وجود - جمعرات 29 ستمبر 2022

بھارت میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، حکومت نے دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مذہبی گروپ کے عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات ہیں، گروپ اور اس ک...

مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائی، مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا وجود - جمعرات 17 فروری 2022

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی وزیراعظم دہلی کے ایک مندر کے دورے پر مہمانوں کی کتاب میں تاثرات لکھنے گئے تاہم وہ پہلے سے ہی لکھے ہوئے تھے۔ نریندر مودی لکھے ہوئے تاثرات کے اوپر صرف ہوا میں قلم چلاتے رہے لیکن انہوں...

نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر