وجود

... loading ...

وجود
وجود

سلطان

جمعرات 12 نومبر 2015 سلطان

tipu sultan

علامہ اقبال جنہیں مردِ کامل کہتے ہیں، وہ اُن میں سے ایک تھا ۔ شاید وہی ایک!اقبال ؒ سال ۱۹۲۹ء میں ایک روز شہید کی قبر پر حاضر ہوئے اور تین گھنٹے وہی رہے، جب باہر آئے تو شدتِ جذبات سے اُن کی آنکھیں سرخ تھیں۔ فرمایا:

’’ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔‘‘

تاریخ میں دائم وہ ایک لہکتے استعارے کی طرح زندہ رہے گا۔ جس نے زندگی جینے کا ہنر مرتے ہوئے بھی سکھایا۔ یہی عروجِ آدمِ خاکی تھا جس سے انجم سہمے جاتے ہیں۔ جب ٹوٹا ہوا تارہ مہ ِ کامل بنتا ہے۔ ٹیپو برصغیر کے ٹوٹے ہوئے تاروں میں سے ایک تھا جو مہ کامل بن کر اُبھرا ۔ انسانیت کے لئے چودہویں کا چاند بن کر چمکا۔اُس کی زندگی میں کہاں ممکن تھا کہ انگریز اپنا حقِ اقتدار برصغیر پر جتلاتے۔ تاریخ میں انگریز استعمار کے مقابل سب سے پہلی توانا آواز ٹیپو سلطان کی تھی کہ

’’ہندوستان ، ہندوستانیوں کے لئے ہے۔ ‘‘

انگریز جانتے تھے کہ ٹیپو کے اِ ن الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ چنانچہ اُن کی زندگی میں وہ ہندوستان پر قبضے کا خواب لئے پھرتے رہے۔یہ شہید کی لاش تھی جس پر فرطِ مسرت سے جنرل ہارس اِٹھلایا تھا:

’’آج ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘

شہید کی زندگی میں یہ ممکن نہ تھا، ممکن ہی نہ تھا۔تب ہی تو کلکتہ میں ہی انگریزوں نے جشن مسرت کا اہتمام نہ کیا تھا، بلکہ انگلستان بھر میں اس کی خوشیاں منائی گئی۔ کلکتہ کے انگریز منصفِ اعلیٰ (؟) سر جان اینس ٹروتھر کے الفاظ تاریخ نے محفوظ کر لئے:

’’ٹیپو کی طاقت ہی ہماری فوجوں کو شکست دینے کے لئے کافی تھی۔اس کے مرتے ہی ہندوستان میں ہمارا
قبضہ ہمیشہ کے لئے ہوگیا ‘‘

کیا ایک شخص کی زندگی تاریخ پر اتنا فرق ڈالتی ہے کہ پوری تاریخ اُس کے رحم وکرم پر ہو۔ زمانے کی پوری روح اس میں بولتی ہو، وقت کا پورا بہاؤ وہ تھامے رکھتا ہو؟افسوس اس شخص کا کبھی پورا مطالعہ نہیں کیا گیا جسے رہتی دنیا تک تاریخ کے رومان میں زندہ رہنا ہے۔ سلطان نے صرف اڑتالیس برس کی عمر پائی۔ اور سلطنت ِ میسور پر سترہ بر س حکمرانی کی۔اُنہیں سلطنت کی ذمہ داری ۷؍ دسمبر ۱۷۸۲ء کو حیدر علی کی موت کے بعد اُٹھانا پریں۔ اور وہ ۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کو شہید کئے گئے۔ ان سترہ برسوں میں انگریز اُن سے مسلسل نبرد آزما رہے۔وہ ان جنگوں میں دادِ شجاعت دیتے دیتے سلطنت میسور کو ایک ریاستی آہنگ دینے میں مصروف رہے۔ چنانچہ وہ جنگ کی جاں لیوا مصروفیات میں بھی ملکی صنعت وحرفت پر توجہ دیتے رہے۔ سلطان سمجھتے تھے کہ اگر ہندوستان محتاج بنا تو پھر وہ غیر ملکیوں کی تحویل میں چلا جائے گا۔ جعلی شیروں کی پر فریب او ردست ِ نگر معیشت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے نہیں جانتے کہ شیر میسور نے راز پالیا تھا کہ ’’محتاجوں کا اقتدارِ اعلیٰ بھی اُن کی معیشت کی طرح پرفریب ہوتا ہے۔ ‘‘ سلطان نے بین المذاہب ہی نہیں بین الاقوام ہم آہنگی کی بھی کوششیں کی ۔ مگر انگریز سلطان کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ ہندوستان پر اپنے مکمل قبضے کے لئے سلطان کو رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اگر تاریخ اس کردار کی حفاظت کرتی اور اُنہیں غداروں کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو آج برصغیر کا دھار ا مختلف رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ سلطان کی زندگی کو دیکھ کر یہ بات جتنے اعتماد سے ان کے لئے کہی جاسکتی ہے اور کسی کے لئے نہیں کہی جا سکتی۔

سلطان کا یوم وفات برصغیر کی مسلم تاریخ کا حقیقی روزِ ماتم ہے۔ ۴؍ مئی کو جب سلطان کو اطلاع ملی کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہوگئے تو اُنہوں نے کہا :

’’مجاہد موت سے نہیں ڈرتے، سید غفار بھی کبھی موت سے نہیں ڈرا۔‘‘

پھر سچے مجاہد نے نوالہ وہیں چھوڑا اور کھڑے ہوگئے۔ تب سلطان نے غدار امرا ء ووزراء پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہ

’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں
محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسے گی۔‘‘

پھرمجاہد سلطان نے تلوار سنبھالی اور آگے بڑھ گئے۔ننگ ملت ، ننگِ دیں ، ننگ وطن میر صادق نے تب قلعے کا دروازہ بند کردیا کہ مبادا مجاہد سلطان واپس محفوظ قلعے کی طرف پلٹ نہ آئیں۔وہ ایک ہاتھ سے مجاہد سلطان کے آگے آداب بجا لاتا رہا اور دوسرے ہاتھ سے انگریزوں کو اشارے کرکے ایک ایک جگہہ اُن کے حوالے کرتا رہا۔سلطان کی شہادت کے بعد اُن کی تدفین کا منظر بھی تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ بجلیوں کی کڑک اور بارش میں جب اُنہیں قبر میں اُتارا جارہا تھا تو مسلمان زاروقطار روتے رہے۔ اُن کے آنسو بارش کے صاف پانی میں ملتے رہے ،انگریز ابوالفتح ٹیپوسلطان کی شہادت پر اپنا سرفخر سے بلند کئے ہوئے تھے مگر تب وہ آنسو ایک تاریخی حقیقت کو ظاہر کرتے تھے کہ’’ اِس شیر کو ہم نے مارا ہے ، اِسے تم کہاں مارسکتے تھے۔ ‘‘مگر یہ آواز بجلی کی کڑک میں کہیں گم رہی ۔ آنسوؤ ں میں بھیگی بھیگی رہی۔

’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسے گی۔‘‘(ٹیپو سلطان)

میر صادق کے اہداف کچھ اور رہے ہوں گے، مگر تب ہندو انگریزوں کا ساتھ اس لئے دے رہے تھے کہ وہ سلطنت کا خاتمہ کر کے یہاں ایک بار پھر ہندو راج کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ہندوؤ ں نے سلطان سے قبل حیدر علی کی موت سے بھی پہلے ۲۸؍ اکتوبر ۱۷۸۲ء کو میسور میں ہندوراج قائم کرنے کے لئے انگریزوں سے ایک تحریری معاہد ہ کیا تھا۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش میں تب وہ ہندو جو سلطنت میں حسنِ سلوک کے ساتھ اعلیٰ مناصب پر فائز کئے گئے، غداری کے مرتکب ہوئے۔ ایک طرف میر صادق ، معین الدین اور میر قاسم علی جیسے کردار تھے تو دوسری طرف پورنیا نامی مخلوق بھی تھی۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے عین جنگ کے موقع پر سپاہیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ آکر اپنی تنخواہیں لے لیں ۔ اس طرح سپاہیوں سے چوکیاں خالی کراکے انگریزوں کو تھما دی گئیں ۔ ہندوراج کی دیرینہ خواہش نے ان انتہا پسند ہندوؤں کو ہندوستان کے مفادات کے خلاف انگریزوں کا طفیلی بنا کررکھ دیا۔ مگر یہ انتہا پسند صرف مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت پالتے رہے۔

گزشتہ روز یوم ٹیپو سلطان پر جب کرناٹک میں سرکاری جشن منایا جارہا تھا تو ہندو انتہا پسند ایک بار پھر باہر نکلے۔ اور مسلمانوں کی ریلی پر حملہ کردیا۔ بی جے پی اور وشواہندو پریشد کے انتہا پسندوں نے ٹیپو سلطان کے یوم ولادت کو سرکاری طور پر منانے کی مخالفت کی مگر ریاست کے وزیراعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ ٹیپو سلطان ہندوؤں کے مخالف تھے۔ اُنہوں نے اپنے پورے دورِ حکومت میں مندروں کی حفاظت کی۔ نریندر مودی کو شاید معلوم نہ ہو کہ جب سلطان شہید کی لاش کو اُٹھایا جارہا تھا تو اُن کے لئے جان دینے والوں میں ایک ہندو لڑکی بھی تھی۔ جو اُنہیں اپنی زندگی کا بہتر محافظ سمجھتی تھی۔

چودہویں کے اس چمکتے چاندکو ہماری نحوستوں کی تاریکیوں نے چاٹ لیا۔ اقبالؒ اُن کی قبر پر روئے تھے۔ تاریخ بھی اُن کے لئے دائم گریہ کرے گی۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر