... loading ...
نیو یارک شہر کے علاقے مین ہٹن میں ٹائم اسکوائر کے نزدیک بیالیسویں ایونیو(42nd) پر گیارہ بائی چھبیس فٹ کی ایک گھڑی نصب ہے پہلے یہ سکِستھ(6th)ایونیوپر نصب تھی ۔ یہ گھڑی سب سے پہلے 1989ء میں نصب کی گئی، اس وقت اسکی لاگت ایک لاکھ ڈالرز آئی تھی اور اسکی تیاری و تنصیب کے تمام اخراجات ایک مقامی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر سیمو ردرُست (Saymore Durst) نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کئے تھے۔ یہ گھڑی ’’ڈیٹ کلاک‘‘ کہلاتی ہے ۔ اس ڈیٹ کلاک سے ہر لمحہ پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک امریکی خاندان کے ذمّے انفرادی طور پر اس وقت کتنا قرض واجب الادا ہے ۔ سیمور نے جب یہ گھڑی نصب کروائی تو لوگوں میں پہلی بار غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے شعور اجاگر ہوا ۔اس وقت امریکا پر کل قرضہ 3ہزار ارب ڈالرز تھا ۔سیمو ر نے نیویارک ٹائمز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی ذاتی جیب سے خطیر رقم خرچ کرکے یہ گھڑی اس لئے نصب کروائی کیونکہ میں اپنی اگلی نسل کو قرضوں میں ڈوبا دیکھنا نہیں چاہتا ۔ وہ 1995ء تک زندہ رہا اور تادمِ مرگ ہرنئے سال کے آغاز پر امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین کو ھیپی نیو ائر کے کارڈز ارسال کیا کرتا تھا ،جن پر حساب ہوتا تھا کہ اس سال ان کے خاندان کے حصّے میں کتنے ہزار ڈالرز کے قرض کی ادائیگی واجب ہے ۔ سیمور کے مرنے کے بعد اسکے بیٹے ڈوگلس درست (Douglas Durst) نے اس ڈیٹ کلاک کی دیکھ بھال کی ذمہ داری گزشتہ 20سالوں سے ایک مشن سمجھ کر سنبھال رکھی ہے ۔ سن 2000ء میں گیارہ سالوں بعد پہلی بار اس گھڑی نے اس وقت اُلٹا چلنا شروع کیا جب امریکا پر واجب الاداغیر ملکی قرضوں کے حجم میں کمی آنا شروع ہو ئی۔
اگلے دو سال یہ الٹی گنتی جاری رہی تاہم 2002ء میں تکنیکی وجوہات کے سبب یہ گھڑی بند ہو گئی اور اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ بعد ازاں2004ء میں ایک نئی ڈیجیٹل گھڑی نصب کی گئی اور ایک بار پھر آگے کا سفر شروع ہوا کیونکہ قرضے ایک بار پھر بڑھنا شروع ہو چکے تھے پھر 2008ء میں ایک ایسا موقع بھی آیا جب امریکی قرضہ 10ہزار ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا اور گھڑی کے ہندسے ختم ہوگئے۔ اس وقت امریکا پر کل بیرونی قرضہ 18ہزار ارب ڈالرز کے قریب ہے ۔یہ گھڑی اپ گریڈ ہو چکی اور ہر لمحے امریکیوں کو احساس دلاتی ہے کہ انکے خاندان کے ذمّے کتنا قرض واجب الاداہے ۔ اس کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ8دہائیوں سے امریکا کے ذمّے واجب الادا کل قرضے اسکی سالانہ خام قومی پیداوار کااوسطاً 61فیصد ہیں جبکہ 1989ء کے تین ہزار ارب ڈالرزاسکی اس وقت کی خام قومی پیداوار کا 53فیصد تھے ۔ اس وقت حجم کے اعتبار سے امریکی معیشت دنیا میں سب سے بڑی ہے۔معاشیات کے کلیوں کے مطابق کسی ملک پر واجب الادا قرضے جب تک اس کی خام قومی پیداوار کے 2تہائی سے نیچے ہیں ،تب تک معیشت محفوظ ہے ۔ معاشیات کی کتابوں میں ایک اور اصول بھی درج ہے کہ اگر کوئی ملک اپنے جاری اخراجات محصولاتی آمدنی سے پو رے کر سکتا ہے ، اپنے شہریوں کی کم از کم چند بنیادی ضروریات اپنے وسائل سے پو ری کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور شرح خواندگی مسلسل بڑھا سکتا ہے تو اس کے مستقبل میں معاشی طور پر مستحکم ہو نے کے امکانات روشن ہیں ،بصورت دیگر ایک روز نیست و نابود ہو جانا اسکا مقّدر ہے ۔
آئیے پاکستانی معیشت کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معیشت پوری طرح اپنے شہریوں کا بوجھ اٹھانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔بنیادی ضروریات کا تو یہ عالم ہے کہ عوام کو بجلی ، پانی، گیس ، روزگار، علاج معالجہ اور تعلیم کچھ بھی اطمینان بخش طور پر دستیاب نہیں ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس علاج معالجے کے نام پر پیروں فقیروں سے تعویذگنڈے کروانے ، کلائیوں پر دھاگے باندھنے اور مزاروں سے لنگر کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ قرضے 67ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں، صرف سود کی ادائیگی کے لئے سالانہ 550ارب روپے درکار ہیں۔ اب شنید ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پرقرضے کی نئی قسط حاصل کرنے سے قبل 75ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔ گزشتہ ماہ بھی 370اشیاء پر 40ارب کے نئے محصولات لاگوکئے گئے تھے۔ اس وقت وزیر خزانہ پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ’’کتوں کو امپورٹڈ بسکٹس کھلانے والوں کو مزید ٹیکس دینا ہی ہو گا ‘‘۔
کمال ہے کہ خود’’عرشی طبقے‘‘ سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ فرشی طبقے سے تعلق رکھنے والے ملک کے 95فیصد عوام سے بلاواسطہ(Indirect)محصولات’’اینٹھنے‘‘ کیلئے اپنے ہی طبقے کے افراد کے ’’نمائشی‘‘دشمن بن گئے جبکہ محصولات متعدد ایسی اشیاء پر لگائے گئے جنکا تعیش سے کوئی تعلق نہیں ۔ غریبوں سے ہمارے وزیر خزانہ کی الفت کا عالم کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 22جنوری کو جب قوم باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والی دہشت گردی پر غم زدہ تھی تو انہوں نے کالا دھن سفید کرنے کے بل کو خاموشی سے منظور کر الیا۔ یہ یقیناانکی غریب نوازی ہے ۔ظاہر ہے جس عرشی طبقے سے ان کا تعلق ہے اس میں ’’صرف‘‘پانچ کروڑ کا بلیک منی رکھنے والے غریب ہی توہوتے ہیں۔
موجودہ ایمنسٹی اسکیم پاکستان کی تاریخ کی غالباً آٹھویں اسکیم ہے ۔اس نوعیت کی اسکیم سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں متعارف کرائی گئی جس کے تحت 72ہزار 289افراد نے ڈیکلریشن جمع کرائے اس وقت کل ٹیکس گزار 2لاکھ 66ہزار 183تھے۔ بعد ازاں یحییٰ خان کے دور میں بھی ایسی ہی اسکیم میں 19ہزار600 افراد نے اپنا کالا دھن سفید کرایا۔ تاہم بھٹو، ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کے ادوار کی ایمنسٹی اسکیمیں ناکام ہوئیں ، اب تک کی سب سے کامیاب اسکیم پرویز مشرف کی ایمنسٹی اسکیم تھی جس میں تقریباً240ارب روپے کے خفیہ اثاثے ظاہر کئے گئے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے حالیہ گزشتہ دور میں بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ اس وقت خود اسحاق ڈار جو اپوزیشن کا حصّہ تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک معاشی این آر او ہے ۔یہ اسکیم اس لحاظ سے اپنی نوعیت کی انوکھی اسکیم ہے کہ یہ اگلے تین سال تک مسلسل جاری و ساری رہے گی یعنی حرام کا پیسہ کماتے جاؤں اور اسے پر حلال کا ٹھپہ لگواتے جاؤ۔
پاکستان پر غیر ملکی قرضے خام قومی آمدنی کے 70فیصد تک پہنچ چکے یعنی اس شرح سے بھی زیادہ جو معاشی طور پر دنیا کے طاقت ترین ملک کی ہے ۔ ہماری معیشت اپنی محصولاتی آمدنی سے رواں اخراجات کلی طور پر اد ا کرنے کے لائق نہیں رہی قرضوں کی اقساط تو کجا ان پر لاگو سود کی ادائیگی بھی مشکل ہو تی جا رہی ہے جبکہ اشیاء و خدمات کی پیداوارمیں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو تا نظر نہیں آرہا ۔ گویا سوال غلط نہیں کہ انجام گلستان کیا ہو گا ؟
اسحاق ڈار ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے روہانسے ہوئے جاتے ہیں اور ٹیکس ڈائریکٹری بھونڈے انداز سے انکا مذاق اڑاتی دکھائی دیتی ہے ۔2014کے اعداد وشمار کے مطابق انہوں نے خود کل 22لاکھ86ہزار 702روپے انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ اسی اثناء میں ان کا وہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے 4ملین ڈالرز یعنی تقریباً40کروڑ روپے دبئی میں اپنے بیٹے علی ڈار کو کاروبار کیلئے بطور قرض دینے کا اعتراف کیا تھا ۔ بعض اطلاعات کے مطابق صاحبزادے موصوف جو وزیر اعظم کے داماد بھی ہیں دبئی میں رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ سے منسلک ہیں ،جہاں جمیرہ کے مہنگے ترین علاقے میں ایچ ایس ڈی ٹاورزنامی 34منزلہ عمارت انکی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ایک عدد منی گلف کلب کے بھی ملک ہیں ، وہ ’’ٹیک اے بریک‘‘ نامی ایک کافی آؤٹ لیٹ اور انٹرنیشنل سٹی دبئی میں بھی متعدد جائیدادوں کی ملکیت رکھتے ہیں ۔اپنے والد کے اس مقروض بیٹے نے نجانے قرض لوٹایا یا نہیں مگر حال ہی میں ایچ ایس ڈی رینٹ کے کا ر کے نام سے ایک کمپنی شروع کی ہے جو نہایت قیمتی کاریں کرائے پر دیتی ہے جن میں لمبورگنی، فراری اور مرسیڈیز شامل ہیں ۔اس لحاظ سے یہ خلیجی ممالک کی پہلی رینٹ اے کار کمپنی ہے ۔
ایک لمحے کیلئے یہیں رُکیں۔پی اے سی کی وہ رپورٹ ملاحظہ ہوجسمیں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران صرف وزارت ِ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو 120ارب روپے کا نقصان ہو ا ہے ، اسکے علاوہ 89ارب روپے کی ادائیگیاں خلاف ضابطہ کی گئیں اور تھری جی کی غیر قانونی اجازت سے 51ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کو ان ڈھائی سالوں میں ہونے والا تقریباً 450ارب روپے کا نقصان علیحدہ ہے یعنی سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہمیں نہ نئے قرضوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی نئے ٹیکسِ عائد کرنے کی۔ البتہ ضرورت ہے تو صرف بہتر اکنامک مینجمنٹ کی ،تاکہ حکومتی اخراجات کم کئے جائیں ، سرکاری وسائل کا زیاں روکا جائے اور براہ راست محصولات کی آمدنی بڑھائی جائے۔
کرپشن کے پیسے کی ’’دھلائی ‘‘ کے خواہشمند وزیر خزانہ بزعم خود ’’ماہر معیشت‘‘ ہیں لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری قومی آمدنی کا 70فیصدبلا واسطہ محصولات سے حاصل ہو رہا ہے یعنی ملک کے 95فیصد غریب عوام یہ ٹیکس اکٹھا کرکے دے رہے ہیں جو کہ معاشی اعشاریوں میں ایک تباہ کن شرح ہے۔ اس کے باوجودوہ مزید قرضے لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتا کہ لوگ سماجی و معاشی شعبے میں حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اس لئے ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتے اور بالواسطہ محصولاتی آمدنی بڑھانے کیلئے ایف بی آر سے کرپشن کو ختم کئے بغیر چارہ نہیں ۔جہاں کرپٹ افسران ٹیکس گزاروں کا خون چوسنے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں ۔ایسے میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں بلکہ پورے ٹیکس نظام کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔
گزشتہ ماہ شوگر ملوں کو 7ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اور اب 75ارب کے نئے ٹیکس ۔ سبحان اﷲ یوں لگتا ہے جیسے آنے والے وقتوں میں 100روپے کا ایزی لوڈ کروانے پر جزاک اﷲ کا میسج آیا کرے گا ۔ یہ طے ہے کہ اسحاق ڈار کے ہاتھوں پاکستان کی معیشت بتدریج تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور میاں صاحب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔ وہ شاید اپنے سمدھی کو ایک زبر دست معاشیات دان تصور کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈار صاحب کو ماہر معاشیات کہنا ایسے ہی ہے جیسے دیہاتی لوگ گاؤں میں کمپاؤنڈر کو’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کہتے ہیں۔ کاش کوئی میاں صاحب کو یہ بات سمجھائے ۔
امریکی قرضوں میں صرف ایک تہائی قرضہ غیر ملکی قرض دہندگان سے لیا گیا ہے جن میں چین اور جاپان شامل ہیں جبکہ دوتہائی اندرونی قرضہ ہے د وسری طرف پاکستان کے کل قرضوں کا 85فیصد دوسرے ملکو ں یا عالمی مالیاتی اداروں سے لیا گیا ہے ۔ہمارے مستقبل کا تو اﷲ ہی حافظ مگر تاریخ کے میزانیے پر سوال یہ ہے کہ سیمور درست نے اپنے بیٹے کے لئے جذبہ َحبّ الوطنی سے سر شارایک مشن کی میراث سونپی جسے وہ 20سال سے نبھا رہا ہے مگر ’’سمدھی صاحب‘‘ اپنے بیٹے کے لئے کون سی میراث چھوڑ کر جائیں گے، یاد رہے کہ اس وقت ہر ایک پاکستانی 1لاکھ 3ہزار کا مقروـض ہے اور پاکستان کے قرضے میں ہر سیکنڈ 17ہزار 200روپے کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ہم اپنی گھڑی کس دیوار پر اور کب لگائیں گے؟
یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...
پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...
اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اگلے مالی سال برائے 17-2016 کے لیے 10 کھرب 64 ارب خسارے پر مبنی 49 کھرب کا وفاقی میزانیہ پیش کردیا ہے۔ میزانیے کا بیشتر حصہ سود اور قرضوں کی ادائی پر خرچ ہوگا۔ جس میں دفاعی میزانیے کو بڑھا دیا گیا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی دس فیص...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
وزیراعظم نوازشریف قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے بعد ایک نئی مشکل میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ اُنہیں اب تک اس سوال کا سامنا تھا کہ جدہ اسٹیل مل کے قیام کے لیے اُن کے پاس رقم کہاں سے آئی؟ اور لندن میں واقع فلیٹس اُن کے پاس کب سے ہیں؟ قومی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف کے دباؤ پر وزیراعظم...
بالآخر ایک طویل اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن پر حکومتی درخواست کوایک نہایت موزوں جواب کے ساتھ حکومت کو واپس لوٹا دیا ہے۔عام طور پر حکومت کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر اعلی عدلیہ کے اعلی ترین شخصیت کی جانب سے ہمیشہ مثبت جواب دیا جاتا ہے۔...