... loading ...
یادش بخیر !میں اُن اوراق کو پلٹ رہا ہوں۔ جو کبھی ایک کتاب کا مسودہ تھے۔ کتاب چھپ نہ سکی، کیونکہ میر خلیل الرحمان بہت طاقتور تھے اور پاکستان کے کسی پبلشنگ ہاؤس میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اُن کے حکم کی سرتابی کرتے۔ کتاب کا مسودہ دربدر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ حُسن اتفاق سے اس خاکسار کے ہاتھوں میں ایک امانت کے طور پر پہنچایا گیا۔ ابھی اس چشم کشا اور ہوشربا کتاب کے چھپنے کا وقت نہیں آیا۔ جس میں جنگ کے آغاز سے اس ادارے کے جرائم کی پوری کہانی جمع کردی گئی ہے۔ مسودے کا مطالعہ کیا جائے تو سنگین مالیاتی جرائم بھی اتنے بڑے نہیں لگتے اگر اس ادارے کے دیگر جرائم کی طرف توجہ دی جائے جس نے ملک کے اندر نفرتوں کی آبیاری کی۔ یہ مزاق نہیں حقیقت ہے کہ جنگ اور پاکستانی سماج کی خرابیاں اور اخلاقی جرائم ایک ساتھ پھلے پھولے ہیں۔ مگر ابھی وقت نہیں آیا کہ اس تفصیل کو کھولا جائے۔
جنگ گروپ نے پاکستان میں کسی بھی ابلاغی گروپ کو پنپنے نہیں دیا۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک اُس کے نشانے پر رہتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ اس کا کسی طرح بھی ہم پلہ ہے یا نہیں؟ مسئلہ اُس طرزِ فکر کا ہے جو یہ ادارہ اپنے آغاز سے رکھتا ہے۔ کتاب کے مسودے میں ایک واقعہ ہے کہ ایک روز میر خلیل الرحمان کوئٹہ کے کسی ضلع سے نکلنے والے کسی معمولی اخبار کی بابت بہت پریشانی سے معلومات جمع کررہے تھے، میر شکیل اور اُن کے اخی عالی مقام میر جاوید نے حیرت سے پوچھا کہ آخری ایسی کون سی اُفتاد آپڑی ہے کہ وہ اس پر اتنے پریشان ہیں؟ میر خلیل نے سادہ جواب دیا کہ ہر نکلنے والا اخبار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، ہمارا دشمن ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے سرکاری اشتہارات کے کوٹے سے اپنا حصہ بٹورے گا۔ اس نفسیات نے جنگ گروپ کا پیچھا تب بھی نہ چھوڑا جب وہ طبعی سے برقی دنیا میں جادھمکا۔ جیو نے ہر دوسرے چینل کو اپنا دشمن سمجھا۔ بول کے خلاف لگائے گئے الزامات اپنی یادداشتوں میں اُجاگر کیجیے! اور جیو کے اُن اینکرز کویاد کیجئے جو روزانہ اُن الزامات کی جُگالی کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ایف آئی اے کی فردِجرم میں وہ الزامات جگہ تک نہیں بنا سکے۔ اور آج بھی کوئی جیو سمیت اُن اداروں سے یہ سوال پوچھنے کو تیار نہیں کہ آپ کے عائد کردہ الزامات کی حقیقت تو ثابت کیجئے، وہ اب کسی ذکر میں بھی کیوں نہیں آرہے؟یہی ماجرا عقیل کریم ڈھیڈی کے ساتھ بھی ہوا۔ اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئیں مگر کسی ایک الزام کو بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ یہاں تک کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے ایف آئی اے کی فردِ جرم دیکھ کر یہ سوال اُٹھایا کہ آپ گرفتار تو اے کے ڈی سیکورٹیز کے لوگوں کو کرکے لائے ہیں مگر الزامات کسی اور پر لگائے ہیں۔ ان گرفتار افراد اور اے کے ڈی سیکورٹیز کا آخر آپ کے الزامات سے تعلق کیا ہے؟ان سارے معاملات میں جنگ اور جیو کی رپورٹنگ یاد کیجئے! جنگ اور جیو نے ہر اخلاقی اُصول کو توڑا۔ اور واقعات کی رپورٹنگ کے بجائے واقعات تخلیق کرنے کے غیر صحافتی کام کو انجام دیا۔ وہ الزامات گھڑتے رہے اور پاکستان کے سرکاری اداروں کو بشمول ایف آئی اے اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہے۔ اس ضمن میں ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جنگ گروپ نے اپنے اثرورسوخ کو استعما ل کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس تک سے پشت پناہی حاصل کی۔ کیا یہ ابلاغی اداروں کا کام ہے؟ کیا یہ وہ آزادی ہے، جسے وہ آزادی ٔ اظہارکے نام پرمانگتے ہیں؟ کیا اس آزادی ٔ اظہار کے نام پر یہ کارکن صحافیوں کو مختلف لڑائیوں کا ایندھن بناتے ہیں؟ ان تفصیلات کو یہاں بیان کرنے سے گھِن آتی ہے جب جنگ گروپ نے ’’ آزادی اظہار‘‘ کے نام پر بدنامِ زمانہ کلہاڑے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مبینہ حریفوں کی بہوؤں، بہنوں اور بیٹیوں تک کو نہیں چھوڑا۔ کیا یہ لوگ مستحق ہیں کہ انہیں کوئی رعایت دی جائے؟
بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ لگتا ہے کہ میر شکیل کے بیٹے میر اسحق نے دبئی میں کار فراہم کرنے والی کمپنی کو چار لاکھ 64ہزار (16ہزارسات امارتی درہم)ادا کیے بغیر پاکستان واپسی کا پروگرام بنایا تو اُس کمپنی نے میر شکیل الرحمن کے بیٹے کی شکایت کردی اور اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ حاشیہ برداروں اور عقل کل کے مختاروں نے یہ سوال اُٹھایا کہ اس میں آخر خبر کیا ہے؟ اگر یہ خبر نہیں تھی تو اسے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہوتے ہی دو بار سائبر حملوں کا ہدف کیوں بننا پڑا؟ پہلے حملے میں ویب سائٹ کو ابتدائی پندرہ منٹوں میں بحال کر لیا گیا تو دوسرا حملہ زیادہ کاری کیا گیا۔ بآلاخر وجود ڈاٹ کام کی مشاق ٹیم نے اُسے بھی سنبھال لیا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ویب سائٹ کو پھر بحال کر دیا گیا۔ وجود ڈاٹ کام نے میر اسحق کی گرفتاری پر خوشی کے شادیانے نہیں بجائے تھے۔ بلکہ خالق کائنات کا اُصول یاد دلایا تھا کہ وہ انسانوں کے درمیان ایام کو اُلٹتا پھیرتا رہتا ہے۔ اور یہ معمولی واقعات ایک تنبیہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ میر شکیل الرحمان کے لیے رسوائی کا سامان ایک ایسی رقم پر ہوا جو اُس کے ادنیٰ سے ادنیٰ ملازمین کو بھی نہایت معمولی لگتی ہے۔ لوگ فراموش کرجاتے ہیں کہ ایف آئی اے، تھانے، حکومتیں اور سرکاری ادارے کوئی بے وقوف خود چلانے کا دعویٰ کرسکتا ہے مگر اس کائنات کا ایک خدا ہے جو انسان کو ایسی جگہوں سے پکڑتا ہے جہاں انسان اپنے اختیار کا زعم رکھتے ہوئے بھی بے بس لگتا ہے۔ میر اسحق کی گرفتاری پر سوال اخلاقی نوعیت کے اُٹھائے گئے تھے۔ مگر بعض لوگوں نے اُس کی روح کوسمجھا ہی نہیں۔
سوال یہ تھا کہ ان امراء کے بچوں کی یہ کیسی تربیت ہوئی ہے کہ وہ ہر مسئلے کو اپنی طاقت کے زعم میں دیکھتے ہیں اور اُسے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے۔ پاکستانی معاشرہ طاقت اور دولت کے دوستونوں پر کھڑا ہے۔ یہاں جاری ہر سرگرمی یا طاقت کے حصول کے لیے ہے یا پھر دولت کے حصول کے لیے۔ وہ سماج کیسے زندگی کرے گا جس کی سرگرمیوں کے کوئی اخلاقی نتائج ہی نہیں ہوں گے؟ وہ معاشرے کب تک ہانپتے کانپتے اپنی سانسیں اکٹھی رکھ پائیں گے جن کی اجتماعیت کی اساس انصاف کے بجائے طاقت اور دولت پر انحصار کرے گی۔ اگر باپ میر شکیل جیسے ہوں گے تو بچے میر اسحق جیسے ہی ہوں گے۔ یہ ایک نقص کی نشاندہی ہے مگر اِسے سمجھنے سے کچھ لوگ قاصر رہے۔
جہاں تک وجود ڈاٹ کام کے گھیراؤ کا تعلق ہے تو اس کے حریف سن لیں۔ صحافت ہمارے لیے کوئی اجنبی کوچہ نہیں۔ ہمارے نزدیک صحافت، ذوق شہادت کے ساتھ حالات کی بروقت شہادت دینے کا عمل ہے۔ ہمیں نہ میر شکیل الرحمان کی طاقت سے خوف آتا ہے، نہ اُن کی دولت سے کوئی رعب پیدا ہوتا ہے۔ اُن کی طرف سے نواز حکومت کے دور میں حکومت کے اختیار سے سرکاری اداروں کااستعمال اُن کی
بزدلی اور کمتری کا ثبوت ہے۔ اصل طاقت وہ نہیں ہوتی جو کسی پر انحصار کرتی ہو۔ اصل طاقت وہی ہوتی ہے جو انسان کے اندر ہوتی ہے۔ اور یہ لوگ اندر سے کھوکھلے اور اتھلے ہیں۔ ہم صحافت کوواقعات کی پستی سے افکار کی بلندی تک لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس لئے ہم معمولی واقعات کی وقائع نگاری کو بھی کسی بنیادی تصور سے باندھ کر دیکھتے ہیں۔ میر اسحق کا معاملہ بھی ہمارے لیے ایک اخلاقی نوعیت کا معاملہ ہے جو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ پورے پاکستان پر اُنگلی اُٹھانے والا اپنے گریبان میں بھی کبھی جھانکتا ہے یا نہیں؟
دُھن رے دُھنیئے اپنی دُھن، پرائی دُھنی کا پاپ نہ بُن
تیری روئی میں چار بِنولے سب سے پہلے اُس کو چُن
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...