وجود

... loading ...

وجود
وجود

جمہوریت کی ڈُگڈُگی

جمعرات 05 نومبر 2015 جمہوریت کی ڈُگڈُگی

parliament

وہ نظام کبھی فلاح انسانیت کا مکمل ضامن نہیں ہو سکتا جو مختلف علاقوں میں جا کر اپنا بھیس بدل لیتا ہو، اپنے اطلاقی احکامات میں تبدیل ہو جاتا ہو، اور اپنے نتائج میں بالکل مختلف بن جاتا ہو۔ جمہوریت ایک ایسی ہی طرزِ حکومت ہے جو پہلی دوسری اور تیسری دنیا میں اپنے الگ الگ چہرے اور مختلف نتائج پیدا کرتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اسی جعلی جمہوریت کو سمجھنے کا ایک بہترین موقع بن کر سامنے آیا ہے۔

پاکستانی سیاست و صحافت ناقابل عمل وعدوں کی ڈگڈی سے بجتی اور جعلی امیدوں پر زندگی کرتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے پیدا ہونے والے اصل سوالات کو اہلِ سیاست وصحافت سلسلۂ عمل اور تدریج (پراسیس) کی بحثوں میں گم کردیتے ہیں۔ جمہوریت کے ساتھ ایک جعلی رومان ارتقا کی ایک ایسی آکاس بیل سے جڑا ہے جس کے پھلنے پھولنے کا کوئی بھی نتیجہ کسی پھل پھول سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود ایک تکرار سے یقین میں فروغ پاچکا ہے۔صحافت بلدیاتی انتخابات میں اس یقین کی شہادتیں ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہے مگر وہ جعلی مباحث پیدا کرنے میں مکمل کامیاب ہے۔ اہلِ صحافت نے بلدیاتی انتخابات میں جس بحث کو سب سے زیادہ فروغ دیا ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں باقی جماعتوں کا صفایا کردیا ہے اور مسلم لیگ نون نے پنجاب میں تحریک انصاف پر ایک زبردست جھاڑو پھیر دی ہے۔ ہماری لفظیات ہماری اندرونی خواہشات سے جنم لیتی ہے جو معروضیت کے کسی صحافتی دعوے کو بطور دعویٰ بھی باقی نہیں رہنے دیتی۔ مگر اس سے قطع نظر کیا عملاً ہمارا قومی منظرنامہ بھی ایسا ہی ہے، کیا جن جماعتوں پر انتخابات میں جھاڑو پھر گئی ہے ،وہ قومی سیاست سے بھی صاف ہو چکی ہیں ، اور وہ اجتماعی زندگی پر کسی نوع کا اثر پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مگر جمہوری نظام میں انتخابات کو بنیادی پیمانہ سمجھ کر یہ قیاس کر لیا جاتا ہے۔ اور اس قیاس سے بھانت بھانت کے مفروضے بھی پیدا کر لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں انتخابات کا مقیاس بجائے خود کوئی مکمل اور بے عیب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ اسے مگرمغربی نظام میں اب تک کا ایک قابلِ انحصار ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جسے عیب دار ہونے کے باوجود محض اس لیے گوارا کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی بہتر متبادل انسانی ذہن کے رسا تصورات میں اب تک آ نہیں سکا۔ اسی لیے جمہوریت میں انتخابات کے ذریعے جیت کو اخلاقی فتح وشکست کے تصورات میں خود مغرب باندھ کر پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں جو اہلِ سیاست و صحافت اس پر اُچھل کو د کر رہے ہیں ، وہ جمہوریت کے بارے میں اس حقیقی بحث کی ٹھوس علمی بنیادوں سے ذرا آگاہی پیدا کرنے کی زحمت اُٹھائیں۔

اب اس بحث کا ایک دوسرا مگر عملی پہلو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات یا مقامی حکومتوں کا تصور جس بنیادی نکتے پر کھڑا ہے وہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طاقت کی پیاس اور تلاش ہر جگہ، ہر شعبے اور ہر شخص میں موجود ہے۔ صدیوں کی مختلف النوع غلامیوں اور برسوں کی ناکامیوں نے ہمارے اجتماعی رویوں کی ساخت اور نفسیاتی بناوٹ کچھ اس طرح کی ہے کہ طاقت کا ارتکاز ہمارے مزاج میں رچ بس چکا ہے۔ چنانچہ یہاں ایک فوجی آمر جتنا اختیارات کو اپنی ذات کے گرد رکھتا ہے ، اُس سے کہیں زیادہ ایک جمہوری حکمران بھی اختیارات کو اپنے گرد رکھنا چاہتا ہے۔اس باب میں طرزِ حکومت کے اختلاف کے باوجود حقیقت یکساں ہے۔ سیاسی جماعتیں ان کے گھر کی باندیاں ہوتی ہیں۔ ایک وزیراعظم اپنی کابینہ کو مکمل اختیارات نہیں دینا چاہتا ۔ اور ایک وزیر اپنی وزارت میں اختیارات میں شراکت دینے کو تیار نہیں ۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تو حکمرانی کا جو معیار متعارف کرایا ہے، جعلی جائزوں کو ایک طرف رکھئے ، سیاسیات کے طالب علموں کے لیے یہ آمروں سے زیادہ آمر بننے کی حقیقی بحث کی ایک جامع مثال سے بھی بہت بڑھ کر ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کوئی تسلی بخش عمل اس آمریت پسند جمہوری سیاسی کھیپ کی موجودگی میں ممکن ہے۔ چنانچہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی یہ حقیقت عریاں ہو کر سامنے آگئی کہ اس میں شرکت کرنے والے عناصر معاشرے کے کن طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ؟ذرائع ابلاغ کے لیے تو یہ ایک گنتی کا موضوع ہے کہ مسلم لیگ نون نے کتنی نشستیں حاصل کیں اور پیپلز پارٹی نے کتنی نشستوں پر ہاتھ صاف کئے۔ مگر اصل موضوع یہ ہے کہ ان انتخابات میں کس طرح کے لوگ اوپر آئے؟ اور ان سیاسی جماعتوں نے کس طرح کے امیدواروں کو آگے بڑھایا؟ اگر اس سوال پر غور کیا جائے تو بلاامتیاز ہارنے اور جیتنے والی تمام جماعتیں ہار جیت کے بغیرایک ہی طرح کا ذہن رکھتی ہیں اور ایک ہی طرح بروئے کار آتی ہیں۔ ان کے نزدیک افراد کے انتخاب کا معیار یہ نہیں ہے کہ یہ معاشرے کے کتنے بہتر لوگ ہیں ، بلکہ یہ ہے کہ یہ کتنے بااثر ہیں۔ مسلم لیگ نون ان سب جماعتوں پر بازی لے گئی اُس نے ایک ایسے امیدا وار کو نامز دکیا جو انتخابی عمل کے دوران بھی جیل میں تھا۔ اُس سے زیادہ بااثر شخص کون ہو سکتا ہے جو جیل میں رہ کر بھی انتخاب جیت سکتا ہو؟ باقی رہے اخلاقی معیارات اورمعاشرے میں شرف کے طور پر اہلیت کے تعین کا کوئی ضابطہ ، قاعدہ ۔تو ان سب کو بھاڑ میں جھونکیں۔

سروے کرنے والے ادارے اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ یہ جانچیں کہ امیدواروں کے انتخاب میں سیاسی جماعتوں نے اپنے پیش نظر اہلیت کے کیا معیار رکھے ؟

بدقسمتی دیکھیے کہ جمہوریت کا سارا لین دین (ٹرانزیکشن) بلدیاتی کھاتے سے ہوتا ہے۔ مگر بلدیاتی انتخابات میں کس طرح کے لوگوں کو اُبھارا جارہا ہے؟ سروے کرنے والے ادارے اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ وہ یہ جانچیں کہ امیدواروں کے انتخاب میں سیاسی جماعتوں نے اپنے پیش نظر اہلیت کے کیا معیار رکھے ؟ امیدوار زندگی کے کن شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں؟ ایک محتاط جائزے کے مطابق لاہور میں جو امید وار سب سے زیادہ اُبھر کر سامنے آئے، اُن میں زیادہ تر املاک وجائیداد (رئیل اسٹیٹ) کے کاروبار سے وابستگان کی ہیں۔ ان امیدواروں میں بیشتر صوبائی اور قومی سطح کی سیاست میں حصہ لینے والے خاندانوں کے ہی ’’معززین‘‘، متعلقین ، مقربین ، موافقین، معاونین اور مصاحبین پر مشتمل ہیں۔ اس طرح یہ سیاسی اشرافیہ کی اگلی منتظر نسل کا ہی انتخاب ہے۔ ان انتخابات سے یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ اختیارات کسی نچلی سطح پر منتقل ہو سکیں گے یا پھر ان اختیارات میں کسی طرح بھی ایک عام آدمی کی شراکت ہو سکتی ہے؟

یاد دکھنے والا نکتہ صرف ایک ہے ۔مسلم لیگ نون، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی یا کوئی بھی چوتھی پانچویں جماعت ہو، پاکستان کی سیاست و معیشت اشرافی (ایلیٹ کلاس) سیاست ومعیشت ہے۔ بارات ِ جمہوریت کی تمام مشقیں، منزلیں اور سوغاتیں ان کے لیے یا ان کے درمیان ہوتی ہیں۔ جس میں عوام شامل باجہ ہوتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات بھی اِسی اشرافی درجے کے لوگوں کی ایک نچلی سطح کی عیاشی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ،باقی سب تصورات ہیں۔ جس میں بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی ڈگڈگی کے طور پر جتنا چاہیں بجا لیجیے!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

سوویت یونین کی طرح ایک دن بھارت بھی ٹوٹ جائے گا، ارون دھتی رائے وجود - منگل 15 فروری 2022

معروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ یوگو سلاویہ اور سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ایک دن ٹوٹ جائے گا۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ارون دھتی رائے نے ایک انٹرویو میں بھارت کی موجودہ صورتحال کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے بھارت میں جمہوریت کو ایک دکھاوا قرار دیا۔انہوں نے ک...

سوویت یونین کی طرح ایک دن بھارت بھی ٹوٹ جائے گا، ارون دھتی رائے

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

بھارت میں ہندوتوا کے خلاف رائے کو غداری سے جوڑا جاتا ہے، فرانسیسی مصنف کا انکشاف وجود - جمعه 01 اکتوبر 2021

فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفرلاٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند قوم پرست سیلف سنسر شپ کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو مْلک و قوم دْشمنی اور غداری سے جوڑا جاتا ہے۔ مغربی دْنیا بھارت میں دم توڑتی جمہوریت پر خاموش کیوں؟ کنگز...

بھارت میں ہندوتوا کے خلاف رائے کو غداری سے جوڑا جاتا ہے، فرانسیسی مصنف کا انکشاف

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر