وجود

... loading ...

وجود
وجود

مورچہ

اتوار 06 ستمبر 2015 مورچہ

Urdu

زبان کسی بھی تہذیب کا پہلا مورچہ ہے۔اردو محض زبان نہیں۔ اسی کے دم سے برصغیر میں مسلمانوں کے نظریاتی اور ثقافتی وجود کی ترتیب وتہذیب ہوئی۔یہ ہماری قومی خودی کا ایک قلعہ ہی نہیں ہماری اجتماعیت کو باندھے رکھنے کی ایک رسّی بھی ہے۔

تحریک ِ پاکستان میں اردو زبان کے مسئلے کو ایک بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’اردو ہندی تنازع‘‘ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سب سے پہلے شکوک پیدا کئے تھے۔ یہ بات کسی اور نے نہیں تقسیم کے سب سے بڑے مخالف گاندھی نے کہی تھی کہ ’’یہ زبان صرف مسلمانوں کی ہے کیونکہ یہ قرآن کے حرفوں میں لکھی جاتی ہے۔‘‘اس سے قبل یوپی اور بعض دیگر علاقوں میں ہندی کے فروغ کی تحریک اُٹھائی گئی۔ یہ ۱۸۵۷کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔انگریز حوصلہ افزائی کررہے تھے جب پنجاب میں اردو کے اثرات کم کرنے کے لئے آریا سماج تحریک اُٹھی۔انگریز کی سیاسی حکمتِ عملی کا ایک اثر یہ پڑا کہ خود ہندوؤں کا وہ طبقہ جو اردو سے محبت کرتا تھااچانک ہندی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔سر سید احمد خان جب اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندو مسلم کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ دو قومیں ہیں تو اس کے پیچھے اس لسانی اختلاف کا پس منظر بھی تھا۔

تقسیم سے قبل مسلمانوں کایہ خوف غلط نہیں تھا کہ انگریزوں کی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت اور ہندو تعصب میں اُن پر ہندی زبان مسلط کردی جائیگی۔چنانچہ مسلم وفد نے شملہ میں وائسراے ہند ارل آف منٹو(۱۹۰۵ تا ۱۹۱۰)سے ۱۹۰۶ میں ملاقات کرتے ہوئے جب اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی تو اس میں سب سے پہلا مطالبہ اردو کے تحفظ کا تھا۔ اردو زبان پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہندوؤں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ہندو ادیبوں کی ایسی مہم ۱۹۳۵ میں ناکام ہوئی۔بعد ازاں واردھا اسکیم بھی اِسی تاثر سے آلودہ تھی۔تب بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق خود اگلے مورچے پر کھڑے ہوگئے۔رفتہ رفتہ اردو کا تحفظ مسلمانوں کا ایک قومی مطالبہ بن گیا تھا بآلاخر اِسے مسلم لیگ نے اپنے مطالبات کی فہرست میں بھی شامل کرلیا۔تاریخ کا یہ سفر طے کرتے ہوئے اردو نے آزادمملکت پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ حاصل کیا۔ اپنے تاریخی تناظر میں اردو ایک پاکستانی ذہن کی آئینہ دار زبا ن ہے ۔ اس زبان کی حفاظت پاکستانیت کی حفاظت کے مترادف ہے۔ اردو نے قیام ِ پاکستان کے بعد کسی بھی سرکاری حمایت کے بغیر اپنے دامن کو وسیع کیا اور فروغ پزیر رہی۔ یہ اس زبان کے اندر موجود وسیع تر امکانات کا ایک بیّن ثبوت ہے۔

اردو زبان کو آج بھی ایک طبقہ قومی زبان کے طور پر پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ اُن کے پاس جدیدیت اور ترقی کے نام پر نہایت دقیانوسی قسم کی کج بحثیں ہیں۔ وہ انگریزی کو ترقی کی زبان اور معلومات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایسا سوچتے ہوئے وہ صرف اردو اور انگریزی کے تعلق کے قیدی بن جاتے ہیں۔ اور زبانوں کی تاریخ ونفسیات میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔اُن کے تمام دلائل کی نہاد میں بات صرف اتنی ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے اور اب ساری دنیا انگریزی بولتی ہے۔ اور بس یہی علم کی زبان ہے۔یہ اوپر سے نیچے تک ایک باطل تصور ہے ۔برسبیلِ تذکرہ!اس طبقے کو ذرا تولا اور ٹٹولا جائے تو یہ تاریخ ونظریۂ پاکستان کے حوالے سے بھی ایک مختلف الرائے جتھہ نظر آتا ہے۔یہ ان میں کوئی حادثاتی اتفاق نہیں ہے۔

پہلے اس عمومی دعوے کاایک جائزہ لے لیجئے کہ ساری دنیا انگریزی بولتی ہے۔سیموئیل پی ہنٹنگٹن کا ایک مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم ‘‘ ۱۹۹۳ کے موسمِ گرما میں شائع ہوا۔ بعدا زاں یہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتابی شکل میں چھپا اورعالمی سطح پر ایک بحث کا عنوان بن گیا ۔ مصنف نے تین عشروں سے زائد عرصے پر محیط یعنی ۱۹۵۸ سے ۱۹۹۲ تک کی دستیاب معلومات کے حیرت انگیز نتائج کو مرتب کرکے اُن تمام تصورات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے جو’’ انگریزی‘‘زبان کے حوالے سے چند طفیلی دانشوروں میں پائے جاتے ہیں۔مصنف کے مطابق اس عرصے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور جاپانی بولنے والوں کے تناسب میں نمایاں کمی آئی۔ ان تمام زبانوں کی بہ نسبت چینی زبان مینڈارین بولنے والوں میں کمی نسبتاً کم دیکھنے میں آئی۔ اس کے برعکس ملائی، انڈونیشیائی، عربی،بنگالی، اسپینی، پرتگالی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ہنٹنگٹن نے ایک دنیا کو اعدادوشمار سے حیران کیا کہ دنیا میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد ۱۹۵۸تک کچھ یوں تھی کہ دس لاکھ افراد کے مجموعے میں انگریزی بولنے والے ۸ء۹ فیصد تھے جو ۱۹۹۲ تک گر کر ۶ء۷ فیصد رہ گئے۔ہنٹنگٹن کے اعداد وشمار کے مطابق انگریزی فرانسیسی، جرمن، پرتگالی اور اسپینی بولنے والوں کی تعداد ۱۹۵۸ میں دنیا کی کل آبادی کا ۱ء۲۴ فیصد تھی جو ۱۹۹۲ میں کم ہوکر ۸ء۲۰ فیصد رہ گئی۔۱۹۹۲ میں انگریزی بولنے والوں کے مقابلے میں تقریباً دُگنی آبادی، یعنی عالمی آبادی کا ۲ء۱۵ فیصد، مینڈارین بولتی تھی۔ان کے علاوہ مزید ۶ء۳ فیصد چینی زبان کی دوسری شکلیں استعمال کرتے تھے۔ہنٹنگٹن یہاں آکر اتنا تو تسلیم کرتا ہے کہ

’’ایک مفہوم میں جو زبان (مراد انگریزی) دنیا کے بانوے (۹۲) فیصد لوگوں کے لئے اجنبی ہو وہ عالمی زبان نہیں ہو سکتی۔‘‘

مصنف آگے جاکر اپنی مرضی کا کلہاڑا چلاتا ہے اور پھر اس صورتِ حال میں بھی انگریزی کی برتری کے ناقابلِ قیاس تصورات باندھتاہے جو مختلف لسانی گروہوں اور ثقافتوں سے منسلک افراد کے تال میل میں بطور رابطہ انگریزی زبان کے استعمال کی صورتوں سے متعلق ہیں۔ یہاں امر واقعہ کے طور پر صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ مختلف لسانی گروہ یا ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازی طور پر رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے مقابل پنپ رہی ہیں۔دنیا کی بناؤٹ ہی کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں چیزیں حریفانہ اور رقیبانہ روابط میں آباد یا برباد ہوتی ہیں۔ اس صورت میں انگریزی زبان غیر جانبدار رہ کر مختلف لسانی گروہوں اور ثقافتوں کے مابین رابطے کے فرائض بجالانے کے بھی قابل نہیں رہ گئی اور اس کا یہ کردار بتدریج سکڑ رہا ہے۔مثلاً ۱۹۹۲ کے بعد مینڈارین زبان کی طرف متوجہ ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد غیر چینیوں کی بھی ہے۔ پھر معاشی طور پر چین کے مسلسل مائل بہ عروج ہونے کے بعد یہ ایک ایسے ملک کا نمونہ بن چکا ہے جس کے معاشی مقاصد اب اُس کے موجودہ سیاسی کردار کے برتن سے چھلکتے جارہے ہیں ۔ لہذا بہت تیزی سے چین کا سیاسی کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔جس سے اُس کی زبان کا اُفق بھی حیرت انگیز طور پر وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

اس کے برعکس انگریزی زبان کے ساتھ استعمار کی نفرت بھی شامل ہورہی ہے اور بہت سی قوموں میں یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ زبانوں کا کوئی ’’غیر نسلی ‘‘مزاج نہیں ہوتا۔یہ اینٹ یا پتھر کی طرح نہیں ہوتی، جو مختلف قوموں کی تعمیرات میں جاکر کسی دیوار سے چپک جائے تو کوئی فرق نہ پڑے۔ زبانیں دراصل ایک نسلی یا تہذیبی مزاج رکھتی ہیں اور کسی قوم کی بڑھتی ہوئی طاقت اُس کے اہلِ زبان میں ایک لسانی جارحیت پیدا کردیتی ہے۔اس کا سب سے شاندار اعتراف بھی ہنٹنگٹن کے ہاں ملتا ہے، وہ جو کچھ کہتا ہے، اس کا لطف لیجئے!
’’دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں مغرب کی طاقت کے بتدریج زوال کے ساتھ انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں کا دوسرے معاشروں میں اور مختلف معاشروں کے مابین رابطے کے لئے استعمال بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جائے گا۔ اگر مستقبل بعید میں کبھی چین مغرب کی جگہ دنیا کی غالب تہذیب بن گیا تو انگریزی کی جگہ مینڈارین عالمی لنگوا فرینکا بن جائے گی۔‘‘

درحقیقت انگریزی کے ایک بالادست زبان کا گیت خلافِ حقائق ہے۔ یہ زبان کی برتری سے کہیں زیادہ چند طفیلیوں کے احساسِ کمتری کا غمازروّیہ ہے۔انگریزی کو علم کی زبان باور کرانا بھی ایک کج فہمی ہے جس میں تصورِعلم سے لے کر منہجِ علم تک اور محورِعلم سے لے کر مقصودِعلم تک ہر چیز میں ایک خلقی خلل ہے، مگر یہاں تحریر کا دامن تنگ پڑتا ہے، سو اِسے کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ زبان کسی بھی تہذیب کا پہلا مورچہ ہے اور کسی بھی تہذیب کا سپاہی اپنے مورچے کو چھوڑ کر دشمن کے مورچے میں خود اپنے ہی دشمن کا تحفظ کرنے نہیں چلا جاتا۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟ عارف عزیز پنہور - منگل 27 ستمبر 2016

زندہ قومیں اپنی زبان کو قومی وقار اور خودداری کی علامت سمجھا کرتی ہیں اور اسی طرح قومی لباس کے معاملے میں بھی نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ روس‘ جرمنی‘ فرانس اور چینی رہنما کسی بھی عالمی فورم پر بدیسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ نہیں بناتے، بلکہ اپنی ہی زبان میں...

وزیراعظم نواز شریف اپنی شیروانی کہیں رکھ کر بھول گئے؟

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر