وجود

... loading ...

وجود
وجود

روحِ عصر

جمعه 01 جنوری 2016 روحِ عصر

tahir asharfi

حافظ طاہر اشرفی اور مولانا خان شیرانی!اُف خدایا ہمیں کون کون سے نام لینے پڑتے ہیں؟ ہائے یہ صحافت ہمیں کیسے موضوعات سے خود کو آلودہ کرنا پڑتا ہے؟

زیادہ علم نہیں، بس تھوڑی سی تفہیم! ابوالحسن فرقانی کا واسطہ کن لوگوں سے آن پڑا تھا کہ آپ نے فرمایا:
’’تھوڑی سی تفہیم، بہت سے علم ، عبادت اور زہد سے بہتر ہے۔‘‘

مگر ہمارا واسطہ اُن لوگوں سے آن پڑا ہے جو تھوڑی سی تفہیم تو کیا رکھتے، اپنی اچھی خاصی جہالت پر بھی اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔وہ اس کے فروغ اور مسلسل افزائش پر آمادہ رہتے ہیں۔ یا للعجب!مسلم بصیرت پر کیسے حملے جاری ہیں، علماء اپنے علم کی پوری منہج کے ساتھ کٹہرے میں ہیں،عالمی حالات مسلسل اُن کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں دو دو ٹکوں کے دانشور اُن کے تصورات پر تھوکتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی راہداریوں میں پڑا کچرا چننے والے کالم نگار اُنہیں حقارت سے مخاطب کرتے ہیں۔کسبیوں کی حیارکھنے والے تجزیہ کار اُنہیں ٹیلی ویژن پر مزاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ اپنے بالوں پر پڑے رنگوں اور گالوں پر پڑے غازوں کی غلط دکھاؤٹ پر لڑنے والے اینکرز ان کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ عورتیں جو ٹی وی پر ایک دوسرے پر تہمتیں دھرتی پائی جاتی ہیں، ان کے کردار پر سوال اُٹھاتی ہیں۔ وہ قومی چاقو کی گھونپ اور کالے دھن کی توپ کے نشانے پر ہیں۔نقلی انکل ٹام اور گوروں کے گلفام اُن کی نقل اُتارتے ہیں۔ سارے سرکاری ڈاکو چور اور نوکر رشوت خور اُن کے ایمان کی جمع تفریق کرتے ہیں۔ بے بس گھر داماد ، افسر مادر زاد، منشی پھڈے باز اور بابو حیلے ساز اُن کے کردار کی گواہی مانگتے ہیں۔ مگر علمائے کرام کے اندر کوئی جھرجھری پیدا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی عزتِ نفس کو کہیں مجروح نہیں پاتے۔ اُنہیں کوئی غصہ نہیں آتا۔ اُن کے اندر کون سا شرم ناک سقم اور کرب ناک خلل پیدا ہوا؟ کہاں ہوا؟

ایسے لوگ تھے جو اپنے زمانوں سے آگے نکل گئے، جنہوں نے وقت کی جادو نگری میں شب وروز کے طلسم کو شکست آشنا کیا۔ مگر یہ کون لوگ تھے؟

علماء جانتے ہیں کہ اُنہیں دین کی طرف بلانے کے لئے حکمت و بصیرت کی تعلیم کیوں دی گئی؟ اور حکمت وبصیر ت کیا ہے ؟شاید ذرا دور کی بات لگے مگر ’’روح عصر ‘‘سے کماحقہ آگاہی دراصل حکمت وبصیرت کا شعور دیتی ہے۔ جرمن جسے ’’Zeitgeist‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ ’’اسپرٹ آف دی ایج‘‘ ہے۔ عام طور پر یہ اصطلاح مشہور فلسفی ہیگل سے منسوب کی جاتی ہے جس نے کبھی اس کو استعمال نہیں کیا مگر ایک فقرہ جو اُس نے استعمال کیا کہ ’’کوئی شخص اپنے زمانے سے آگے نہیں نکل سکتا، کیونکہ اُس دور کی روح خود اُس کی اپنی روح ہوتی ہے۔‘‘مگر ایسا نہیں۔ ایسے لوگ تھے جو اپنے زمانوں سے آگے نکل گئے، جنہوں نے وقت کی جادو نگری میں شب وروز کے طلسم کو شکست آشنا کیا۔ مگر یہ کون لوگ تھے؟ یہ اس زمین پر زمین کے بنائے نظاموں سے نہیں جڑے تھے، بلکہ اس زمین کو ہی بنانے والے کے آگے سجدہ ریز ہوئے تھے۔ اُنہوں نے انسانوں کے بنائے ہوئے سیاسی ، معاشرتی نظاموں کی تقدیس کی پروا نہیں کی۔ پھر وہ وقت کی جادو نگری کو پھلانگ گئے۔ اگر وہ اپنے زمانے سے آگے نہ نکل گئے ہوتے تو اُنہیں اُن کے بعد کے زمانوں میں کوئی اپنی اتباع کے لئے نہ چنتا۔ علماء اسی علم کے وارث ہیں۔ جن کی فضیلت میں اﷲ نے رسالت کی زبان سے کلام کر رکھا ہے۔ مگر کیوں وہ رسوا کیوں ہیں؟

علماء غور کریں، اور ممکن ہو تو اﷲ کے حضور توبہ بھی کہ اُن کی صفوں سے پست لوگ اوپر کیوں اُٹھتے ہیں۔ طاہر اشرفی اور مولانا شیرانی ایسے لوگ کیوں چمکتے ہیں؟ اﷲ کے نور سے دیکھنے والے مومنانہ فراست کے لوگ اُن کی اجتماعی سرگرمیوں میں گم کیوں رہتے ہیں؟ اجلی نثر لکھنے والے نوجوان علماء معاشرتی سطح پر اُن کی سرپرستی سے محروم کیوں رہتے ہیں؟فصاحت کی زبان گنگ اور بلاغت کے دریا خشک کردینے والے نوجوان علماء اُن کے اپنے درمیان بھی کوئی مقام بنانے سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اُن کے ذوقِ عبادت ، اُن کی ﷲیت، اُن کا خشوع وخضوع، اُن کی آخرِشب اﷲ کے آگے گریہ وزاری، اُن کی رقت آمیز دعائیں، اُن کی تحریک آمیز ادائیں، دنیا داری سے بچنے کے لئے اُن کے سلف کی بتائی ہوئی احتیاطیں، اُن کا تقویٰ اور اُن کا اپنے فیصلوں سے پہلے اﷲ سے رابطہ کہاں چلا گیا؟سیاست اور جمہوریت کی گھمن گھیریوں نے اُن سے یہ سب کچھ چھین لیا۔ اور بدلے میں کچھ رسوا کن مناصب پائے ہیں۔ جن کو بچانے کے لئے وہ دھتکاریں سہتے ہیں۔گھٹیا قسم کے لوگوں کے طعنے سنتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل میں جو کچھ ہوا ، وہ روزانہ کسی نہ کسی اسمبلی کا منظر ہوتا ہے۔ ہرروزسیاست دان یہی کام ٹیلی ویژن پر سب لوگوں کے سامنے کرر ہے ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کو گلاس مار دیتا ہے۔ کوئی اپنی برابر بیٹھی ہوئی خاتون کو رات کی کج ادائیاں یاد کراتا ہے۔ کوئی سیاست کے مجرے منکشف کرتا ہے۔ مغربی جامعات کے علوم کی درسگاہوں میں موجود لوگ کچھ مختلف تو نہیں۔ کیا ڈاکٹر ایک دوسرے کے گلے نہیں پکڑ لیتے؟ کیا اساتذہ ہرروز ایک نیا مسئلہ کھڑا نہیں کردیتے؟ ابھی ابھی ایک ویڈیو فیس بک پر گردش کررہی ہے جس میں پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ رقص کناں ہیں۔نابیناؤں نے لاہور میں احتجاج کیا تو وہ اپنے ساتھ نقصان پہنچانے والی چھڑیاں لے کر آئے تھے، جس کا اُنہوں نے استعمال بھی کیا۔ یہ ہمارے معاشرے کی مجموعی تصویر ہے جس میں پست بالا ہوگئے ہیں اور سر پرچڑھ کر بونے بولنے لگ گئے ۔ مگر سارا شور اسلامی نظریاتی کونسل کے ہنگامے پر اُٹھا ہوا ہے۔ آخر ہمارے معاشرے میں ہر سمت جاری اسی نوع کے مسلسل تماشے پر ایک مجموعی حساسیت کیوں نہیں؟یہ صرف طاہر اشرفی اور مولانا شیرانی کے جھگڑے تک محدود کیوں ہے؟ جو اصلاً کسی بھی طرح حقیقی علماء کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جواُن کے برابر تک بیٹھنے کے اہل نہیں۔ مگر علماء وہ طبقہ ہے جنہیں معاشرے کے مجموعی مزاج کی گنجائش دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علمائے کرام کو خود سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنی صفوں کو کیسے صاف کریں اور معیاری لوگوں کو کیسے اُبھاریں؟ علماء نجات پائیں! اپنے درمیان کے شیرانیوں اور طاہر اشرفیوں سے نجات پائیں۔ امام غزالیؒ نے داناؤں کی بات دہرائی ہے کہ انسانوں کے تین گروہوں میں تین عادتیں عجب ہیں: بادشاہوں کا غضب ناک ہونا ، علماء کا حریص ہو نا اور امیروں کا بخیل ہونا۔ یہ معاشرہ باقی دو کا بوجھ بھی اُٹھا لے گا اگر اُس کے علماء حرص سے اور مناصب کی کشش سے خود کو محفوظ کر لیں۔امام ابن تیمیہؒ نے یہ کر دکھا یا تھا۔ المک الناصر (حکمران) نے ایک مرتبہ اُن سے پوچھا کہ بہت سے لوگ آپ کے مطیع ہو گئے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے دل میں سلطنت پر قبضہ کرنے کا خیال ہے۔ امام نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ

’’میں ایسا کروں گا، خدا کی قسم تمہاری تو کیا تاتاریوں کی سلطنت بھی مل کر میری نگاہ میں ایک پیسے کے
برابر نہیں۔‘‘

علمائے کرام اپنے کردار کی طرف لوٹ آئیں! خدارا لوٹ آئیں!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر