وجود

... loading ...

وجود
وجود

طاقت کی کمزوری !

پیر 21 دسمبر 2015 طاقت کی کمزوری !

rangers-karachi

طاقت کی سب سے بڑی کمزوری اس کے اظہار سے ہوتی ہے۔ اس کا استعمال اُس سے وابستہ خوف کو دھیرے دھیرے ختم کر دیتا ہے۔ اور طاقت کی طاقت خوف کے اندر ہوتی ہے، اُس سے باہر نہیں۔ دنیا بھر میں فوج کا روایتی طاقت کا تصور شہ مات کے مرحلے میں ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں کا فروغ اور غیر روایتی اور غیر ریاستی طاقتور گروہوں کا ظہوراور فروغ دراصل یہ بات واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ ریاستی سطح پر فوجی طاقت کے نمونے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو رہے۔ اس معاملے کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ نمونہ ریاستی دائرے میں بھی اپنی اثر پزیری کو کھونے لگا ہے۔ عالمی سطح پر اس کے اسباب بہت مختلف ہیں اور پاکستان میں یہ موضوع الگ محرکات کا حامل ہے۔

پاکستان میں ریاستی بُنت کو طاقت کی نہاد پر اُٹھایا گیا ہے۔ چنانچہ یہاں طاقت کا استعمال(جائز وناجائز کی بحث سے قطع نظر) اس قدر برہنہ طریقے سے ہوا ہے کہ اس کا خوف اب بزدل سے بزدل لوگوں کے دلوں سے بھی نکل گیا ہے۔ تھپڑ کا خوف اس کے مارنے سے پہلے ہوتا ہے ، اگر وہ کسی رخسار پر جڑ دیا جائے تو پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاں یہ تھپڑ کھایا جاسکتا ہے۔ بس تب سے جس معاملے میں تھپڑ پڑتی ہے وہ معاملہ کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے ریاستی کی آئینی طاقت بھی جُرم روکنے کے لئے جتنی کارگر ہو سکتی ہے اُتنی ہی یہ جُرم کے فروغ میں معاون بھی ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ماجرا یہی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امن وامان کی بحالی اور نفاذِ قانون کے بجائے مقبولیت کی جنگ اور سیاسی اہداف کے جھمیلوں میں پڑجاتے ہیں۔ اور اپنے اصل دائرے کی محدودات پر غور نہیں کرتے

پاکستان میں ان دنوں قانون نافذ کرنے والے ادارے تصورات کی سطح پر نہایت کمزوردور سے گزررہے ہیں۔ اُن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ اور اُن سے اُمیدیں تو اس سے بھی زیادہ وابستہ کر لی گئی ہیں۔ مگر وہ بعض بنیادی نوعیت کے مغالطوں سے دوچار ہو چکے ہیں۔ جس کے باعث اُنہیں اُن سے زیادہ کمزور لوگ شکست سے دوچار کر رہے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا جاجاچکا کہ سرجن مریض کے آپریشن میں اگر تاخیر کا شکار ہو جائے تو پہلا تاثر اُس کی ناکامی کا پڑتا ہے۔ میکاؤلی کوئی مثال نہیں مگر قابلِ ذکر ضرور ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں لکھتا ہے کہ اگر سزا اور سختی کرناناگزیر ہو تو یہ فوراً اور تیز رفتاری سے کرناچاہیے جبکہ کرم فرمائی دھیرے دھیرے کرناچاہیے۔میکاؤلی کی پوری کتاب سختی کے جوہری نکتے کے گرد ایک بنیادی تصورِ حکمرانی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ مگر کتاب کا سترہواں باب اسی کی پوری وضاحت کرتا ہے۔میکاؤلی نہیں ہمارے لئے ایک شانداراور اصل مثال امام غزالیؒ کی’’ نصیحتہ الملوک‘‘ ہے۔ جس میں ریاست میں ظلم کے خاتمے اور قیام ِ انصاف کی پوری تشریح کی گئی ہے۔ وہ قلم اور تلوار کی اہمیت کے الگ الگ ادوار کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں ۔ اور غیر محسوس طور پر ظلم کی سزاؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ مگر اس کی بنیاد تصورِ انصاف پر اُٹھاتے ہیں۔

سندھ میں رینجرز کی مدتِ قیام اور اُس کے اختیارت میں توسیع کا معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے کوئی خوش ذائقہ معاملہ نہیں رہا۔ رینجرز کو اس صورتِ حال سے کیوں دوچار ہونا پڑا؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امن وامان کی بحالی اور نفاذِ قانون کے بجائے مقبولیت کی جنگ اور سیاسی اہداف کے جھمیلوں میں پڑجاتے ہیں۔ اور اپنے اصل دائرے کی محدودات پر غور نہیں کرتے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن کا کام سرجن کا ہے، اسپتال کے انتظام کا نہیں۔ اُنہیں سختی اور طاقت کے استعمال میں اس اُصول کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ اس میں وہ جتنا طول دیں گے، اپنے بھرم کو خود اپنے ہاتھوں سے کھونے کا باعث بنیں گے۔ ہر ضدِ نامیہ (اینٹی بائیوٹک) کا یہ مسئلہ ہے کہ جب بھی اس کا استعمال مریض پر ہوتا ہے اور اُسے افاقہ ہوتا ہے تو اگلی بار پہلی والی مقدار کی دوا کارگر نہیں ہوتی ۔ مرض کا بیکٹریا اُس اینٹی بائیوٹک کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔ کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں فوجی طاقت کے معاملے میں یہ مثال موثر طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ دہشت گرد وں نے پہلے پولیس کا خوف دل سے نکالا۔ پھر رینجرز اور ایف سی کا اور اب وہ فوج سے بھی نبرز آزما ہے۔ فوج کو مستقل طاقت آزما رکھنا ریاست کے لئے کوئی جانداز اور موثر حکمتِ عملی نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مقبولیت کی جنگ نہیں لڑ رہے وہ نفاذِ قانون کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اُنہیں اس کے تقاضے پورے کرنے ہیں ، سیاست کے نہیں۔

سیاسی قیادت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اسی کج ادا تصور کے باعث رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر اِنہیں تھکا تھکا کر پیچھے دھکیلاہے۔ اور اب تمام سیاسی جماعتیں دھیرے دھیرے اُن پر برتری حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں یہی ہوا۔ قانونی طاقت کا فوری استعمال اور اس کا فوری نتیجہ رینجرز کی توقیر میں اضافے کا باعث بنتا مگر سرجن نے مریض کو آپریشن ٹھیٹر میں لٹا کر تاخیر کردی تو مریض سے موت والی ہمدردی پید اہوگئی۔ اور آپریشن سے ناکامی والی بیزاری نے جنم لیا۔ آصف علی زرداری کواسی تاخیر کے باعث یہ موقع ملاکہ رینجرز ڈاکٹر عاصم کو شاہی گواہ (crown witness)بنانے کے لئے جس نرمی اور تاخیر کا مظاہرہ کررہی تھی ، اُسی کا فائدہ اُٹھا کر ڈاکٹر عاصم کو ہی مظلوم اور اس پورے عمل کو ظالم ثابت کردے۔ ڈاکٹر عاصم کے ذریعے عدالت میں یہی کیا گیا۔ اور اُس کے نفسیاتی اثر میں رینجرز کے اختیارات کے مسئلے کو الجھا دیا گیا۔ ایم کیو ایم نے بھی اسی حکمت عملی کو اختیار کیا۔ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات چیت کے لئے وسیم اختر کا نام بطور میئر آگے بڑھا رہی تھی مگر جب قانون نافذ کرنے والے ادارے رینجرز کے مسئلے میں مسلسل گریہ کناں نظر آئے تو اُنہوں نے بھی اپنے کان بند کرلئے اور وسیم اختر کو ہی میئر نامزد کر دیا۔ اب وسیم اختر سے قانون کی دست درازی ایک نامزد میئر کے خلاف نظر آئے گی۔

طاقت ور اداروں کی پوری تاریخ یہی ہے کہ وہ پہلے کسی شخص کو الزامات کے سائے میں زندہ رکھ کر اتنا بڑا ہونے دیتی ہے کہ اُس کے خلاف قانون کی تحریک دراصل سیاسی اہداف کی بازی گری لگنے لگتی ہے اور پھر اس میں خاموشی اُن کی پسپائی لگنے لگتی ہے۔ باکسنگ کی مشق میں ایک لڑائی ’’شیڈو فائٹنگ‘‘ کی بھی ہوتی ہے۔ جس میں باکسر اپنی حرکات کو درست کرنے کے لئے خود اپنے ہی سائے سے لڑتا ہے۔ رینجرز کے اختیارات میں تو سیع کے معاملے میں بس یہی’’ شیڈو فائٹنگ‘‘ جاری ہے۔ مگر اس میں باکسر فوج نہیں سیاست دان ہیں ۔جنہوں نے اس مسئلے پر اپنی طاقت کی حرکات کو درست اور سیاسی حرکیات کو اپنے فائدے میں لانے کے لئے کچھ مشقیں کی ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے طاقت کی طاقت کو کھودیا ہے جو خوف کے اندر ہے۔ اور جو تب ہی برقرار رہتی ہے جب وہ مختصر وقت کے لئے تیزرفتاری سے استعمال ہو!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

اداروں پر حملہ برداشت نہیں کرینگے، آصف زرداری وجود - هفته 05 نومبر 2022

سابق صدر آصف علی زرداری نے چیئرمین تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص ملک میں انتشار چاہتا ہے لیکن ہم اداروں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک شخص ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ہر لائن عبور کر رہا ہے، اس شخ...

اداروں پر حملہ برداشت نہیں کرینگے، آصف زرداری

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ وجود - جمعه 04 نومبر 2022

کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی وجود - بدھ 05 اکتوبر 2022

کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری وجود - پیر 19 ستمبر 2022

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا وجود - پیر 19 ستمبر 2022

بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر