وجود

... loading ...

وجود
وجود

وجود ڈاٹ کام پر کیا بیتی؟

منگل 02 اگست 2016 وجود ڈاٹ کام پر کیا بیتی؟

wujoodcom

یادش بخیر !میں اُن اوراق کو پلٹ رہا ہوں۔ جو کبھی ایک کتاب کا مسودہ تھے۔ کتاب چھپ نہ سکی، کیونکہ میر خلیل الرحمان بہت طاقتور تھے اور پاکستان کے کسی پبلشنگ ہاؤس میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اُن کے حکم کی سرتابی کرتے۔ کتاب کا مسودہ دربدر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ حُسن اتفاق سے اس خاکسار کے ہاتھوں میں ایک امانت کے طور پر پہنچایا گیا۔ ابھی اس چشم کشا اور ہوشربا کتاب کے چھپنے کا وقت نہیں آیا۔ جس میں جنگ کے آغاز سے اس ادارے کے جرائم کی پوری کہانی جمع کردی گئی ہے۔ مسودے کا مطالعہ کیا جائے تو سنگین مالیاتی جرائم بھی اتنے بڑے نہیں لگتے اگر اس ادارے کے دیگر جرائم کی طرف توجہ دی جائے جس نے ملک کے اندر نفرتوں کی آبیاری کی۔ یہ مزاق نہیں حقیقت ہے کہ جنگ اور پاکستانی سماج کی خرابیاں اور اخلاقی جرائم ایک ساتھ پھلے پھولے ہیں۔ مگر ابھی وقت نہیں آیا کہ اس تفصیل کو کھولا جائے۔

جنگ گروپ نے پاکستان میں کسی بھی ابلاغی گروپ کو پنپنے نہیں دیا۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک اُس کے نشانے پر رہتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ اس کا کسی طرح بھی ہم پلہ ہے یا نہیں؟ مسئلہ اُس طرزِ فکر کا ہے جو یہ ادارہ اپنے آغاز سے رکھتا ہے۔ کتاب کے مسودے میں ایک واقعہ ہے کہ ایک روز میر خلیل الرحمان کوئٹہ کے کسی ضلع سے نکلنے والے کسی معمولی اخبار کی بابت بہت پریشانی سے معلومات جمع کررہے تھے، میر شکیل اور اُن کے اخی عالی مقام میر جاوید نے حیرت سے پوچھا کہ آخری ایسی کون سی اُفتاد آپڑی ہے کہ وہ اس پر اتنے پریشان ہیں؟ میر خلیل نے سادہ جواب دیا کہ ہر نکلنے والا اخبار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، ہمارا دشمن ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے سرکاری اشتہارات کے کوٹے سے اپنا حصہ بٹورے گا۔ اس نفسیات نے جنگ گروپ کا پیچھا تب بھی نہ چھوڑا جب وہ طبعی سے برقی دنیا میں جادھمکا۔ جیو نے ہر دوسرے چینل کو اپنا دشمن سمجھا۔ بول کے خلاف لگائے گئے الزامات اپنی یادداشتوں میں اُجاگر کیجیے! اور جیو کے اُن اینکرز کویاد کیجئے جو روزانہ اُن الزامات کی جُگالی کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ایف آئی اے کی فردِجرم میں وہ الزامات جگہ تک نہیں بنا سکے۔ اور آج بھی کوئی جیو سمیت اُن اداروں سے یہ سوال پوچھنے کو تیار نہیں کہ آپ کے عائد کردہ الزامات کی حقیقت تو ثابت کیجئے، وہ اب کسی ذکر میں بھی کیوں نہیں آرہے؟یہی ماجرا عقیل کریم ڈھیڈی کے ساتھ بھی ہوا۔ اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئیں مگر کسی ایک الزام کو بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ یہاں تک کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے ایف آئی اے کی فردِ جرم دیکھ کر یہ سوال اُٹھایا کہ آپ گرفتار تو اے کے ڈی سیکورٹیز کے لوگوں کو کرکے لائے ہیں مگر الزامات کسی اور پر لگائے ہیں۔ ان گرفتار افراد اور اے کے ڈی سیکورٹیز کا آخر آپ کے الزامات سے تعلق کیا ہے؟ان سارے معاملات میں جنگ اور جیو کی رپورٹنگ یاد کیجئے! جنگ اور جیو نے ہر اخلاقی اُصول کو توڑا۔ اور واقعات کی رپورٹنگ کے بجائے واقعات تخلیق کرنے کے غیر صحافتی کام کو انجام دیا۔ وہ الزامات گھڑتے رہے اور پاکستان کے سرکاری اداروں کو بشمول ایف آئی اے اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہے۔ اس ضمن میں ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جنگ گروپ نے اپنے اثرورسوخ کو استعما ل کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس تک سے پشت پناہی حاصل کی۔ کیا یہ ابلاغی اداروں کا کام ہے؟ کیا یہ وہ آزادی ہے، جسے وہ آزادی ٔ اظہارکے نام پرمانگتے ہیں؟ کیا اس آزادی ٔ اظہار کے نام پر یہ کارکن صحافیوں کو مختلف لڑائیوں کا ایندھن بناتے ہیں؟ ان تفصیلات کو یہاں بیان کرنے سے گھِن آتی ہے جب جنگ گروپ نے ’’ آزادی اظہار‘‘ کے نام پر بدنامِ زمانہ کلہاڑے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مبینہ حریفوں کی بہوؤں، بہنوں اور بیٹیوں تک کو نہیں چھوڑا۔ کیا یہ لوگ مستحق ہیں کہ انہیں کوئی رعایت دی جائے؟

وجود ڈاٹ کام نے میر اسحق کی گرفتاری پر خوشی کے شادیانے نہیں بجائے تھے۔ بلکہ خالق کائنات کا اُصول یاد دلایا تھا کہ وہ انسانوں کے درمیان ایام کو اُلٹتا پھیرتا رہتا ہے

بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ لگتا ہے کہ میر شکیل کے بیٹے میر اسحق نے دبئی میں کار فراہم کرنے والی کمپنی کو چار لاکھ 64ہزار (16ہزارسات امارتی درہم)ادا کیے بغیر پاکستان واپسی کا پروگرام بنایا تو اُس کمپنی نے میر شکیل الرحمن کے بیٹے کی شکایت کردی اور اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ حاشیہ برداروں اور عقل کل کے مختاروں نے یہ سوال اُٹھایا کہ اس میں آخر خبر کیا ہے؟ اگر یہ خبر نہیں تھی تو اسے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہوتے ہی دو بار سائبر حملوں کا ہدف کیوں بننا پڑا؟ پہلے حملے میں ویب سائٹ کو ابتدائی پندرہ منٹوں میں بحال کر لیا گیا تو دوسرا حملہ زیادہ کاری کیا گیا۔ بآلاخر وجود ڈاٹ کام کی مشاق ٹیم نے اُسے بھی سنبھال لیا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ویب سائٹ کو پھر بحال کر دیا گیا۔ وجود ڈاٹ کام نے میر اسحق کی گرفتاری پر خوشی کے شادیانے نہیں بجائے تھے۔ بلکہ خالق کائنات کا اُصول یاد دلایا تھا کہ وہ انسانوں کے درمیان ایام کو اُلٹتا پھیرتا رہتا ہے۔ اور یہ معمولی واقعات ایک تنبیہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ میر شکیل الرحمان کے لیے رسوائی کا سامان ایک ایسی رقم پر ہوا جو اُس کے ادنیٰ سے ادنیٰ ملازمین کو بھی نہایت معمولی لگتی ہے۔ لوگ فراموش کرجاتے ہیں کہ ایف آئی اے، تھانے، حکومتیں اور سرکاری ادارے کوئی بے وقوف خود چلانے کا دعویٰ کرسکتا ہے مگر اس کائنات کا ایک خدا ہے جو انسان کو ایسی جگہوں سے پکڑتا ہے جہاں انسان اپنے اختیار کا زعم رکھتے ہوئے بھی بے بس لگتا ہے۔ میر اسحق کی گرفتاری پر سوال اخلاقی نوعیت کے اُٹھائے گئے تھے۔ مگر بعض لوگوں نے اُس کی روح کوسمجھا ہی نہیں۔

سوال یہ تھا کہ ان امراء کے بچوں کی یہ کیسی تربیت ہوئی ہے کہ وہ ہر مسئلے کو اپنی طاقت کے زعم میں دیکھتے ہیں اور اُسے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے۔ پاکستانی معاشرہ طاقت اور دولت کے دوستونوں پر کھڑا ہے۔ یہاں جاری ہر سرگرمی یا طاقت کے حصول کے لیے ہے یا پھر دولت کے حصول کے لیے۔ وہ سماج کیسے زندگی کرے گا جس کی سرگرمیوں کے کوئی اخلاقی نتائج ہی نہیں ہوں گے؟ وہ معاشرے کب تک ہانپتے کانپتے اپنی سانسیں اکٹھی رکھ پائیں گے جن کی اجتماعیت کی اساس انصاف کے بجائے طاقت اور دولت پر انحصار کرے گی۔ اگر باپ میر شکیل جیسے ہوں گے تو بچے میر اسحق جیسے ہی ہوں گے۔ یہ ایک نقص کی نشاندہی ہے مگر اِسے سمجھنے سے کچھ لوگ قاصر رہے۔

جہاں تک وجود ڈاٹ کام کے گھیراؤ کا تعلق ہے تو اس کے حریف سن لیں۔ صحافت ہمارے لیے کوئی اجنبی کوچہ نہیں۔ ہمارے نزدیک صحافت، ذوق شہادت کے ساتھ حالات کی بروقت شہادت دینے کا عمل ہے۔ ہمیں نہ میر شکیل الرحمان کی طاقت سے خوف آتا ہے، نہ اُن کی دولت سے کوئی رعب پیدا ہوتا ہے۔ اُن کی طرف سے نواز حکومت کے دور میں حکومت کے اختیار سے سرکاری اداروں کااستعمال اُن کی

بزدلی اور کمتری کا ثبوت ہے۔ اصل طاقت وہ نہیں ہوتی جو کسی پر انحصار کرتی ہو۔ اصل طاقت وہی ہوتی ہے جو انسان کے اندر ہوتی ہے۔ اور یہ لوگ اندر سے کھوکھلے اور اتھلے ہیں۔ ہم صحافت کوواقعات کی پستی سے افکار کی بلندی تک لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس لئے ہم معمولی واقعات کی وقائع نگاری کو بھی کسی بنیادی تصور سے باندھ کر دیکھتے ہیں۔ میر اسحق کا معاملہ بھی ہمارے لیے ایک اخلاقی نوعیت کا معاملہ ہے جو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ پورے پاکستان پر اُنگلی اُٹھانے والا اپنے گریبان میں بھی کبھی جھانکتا ہے یا نہیں؟

دُھن رے دُھنیئے اپنی دُھن، پرائی دُھنی کا پاپ نہ بُن
تیری روئی میں چار بِنولے سب سے پہلے اُس کو چُن


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر