... loading ...
حافظ طاہر اشرفی اور مولانا خان شیرانی!اُف خدایا ہمیں کون کون سے نام لینے پڑتے ہیں؟ ہائے یہ صحافت ہمیں کیسے موضوعات سے خود کو آلودہ کرنا پڑتا ہے؟
زیادہ علم نہیں، بس تھوڑی سی تفہیم! ابوالحسن فرقانی کا واسطہ کن لوگوں سے آن پڑا تھا کہ آپ نے فرمایا:
’’تھوڑی سی تفہیم، بہت سے علم ، عبادت اور زہد سے بہتر ہے۔‘‘
مگر ہمارا واسطہ اُن لوگوں سے آن پڑا ہے جو تھوڑی سی تفہیم تو کیا رکھتے، اپنی اچھی خاصی جہالت پر بھی اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔وہ اس کے فروغ اور مسلسل افزائش پر آمادہ رہتے ہیں۔ یا للعجب!مسلم بصیرت پر کیسے حملے جاری ہیں، علماء اپنے علم کی پوری منہج کے ساتھ کٹہرے میں ہیں،عالمی حالات مسلسل اُن کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں دو دو ٹکوں کے دانشور اُن کے تصورات پر تھوکتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی راہداریوں میں پڑا کچرا چننے والے کالم نگار اُنہیں حقارت سے مخاطب کرتے ہیں۔کسبیوں کی حیارکھنے والے تجزیہ کار اُنہیں ٹیلی ویژن پر مزاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ اپنے بالوں پر پڑے رنگوں اور گالوں پر پڑے غازوں کی غلط دکھاؤٹ پر لڑنے والے اینکرز ان کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ عورتیں جو ٹی وی پر ایک دوسرے پر تہمتیں دھرتی پائی جاتی ہیں، ان کے کردار پر سوال اُٹھاتی ہیں۔ وہ قومی چاقو کی گھونپ اور کالے دھن کی توپ کے نشانے پر ہیں۔نقلی انکل ٹام اور گوروں کے گلفام اُن کی نقل اُتارتے ہیں۔ سارے سرکاری ڈاکو چور اور نوکر رشوت خور اُن کے ایمان کی جمع تفریق کرتے ہیں۔ بے بس گھر داماد ، افسر مادر زاد، منشی پھڈے باز اور بابو حیلے ساز اُن کے کردار کی گواہی مانگتے ہیں۔ مگر علمائے کرام کے اندر کوئی جھرجھری پیدا نہیں ہوتی۔ وہ اپنی عزتِ نفس کو کہیں مجروح نہیں پاتے۔ اُنہیں کوئی غصہ نہیں آتا۔ اُن کے اندر کون سا شرم ناک سقم اور کرب ناک خلل پیدا ہوا؟ کہاں ہوا؟
علماء جانتے ہیں کہ اُنہیں دین کی طرف بلانے کے لئے حکمت و بصیرت کی تعلیم کیوں دی گئی؟ اور حکمت وبصیر ت کیا ہے ؟شاید ذرا دور کی بات لگے مگر ’’روح عصر ‘‘سے کماحقہ آگاہی دراصل حکمت وبصیرت کا شعور دیتی ہے۔ جرمن جسے ’’Zeitgeist‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ ’’اسپرٹ آف دی ایج‘‘ ہے۔ عام طور پر یہ اصطلاح مشہور فلسفی ہیگل سے منسوب کی جاتی ہے جس نے کبھی اس کو استعمال نہیں کیا مگر ایک فقرہ جو اُس نے استعمال کیا کہ ’’کوئی شخص اپنے زمانے سے آگے نہیں نکل سکتا، کیونکہ اُس دور کی روح خود اُس کی اپنی روح ہوتی ہے۔‘‘مگر ایسا نہیں۔ ایسے لوگ تھے جو اپنے زمانوں سے آگے نکل گئے، جنہوں نے وقت کی جادو نگری میں شب وروز کے طلسم کو شکست آشنا کیا۔ مگر یہ کون لوگ تھے؟ یہ اس زمین پر زمین کے بنائے نظاموں سے نہیں جڑے تھے، بلکہ اس زمین کو ہی بنانے والے کے آگے سجدہ ریز ہوئے تھے۔ اُنہوں نے انسانوں کے بنائے ہوئے سیاسی ، معاشرتی نظاموں کی تقدیس کی پروا نہیں کی۔ پھر وہ وقت کی جادو نگری کو پھلانگ گئے۔ اگر وہ اپنے زمانے سے آگے نہ نکل گئے ہوتے تو اُنہیں اُن کے بعد کے زمانوں میں کوئی اپنی اتباع کے لئے نہ چنتا۔ علماء اسی علم کے وارث ہیں۔ جن کی فضیلت میں اﷲ نے رسالت کی زبان سے کلام کر رکھا ہے۔ مگر کیوں وہ رسوا کیوں ہیں؟
علماء غور کریں، اور ممکن ہو تو اﷲ کے حضور توبہ بھی کہ اُن کی صفوں سے پست لوگ اوپر کیوں اُٹھتے ہیں۔ طاہر اشرفی اور مولانا شیرانی ایسے لوگ کیوں چمکتے ہیں؟ اﷲ کے نور سے دیکھنے والے مومنانہ فراست کے لوگ اُن کی اجتماعی سرگرمیوں میں گم کیوں رہتے ہیں؟ اجلی نثر لکھنے والے نوجوان علماء معاشرتی سطح پر اُن کی سرپرستی سے محروم کیوں رہتے ہیں؟فصاحت کی زبان گنگ اور بلاغت کے دریا خشک کردینے والے نوجوان علماء اُن کے اپنے درمیان بھی کوئی مقام بنانے سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اُن کے ذوقِ عبادت ، اُن کی ﷲیت، اُن کا خشوع وخضوع، اُن کی آخرِشب اﷲ کے آگے گریہ وزاری، اُن کی رقت آمیز دعائیں، اُن کی تحریک آمیز ادائیں، دنیا داری سے بچنے کے لئے اُن کے سلف کی بتائی ہوئی احتیاطیں، اُن کا تقویٰ اور اُن کا اپنے فیصلوں سے پہلے اﷲ سے رابطہ کہاں چلا گیا؟سیاست اور جمہوریت کی گھمن گھیریوں نے اُن سے یہ سب کچھ چھین لیا۔ اور بدلے میں کچھ رسوا کن مناصب پائے ہیں۔ جن کو بچانے کے لئے وہ دھتکاریں سہتے ہیں۔گھٹیا قسم کے لوگوں کے طعنے سنتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں جو کچھ ہوا ، وہ روزانہ کسی نہ کسی اسمبلی کا منظر ہوتا ہے۔ ہرروزسیاست دان یہی کام ٹیلی ویژن پر سب لوگوں کے سامنے کرر ہے ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کو گلاس مار دیتا ہے۔ کوئی اپنی برابر بیٹھی ہوئی خاتون کو رات کی کج ادائیاں یاد کراتا ہے۔ کوئی سیاست کے مجرے منکشف کرتا ہے۔ مغربی جامعات کے علوم کی درسگاہوں میں موجود لوگ کچھ مختلف تو نہیں۔ کیا ڈاکٹر ایک دوسرے کے گلے نہیں پکڑ لیتے؟ کیا اساتذہ ہرروز ایک نیا مسئلہ کھڑا نہیں کردیتے؟ ابھی ابھی ایک ویڈیو فیس بک پر گردش کررہی ہے جس میں پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ رقص کناں ہیں۔نابیناؤں نے لاہور میں احتجاج کیا تو وہ اپنے ساتھ نقصان پہنچانے والی چھڑیاں لے کر آئے تھے، جس کا اُنہوں نے استعمال بھی کیا۔ یہ ہمارے معاشرے کی مجموعی تصویر ہے جس میں پست بالا ہوگئے ہیں اور سر پرچڑھ کر بونے بولنے لگ گئے ۔ مگر سارا شور اسلامی نظریاتی کونسل کے ہنگامے پر اُٹھا ہوا ہے۔ آخر ہمارے معاشرے میں ہر سمت جاری اسی نوع کے مسلسل تماشے پر ایک مجموعی حساسیت کیوں نہیں؟یہ صرف طاہر اشرفی اور مولانا شیرانی کے جھگڑے تک محدود کیوں ہے؟ جو اصلاً کسی بھی طرح حقیقی علماء کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جواُن کے برابر تک بیٹھنے کے اہل نہیں۔ مگر علماء وہ طبقہ ہے جنہیں معاشرے کے مجموعی مزاج کی گنجائش دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علمائے کرام کو خود سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنی صفوں کو کیسے صاف کریں اور معیاری لوگوں کو کیسے اُبھاریں؟ علماء نجات پائیں! اپنے درمیان کے شیرانیوں اور طاہر اشرفیوں سے نجات پائیں۔ امام غزالیؒ نے داناؤں کی بات دہرائی ہے کہ انسانوں کے تین گروہوں میں تین عادتیں عجب ہیں: بادشاہوں کا غضب ناک ہونا ، علماء کا حریص ہو نا اور امیروں کا بخیل ہونا۔ یہ معاشرہ باقی دو کا بوجھ بھی اُٹھا لے گا اگر اُس کے علماء حرص سے اور مناصب کی کشش سے خود کو محفوظ کر لیں۔امام ابن تیمیہؒ نے یہ کر دکھا یا تھا۔ المک الناصر (حکمران) نے ایک مرتبہ اُن سے پوچھا کہ بہت سے لوگ آپ کے مطیع ہو گئے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے دل میں سلطنت پر قبضہ کرنے کا خیال ہے۔ امام نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ
’’میں ایسا کروں گا، خدا کی قسم تمہاری تو کیا تاتاریوں کی سلطنت بھی مل کر میری نگاہ میں ایک پیسے کے
برابر نہیں۔‘‘
علمائے کرام اپنے کردار کی طرف لوٹ آئیں! خدارا لوٹ آئیں!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...