وجود

... loading ...

وجود
وجود

نگراں حکومت کا فیصلہ آخری لمحات میں ہونے کی توقع

اتوار 06 اگست 2023 نگراں حکومت کا فیصلہ آخری لمحات میں ہونے کی توقع

موجودہ حکومت کی میعاد ختم ہونے میں ا ب چند دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک نگراں وزیراعظم کے نام پر کوئی اتفاق پیدانہیں ہوسکاہے، اخبار ی اطلاعات کے مطابق نگران وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے مختلف ناموں پر مشاورت جاری ہے، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور آصف علی زرداری کئی بار مشاورت کرچکے ہیں،لیکن اطلاعات کے مطابق ابھی دونوں کے درمیان کسی نام پراتفاق نہیں ہوسکا ہے،اطلاعات کے مطابق آصف زرداری معراج خالد جیسے کسی بظاہر غیرجانبدار سیاسی رہنما کو جو اب سیاست سے عملاً کنارہ کش ہوچکاہو اور اس کی اولاد میں بھی کوئی عملی سیاست میں موجود نہ ہو نگراں وزیراعظم بنانے کے خواہاں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اسحاق ڈار کو اس منصب پر بٹھانے پر مصر تھی اور اس سلسلے میں یہ دلیل دی جارہی تھی کہ انھوں نے چونکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے ہیں، اس لیے وہ اس کی شرائط کو اچھی طرح جانتے ہیں اور نگراں دور میں ان پر اس طرح عملدرآمد کرسکتے ہیں کہ آئی ایم ایم کو قرض کی اگلی قسط جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہو،لیکن خود اپنی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے اس کی شدت سے مخالفت کے بعداب وزیراعظم شہباز شریف کسی ایسی شخصیت کو نگراں وزیراعظم بنانے کے خواہاں ہیں جوان کی مرضی کے مطابق حکومتی اتحادی جماعتوں کے لوگوں کو وفاقی اور صوبائی کابینہ میں نمائندگی دے اوراسحاق ڈار کو نگراں کابینہ میں بھی وزیر خزانہ کا منصب سونپ دے اور جو بنیادی طورپر عمران خاں اورپی ٹی آئی کا کٹر مخالف ہو – نیا نگران سیٹ اپ بادی النظر میں پی ٹی آئی مخالف ہو جبکہ آصف زرداری اسے عوام کے ساتھ کھلواڑ قرار دے کر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،تاہم ایک اور حلقے کا کہناہے کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اب مسلم لیگ ن یاپیپلز پارٹی کی مرضی سے نہیں ہوگا بلکہ اس کافیصلہ بھی اب مقتدر حلقے کریں گے اور نگراں وزیر اعظم کا نام سامنے آنے میں تاخیر کا اصل سبب یہی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے نگراں وزیراعظم کیلئے بھیجے جانے والے ناموں میں سے ابھی تک اوپر سے کسی نام کی منظوری نہیں مل سکی ہے،تاہم اب سرکاری حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیاجارہاہے کہ نگراں وزیراعظم کے نام کا فیصلہ چنددنوں میں کرلیا جائے گاجس کے معنی یہ ہوئے کہ نگراں وزیراعظم کا نام حکومت کے خاتمے کے آخری لمحات میں کیاجائے گا تاکہ اس پر اعتراض کا وقت ہی نہ رہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سب کواسے قبول کرنا پڑے اور اگر کوئی اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کی کوشش کرے تو اسے انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دے کر حکمرانی کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے۔فی الوقت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نگران حکومت کے لیے ناموں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور سب جماعتیں اپنے اپنے نام دے رہی ہیں۔ قرعہ کس کے نام نکلے گا، جلد پتہ لگ جائے گا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگرچہ ابھی تک نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان بھی نہیں ہوسکاہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے غیراعلانیہ طورپر انتخابی مہم شروع کردی ہے اور وہ دھڑادھڑ ایسے منصوبوں کا افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں جن کی تکمیل اگلی آنے والے حکومت کے دور میں بھی شاید ممکن نہ ہوسکے،وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ان کی جھولی خالی ہے،عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے مقدمات ختم کرانے کے سوا عوام کی بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے۔پی ڈی ایم کی 16ماہ کی کارکردگی کی پڑتال کی جائے تو سیاسی و معاشی خسارے اور مایوسی و بے چینی کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ 16ماہ میں موجودہ حکومت نے ملک کو کہاں پہنچادیاہے اس کا اندازہ 16ماہ پہلے کے چند بنیادی معاشی اشاریوں کے تقابلی جائزے سے ہو جاتا ہے۔ برآمدی شعبہ ملک کا سب سے مضبوط مالیاتی شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ شعبہ بھی ان 16ماہ میں بری طرح گراوٹ کا شکار رہا۔ ا روپے کی قدر میں کمی اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کے باوجود ہماری برآمدات میں اضافے کے بجائے کمی کارجحان غالب رہا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم بلکہ ختم ہو گئے اور آئی ایم ایف سے قرض اور دوست ملکوں سے ملنے والی اربوں روپے کی امداد کے باوجود ہمارے زرمبادلے کے ذخائر عمران خان کے چھوڑے ہوئے ذخائر کی حد تک نہیں پہنچ سکے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد دراصل وزیر اعظم شہباز شریف کو تمام کام چھوڑ کر ملکی معیشت اور اقتصادی بہتری کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی جو انہوں نے نہیں دی جس کے منفی اثرات سامنے آئے۔اس سے ظاہرہواہے کہ اپنے آپ کو بہت تجربہ کار اور حکومت چلانے کے گرجاننے والا ماہر قرار دینے والی مسلم لیگ ن کے پاس وسیع دانش اور جمہوری امکانات کو بروئے کار لانے کی مہارت کی حامل کوئی ایک ایسی شخصیت بھی نہیں۔ جو متحارب سیاسی جماعتوں اور قائدین کو لاکھ اختلافات کے باوجود ایک میز پر اکٹھا کر نے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ان کے مابین مثبت مذاکرات شروع کراسکتی ہو، جس کے نتیجے میں ملکی سیاست میں ٹھہراؤآ جاتا۔ سب کے درمیان سلجھاؤکی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ مگر اس کے برعکس حکمراں اتحاد میں رانا ثنااللہ جیسے آگ لگانے اور جلتی پر تیل چھڑکنے والے بہت ہیں۔ معاشی حالات کو نظرانداز کر کے آج ہمارا قومی مسئلہ انتخابات بن گیا ہے۔ لوگ کیسے کمائیں گے؟ کیا کھائیں گے؟ موجودہ حکمراں شاید اسے اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہماری حکومتوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اتنے قرضے لے لیے ہیں کہ شاید اس کی قیمت ہماری آنے والی نسلوں کو ادا کرنی پڑے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں لیکن ہماری عیاشیاں دیکھنے کے لائق ہیں۔ اسمبلی اراکین سمیت وزراء اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداران کو پٹرول اور بجلی مفت ملتی ہے۔ جبکہ ان کی قیمت بیچارے غریب عوام ادا کر رہے ہوتے ہیں۔حکمرانوں اور رات دن ان کے گن گانے والوں کے لیے دیگر مراعات بھی بے شمار ہیں۔ جبکہ غریب آٹے، گھی، چینی اور ضروریات زندگی کی بنیادی چیزوں کو ترس گیا ہے۔ ہم گلے گلے قرضے میں ڈوب چکے ہیں۔ جس سے نکلنے کی ہمیں کوئی تدبیر اور راہ نظر نہیں آتی۔ایسے میں جب پی ڈی ایم یا ن لیگ چار ماہ بعد الیکشن میں ہو گی تو عوام کو کیا جواب دے گی۔ جو مہنگائی کے ہاتھوں اعصابی طور پر ادھ موا ہو چکے ہیں۔اب ن لیگ کا سارا دارومدار نواز شریف کی واپسی پر ہے۔،ن لیگی حلقوں کاخیال ہے کہ ستمبر کے وسط میں جب نئے چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھا لیں گے تو نواز شریف کی باعزت واپسی کے راستے میں تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ وہ عوام کے پسندیدہ پاپولر لیڈر ہیں ن لیگ کا کہنا ہے نواز شریف کے آنے سے ان کی الیکشن کمپین میں جان پڑ جائے گی،تاہم موجودہ حکومت کی گزشتہ 16ماہ کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ بہت مایوس کن ہے۔ عوام نے اگر ووٹ کی طاقت سے دل کی بھڑاس نکالی تو ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
موجودہ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے کہ اس نے معیشت کوسہارا دینے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی یہ تمام کوششیں قرض حاصل کرنے تک محدودرہیں،ملک میں سرمایہ کاروں کو سہولتیں دے کر انھیں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کی بظاہر کوئی مثبت اور ٹھوس کوشش نہیں کی گئی،جبکہ ملک کی ایک مقبول سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کی وجہ سے پیداہونے سیاسی عدم استحکام نے بھی ہماری معیشت اور نیک نامی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ایٹمی ملک ہیں لیکن بھیک کے لیے دنیا کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔اس وقت ملک میں مستحکم سیاسی ماحول کی ضرورت تھی تاکہ ملک میں سرمایہ کاری ہو سکے۔ نئی صنعتیں لگائی جاسکیں کیونکہ صنعتیں لگیں گی توروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ روزگار ہوگا تو خوشحالی آئے گی۔ خوشحالی آتی ہے تو ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اور ہر طرح کی کامیابیاں قدم چومنے لگتی ہیں۔حکمرانی کرنے والی 13جماعتیں معاشی بحران اور مہنگائی کے خاتمے جیسے وعدے کر کے اقتدار میں آئی تھیں۔ لیکن گزشتہ 16ماہ میں مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔اتحادی حکومت کی مرکزی جماعت ن لیگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملک کی تیزی سے گرتی ہوئی ملکی معیشت کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کوششوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں یہی وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے حکومت انتخابی میدان میں اترنے سے خوفزدہ ہے۔اس وقت بظاہر صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تمام حلقوں سے موزوں امیدوار نہیں مل رہے ہیں،اس کے بہت سے جید رہنماؤں نے واضح شکست کے خوف سے انتخابی میدان میں اترکر اپنا جمع شدہ سرمایہ ضائع کرنے سے انکار کردیاہے جس کے بعد(ن) لیگ نے 30 فیصد نئے چہروں کے ساتھ عام انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔


متعلقہ خبریں


نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر