وجود

... loading ...

وجود
وجود

آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری

اتوار 02 جولائی 2023 آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری

پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالرز کا معاہدہ طے پا گیا۔اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ دے گا، جس کے لیے اجلاس جولائی میں ہو گا۔اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کو متوقع ڈھائی ارب کے بجائے 3 ارب ڈالرز ملیں گے۔آئی ایم ایف کی جانب سے 3 ارب ڈالرز کا اسٹاف لیول معاہدہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پاگیا ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ معاہدے سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ دستیاب ہو سکے گی۔
معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے متنبہ کیاہے کہ اب پاکستان کو زیادہ مالیاتی ڈسپلن دکھانا ہو گا۔آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ پاکستان مالیاتی ڈسپلن کو یقینی بنائے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں،آئی ایم ایف نے یہ بھی واضح کیا ہے نیا پروگرام پرانے پروگرام کے ختم ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا، پاکستان کا موجودہ بحران حل کرنے کے لیے سختی سے پالیسی اقدامات پر عمل درآمد ضروری ہے،آئی ایم ایف نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ مارکیٹ کے مطابق ایکس چینج ریٹ نافذ کیا جائے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اسلامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پیسے مل جائیں گے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معاہدے سے معاشی استحکام لانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔معاہدہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے میں معاون ہو گا۔معاہدے کے بعد عارضی طور پر روپے کی قدر میں بہتری کا امکان ہے اور اسٹاک مارکیٹ پر بھی مثبت اثر پڑے گا،لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ کہہ کر عوام کی امیدوں پر اوس ڈال دی ہے کہ اس معاہدے سے مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتاہے،اگرچہ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اب اشرافیہ لپیٹ میں آئے گی لیکن اس طرح کے دعووں کی حقیقت سے سب ہی واقف ہیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح طورپر بتادیاہے کہ اس معاہدے کی آئی ایم ایف کے بورڈ سے منظوری کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیاجائے گا اور یہ اضافہ معمولی نہیں بلکہ اسحاق ڈار کے مطابق یہ اضافہ 3 سے4 روپے فی یونٹ کا ہوسکتا ہے جس کا اطلاق جولائی سے ہوگا،وزیرخزانہ نے پیٹرولیم لیوی کی مد میں ہر مہینے ڈھائی، ڈھائی روپے بڑھانے کی بات کی تھی لیکن ان کی پریس کانفرنس کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ اس میں ایک ساتھ 5 روپے کا اضافہ کرکے اس کا اطلاق بھی کردیاگیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی ایما پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا ایک اور سیلاب نازل ہوجائے گا،جس سے عام آدمی کیلئے جو پہلے ہی ادھ مرا ہوچکاہے زندہ رہنا محال ہوجائے گا دوسری جانب بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتیں بری طرح متاثر ہوں گی ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور ان کیلئے بیرون ملک سے کئے ہوئے معاہدوں کے مطابق انھیں مال کی سپلائی اور نئے آرڈر لینا مشکل ہوجائے گا کیونکہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بیرونی منڈیوں میں دیگر ممالک کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجائے گا،اس صورت حال سے ہماری برآمدات جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں مزید سکڑ جائیں گی جس سے ایک طرف ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرح زرمبادلے کی کمی کے سبب حکومت کو موجودہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا بھی مشکل ہوجائے گا،جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اب حکومت درآمدات پربھی پابندی عاید نہیں کرسکے گی،موجودہ صورت حال میں حکومت کو سرکاری اخراجات میں سختی کے ساتھ کٹوتی کرنا پڑے گی اگر حکومت نے اصلاحات کر لیں تو آئی ایم ایف کے بورڈسے معاہدے کی منظوری یعنی توثیق کرانے میں آسانی ہو گی لیکن اگرموجودہ حکومت اپنی سیاسی ترجیحات گئی تو پھر گڑ بڑ ہو جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل تو ہو گئی ہے لیکن 8 ماہ میں بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے۔حکومت کو ا س معاہدے کیلئے پاپڑ بیلتے ہوئے کافی سبق مل چکاہے اور اب حکومت کو زیادہ ہوشیاری دکھاتے ہوئے نئی تھیوریز نہیں لانی چاہئیں، آئی ایم ایف کا واضح فارمولا ہے جس پر وہ عمل کرتا ہے،وزیر خزانہ اور وزیر اعظم دونوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مسئلہ آئی ایم ایف کا نہیں ہمارا ہے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اپنا گھر سیدھا کرو، ہم اپنا گھر درست نہیں کر رہے تو یہ قصور آئی ایم ایف کا نہیں ہمارا ہے؟بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو مسائل کے حل کے لیے پالیسیوں پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کی مو جودہ معاشی صورت حال کا موازنہ کریں تو شہباز شریف اس کی وجہ سے بھاگتے دوڑتے نظر آرہے تھے مگرانھوں نے سابقہ حکومت پر تمام ملبہ ڈالنے کی کوششوں کے سوا ماضی کی خامیوں کو کبھی عیاں نہیں کیا، مسلم لیگ (ن) کوئی پہلی بار اقتدار میں نہیں آئی مگر اس مرتبہ اس حکومت کو آئی ایم اہف سے،معاہدے کیلئے جس طرح الٹا لٹکناپڑا ہے شاید اس سے پہلے ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی،اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ شایدہمارے وزیر خزانہ اس مرتبہ کچھ بہتر کر دیں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کی شاہ خرچیاں دیکھتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا کہ عوام پہ بوجھ کچھ کم ہوسے گا،پاکستان 1958 سے 2019تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چُکا ہے مگر بدقسمتی سے آئی ایم ایف سے ملنے والے فند کا بیشتر حصہ مبینہ طورپر معاشی پلان پہ خرچ ہونے کی بجائے غیر ترقیاتی کاموں پہ خرچ ہوتا رہا یا مبینہ طورپر بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقے سے نجی اکاؤنٹس میں منتقل ہوکر بیرون ملک بھیجا جاتا رہاتاکہ وہاں مزید املاک خرید کر اپنی اولادوں کی اولادوں کا مستقبل محفوظ بنایاجاسکے، زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اس وقت پاکستان کا لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ غیر آباد ہے۔96لاکھ ہیکٹر رقبے میں سے 2لاکھ ہیکٹر قابل کاشت ہے۔لاکھوں ایکڑ صحرائی رقبہ غیر آباد ہے،جبکہ ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ غیر آباد رقبہ بھی تھوڑا نم ہو اور اُس پہ ہل چلایا جائے تو قابل کاشت ہو سکتا ہے اور غیر آباد زمین بھی قابل کاشت ہوسکتی ہے لیکن اس طرف دھیان دینے کی کسی نے ضرورت ہی تصور نہیں کی نتیجتاً ہماری سونا اگلتی زمین کنکریٹ کے پہاڑوں یعنی رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہوتی گئی اس کیلئے ہرے بھرے آم کے باغات کاٹ دئے گئے لیکن کسی نے دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور نہ ہی ناقابل کاشت سمجھ کر بنجر چھوڑ دی جانے والی زمین کو قابل کاشت بنانے کی کسی اسکیم پر غور کیا گیا،ہمارے حکمرانوں نے یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ اگر عرب کے صحرا گل وگلزار بن سکتے ہیں افریقہ کے صحراؤں میں کاشت ہوسکتی ہے تو ہمارے ریگزاروں کو سونا اگلنے
کے قابل کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔جو ہوچکا اس پر آنسو بہانے کے بجائے اب اس سلسلے میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں،اس کیلئے ضروری ہے کہ عام کسانوں کو زراعت کے جدید ترین طریقے سکھائے جائیں اور انھیں بتایاجائے کہ ان طریقوں پر عمل کے ذریعے ان کی فصل روایتی طریقوں کے مقابلے میں دگنی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے،زراعت کے جدید طریقے اپنانے کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے اور عام یعنی چھوٹے کاشتکاروں کو مناسب سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، کسانوں کو کھاد اور بہتر ادویات مناسب قیمتوں پر مہیا کی جائیں۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کاشت کے دوران ان چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو یہ چیزیں کسانوں کومہنگے داموں ملتی ہیں جس سے فصل کی لاگت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے کسان کھاد اور جراثیم کش اشیا کے استعمال میں کنجوسی سے کام لینے پر مجبور ہوتاہے جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی آجاتی ہے اور بنیادی خوراک بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتیں ہیں۔پاکستان قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے، اگر معاشی استحکام کی مربوط،پائیدار اور دیرپا حکمت عملی سے ان وسائل کے ساتھ استفادہ کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ملک عزیز کو معاشی محرانوں سے نکالا جا سکے لیکن اب تک نہ تو اس کیلئے کوئی پلان بنایاگیاہے اور نہ ہی اس کی جانب قدم نہیں اُٹھایا جائے گا،جبکہ حقیقت یہ کہ جب تک ایسا نہیں کیاجاتا تب تک قرضوں کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ دعا کریں کہ اب مزید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے، پاکستانی عوام کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ”عالمی مہاجنوں ” کے شکنجے سے آزاد ہو کر خود اپنی معاشی اور مالیاتی پالیسیاں ترتیب دے۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے انسانی اور قدرتی وسائل کو بروئے کارلاکر ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنائے۔لیکن یہ کام صرف دعاؤں سے نہیں ہوسکتا،”خود کردہ لاعلاج نیست“ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے عوام کی ن خواہشات کے برعکس غیر ملکی قرضوں کے سہارے ہی ملکی معیشت کو چلانے کی کوشش کی اورغیر ملکی قرضوں کی رقم ملکی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے مبینہ طورپر اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں آج صورتحال یہ ہے کہ ہم 130ارب ڈالر سے زائد قرضوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور ہم اِن قرضوں پر ”سود در سود” بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہماری معیشت مکمل تبا ہی کے دہانے پر ہے جسے سنبھالا دینے کیلئے ہم اپنے دوست ممالک سے ”دھڑا دھڑ”قرضے لینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل میں گھری ہوئی قومیں پورے حوصلے، محنت، جذبے اور عزم صمیم کے ساتھ بہتر منصوبہ بندی کر کے جامع حکمتِ عملی کے ذریعے ”مشکلات کے بھنور ”سے باہر نکل آتی ہیں۔ یہ بات حیران کن حد تک تکلیف دہ ہے کہ ہم سونے، تانبے، کوئلے، گیس، تیل سمیت قیمتی معدنی خزانے رکھنے کے باوجود” کشکول گدائی” کیوں اٹھائے پھرتے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 21فیصد کی ریکارڈ کمی ہو چکی ہے جبکہ ٹیکسٹائل اور اسٹیل انڈسٹری کے بندہونے کا خطرہ ہے۔ ہماری آٹو موبائل کی پیدا وار میں 46 فیصد، وڈ انڈسٹری64فیصد، ادویہ سازی 24فیصد، اسپورٹس گڈز، لیدر، سرجیکل آلات، کارپٹس اور دیگر صنعتوں کی پیدا وار میں بھی نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ ہماری درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتیں بجلی گیس
پیٹرول کے مہنگے ہونے اور ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی پوری استعداد سے نہیں چل رہیں۔ ہماری برآمدی مصنوعات کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہماری مجموعی صنعتی پیداوار کا گراف بھی نیچے گر چکا ہے۔ صنعتی شعبے میں آنے والے بحران کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس صنعتی بحران کی وجہ سے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہوگئی وہاں ہماری مارکیٹیں غیر ملکی مصنوعات سے بھر چکی ہیں اور اسمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے۔ اب بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بعد صنعتوں کی بحالی کی رہی سہی امید بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کو اس مشکل ترین صورتحال سے باہر نکالنے او اپنے زرمبادلہ کے ذخائرصورت حال بہتر بنانے کیلئے ہمیں زرعی اور صنعتی دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں بیمار صنعتوں کی بحالی اور ان کو استعداد کے مطابق چلانے کیلئے حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہمیں زرعی شعبے کو مضبوط کرنے کا سوچنا ہے؟ ہمیں ملک کو آنے والے غذائی بحران سے بچانے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اور جامع عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو بڑھا کر شرح نمو میں قابلِ قدر اضافہ کرنے کی قابل عمل تدبیریں کرنا ہوں گی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کے گراف کو حقیقی طور پر بڑھانے، روزگار کے زرائع بڑھانے اور خاص کر تعلیم یا فتہ و ہنر مند افراد کی ”دھڑا دھڑ” بیرونِ مملک جانے یعنی ”برین ڈرین” کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب اپنے اختلافات بھلا کر بحیثیت قوم متحد ہو جائیں ہمارے تمام سیاستدانوں، حکومت اور اقتصادی ماہرین کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو موجودہ معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالنے اور سے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کیلئے ایسی قابل عمل حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کریں جو حکومت کی تبدیلی کے باوجود قابل عمل رہے جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم صرف قرضوں کی منطوری ہی پر بغلیں بجاتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

مضامین
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

عمران خان کا مستقبل وجود هفته 11 مئی 2024
عمران خان کا مستقبل

شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر