... loading ...
امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر نے ترکی میں ایک الگ پیغام محفوظ رکھا تھا۔
مادرچہ خیالیم و فلک درچہ خیال است
(ہم کس خیال میں ہیں اور آسمان کیا سوچ رہا ہے)
پاکستان میں طرح طرح کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جسے ترکی کی حکومت سے اس لیے کو ئی محبت نہیں کیونکہ وہ اسلامی شناخت کی حامل جماعت کی حکومت ہے۔ پھر چاہے وہ منتخب ہی کیوں نہ ہو؟ مگر وہ نوازشریف کی حکومت سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں بغاوت کی ناکامی پر جمہوریت کی کامیابی کے گیت گانے پڑے۔ اُن کے الفاظ میں مگر یہ احتیاط پنہاں تھی کہ مبادا جمہوریت کا ڈھول پیٹتے پیٹتے کہیں اسلامی سُر نہ نکل پڑیں۔ ایک دوسرا طبقہ وہ بھی تھا جو نوازشریف حکومت کا شدید مخالف ہے اور وہ زبان سے اُس کے خاتمے کے غیر جمہوری اُسلوب کو اختیار کرنے کا اعلان تو کرنے کو تیار نہیں مگر دل میں اس خواہش کو پال پوس کر بیٹھا ہے۔ اس ضمن میں اُن کے دلائل نواز حکومت کے خلاف کالموں کی زینت بنتے رہتے ہیں جس میں بنیادی حقوق کا ذرا سا احساس اور آئینی تقاضوں کا کوئی ادنیٰ گمان بھی نہیں گزرتا۔ مگر اُن میں اچانک ترکی کے اندر اردوان حکومت کی طرف سے ناکام بغاوت کے بعد باغیوں کے حامیوں کے لیے بنیادی حقوق کا خیال اُٹھا ہے۔یہ طبقات مغربی ذرائع ابلاغ اور گولن کے متاثرہ افراد کے زیراثر ذرائع ابلاغ کے پیش کردہ غلط اعدادوشمار کی گوٹاکناری کرکے باغیوں کے حق میں ایک فضا استوار کرنے میں لگے ہیں، اور اردوان کو ایک ظالمانہ ( اور وہ بھی بنگلہ دیشی حکومت کی مانند )اور جابرانہ طرزِ حکومت شعار کرنے پر مطعون کررہے ہیں۔شاہ جی کب یاد آئے! حرم پاک میں خون بہانا جائز نہیں۔ مگر ایک واقعہ پیش آیا، ایک بدو نے سلطان عبدالعزیز ابن سعود کو بیت اللہ میں خنجر مار کر قتل کرنا چاہا۔محافظ دستے نے آڑے آکر جان بچائی۔ برصغیر میں واقعے کا چرچا ہواتو لوگوں نے قرآن پاک سے نور پانے والے برصغیر کے بے مثل خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری کو شرمندہ کرنا چاہا۔
شاہ جی!کیا حرم میں گولی چلانا جائز ہے؟
شاہ جی نے مختصر جواب دیا: نہیں بھائی خنجر چلانا جائز ہے۔
برصغیر کی یہ ذہنیت آج بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ عام آدمی تو دور کی بات ہے ، انتہائی قابل قدر دانشور بھی واقعات کو پورے بہاؤ اور تاریخ کے جدلیاتی جبر میں دیکھنے کے بجائے بس ایک جزوی حصے کو لے کر مکمل نتائج پیدا کرنے کی علت میں مبتلا ہیں۔ان مختلف ذہنوں اور طبقوں کی بھانت بھانت کی بولیوں کو سنا جائے تو لگتا ہے کہ ترکی میں خود اُس بغاوت کو سمجھنے والے اتنے موجود نہیں جتنے یہ علامہ فہامہ ہیں۔ چند دن ترکی میں گزارنے والے اور بغاوت کے روح رواں کے پاکستانی حامیوں کے ساتھ سفر کی لذتیں کشید کرنے والے اب یہ سمجھا رہے ہیں کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی حقیقت کیا تھی اور کیانہیں اور فتح اللہ گولن کودراصل سمجھا غلط گیا۔ ان قابل رحم طبقات کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہوئے ترکی کو پاکستان کے تناظر سے مکمل نکال کر اُس کے اپنے داخلی حالات سے جڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی کو شک ہے تو وہ دور کرلیں ! ترکی بغاوت مکمل طور پر امریکا کی حمایت یافتہ تھی۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ بغاوت کے فوری بعدرجب طیب اردوان کے پاس مختلف شعبوں کے لوگوں کی فہرستیں اور معلومات کیسے میسر آگئیں۔ اس قدر قلیل مدت میں تو خفیہ اداروں سے بھی معلومات اکٹھی نہیں کی جاسکتیں۔ اس طرز فکر کے حامی دراصل ترکی کے حالات کو بغاوت کے بعد کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ وہ بغاوت سے پہلے کے حالات سے خود کو مربوط نہیں کر پارہے۔ یعنی اُنہوں نے حرم میں گولی چلنے کا قصہ یاد رکھا ہے، قبل ازیں خنجر چلنے کا واقعہ طاقِ نسیاں پر دھر دیاہے۔ کیوں نہ شوقِ خنجر آزمائی کی پوری حقیقت کو جان لیں، جسے دانستہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
ترکی میں فوجی بغاوت دراصل جولائی میں نہیں بلکہ ماہِ اگست میں ہونی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب یونانی حکومت ایک نئے بحران میں داخل ہونے والی تھی۔ ترکی میں بغاوت اور یونان میں بحران کا مقصد پورے بلقان کو ایک نئے خطرناک دور کی طرف دھکیلنا تھا۔ جس کے تحت یہاں امریکا کی حاشیہ بردار حکومتوں کو قائم کرکے اس پورے خطے کو امریکا کے زیر قابو یورپ کی حفاظت کے لیے روس کے خلاف ایک آہنی پردے میں تبدیل کرنا تھا۔(یہاں ایک بات حاشیہ خیال میں محفوظ رکھنے کے لیے ہے کہ روس اور امریکا میں سرد جنگ ہی شروع نہیں ہو چکی۔ بلکہ مغربی ماہرین کے مطابق ایک تیسری عالمگیر جنگ بھی جاری ہے۔ جس کے مظاہر گزشتہ دو عالمگیر جنگوں سے ذرا مختلف ہیں۔)الغرض ترکی میں بغاوت کوئی ہوائی منصوبہ نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پوری طرح روس، ایران اور شام واقف تھے۔
روس نے اس بغاوت کے پس پردہ محرکات کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد ترکی سے حالیہ دنوں میں ہونے والی کشیدگی کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اور نہایت خاموشی سے اپنا ایک نمائندہ ’’Aleksandar Dugin‘‘ کو ترکی روانہ کیا۔ پیوٹن کے اس قابل اعتبار نمائندے کے ترکی میں خفیہ دورے سے صرف تہران اور دمشق ہی بے خبر نہیں تھے بلکہ خود ماسکو بھی بے خبر تھا۔الیکسنڈر ڈیوگِن کے پاس ترک صدر کو آگاہ کرنے کے لیے بغاوت کا منصوبہ ہی نہیں تھا بلکہ اُن باغیوں کی فہرست بھی تھی جو بغاوت کی حمایت کررہے تھے۔ دراصل امریکا کو یہ بغاوت اس لئے ایک ماہ قبل بعجلت شروع کرانی پڑی ، کیونکہ روس کی طرف سے مہیا کردہ فہرست کو جب ترک حکومت نے جانچنا شروع کیا تو حقائق نے تصدیق کی کہ واقعتا ترکی میں بغاوت کا ایک امریکی ساختہ منصوبہ زیر گردش ہے۔ ترکی کی طرف سے بغاوت کے کھلاڑیوں کو تیزی سے دریافت کرنے کے عمل نے اس بغاوت کو ایک ماہ قبل جولائی میں ہی انجام دینے پر امریکا اور اُس کے حامیوں کو مجبور کردیا۔ اردوان ہی نہیں شاید پیوٹن بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ قبل از وقت باغیوں کو کچلے جانے کے خوف سے یہ منصوبہ ایک ماہ قبل بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔
قبل ازوقت بغاوت کی پہلی علامت ہی یہ تھی کہ سی این این کی نمائندہ کرسٹینا امان پور بغاوت سے دو دن قبل ترکی پہنچ گئی تھیں ۔اور اُس نے انقرہ اور استنبول میں آکر خود غیر معمولی انتظامات قائم کیے تھے، جو کسی بھی ذی ہوش شخص کو چونکا سکتے تھے۔ یہاں ایک لمحے کو ٹہر کر اپنے ذہنوں میں سی این این اور امریکی حکومت کے مابین اُس رشتے کو ٹٹول لیجئے جو پوری دنیا میں امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ ادارہ پینٹاگون کے مقاصد سے خود کو وابستہ رکھ کر سرانجام دیتا ہے۔
عراق پر پہلے امریکی حملے نے امریکا اور سی این این کے اس رشتے کو پوری طرح بے نقاب کردیا تھا۔ ترکی میں قبل ازوقت بغاوت کے لیے کرسٹینا امان پور دودن قبل ترکی بھیجی گئی تھیں۔ یہی ماجرا عراق جنگ میں بھی پیش آیا تھا۔ عراق پر فضائی بمباری سے تین دن قبل سی این این کے تل ابیب کے لیے نامہ نگار کو بغداد بھیج دیا گیا تھا، جہاں پہلے سے دو نامہ نگار جان ہولیمن اور برنارڈ شا اُن کا انتظار کررہے تھے۔ سی این این نے بغداد پر 17جنوری 1991 کے حملوں کی وقائع نگاری ان تینوں نامہ نگاروں کی مدد سے صحافیانہ انداز میں نہیں بلکہ عسکری مقاصد کے تحت پینٹاگون کی مرضی سے کی۔ جس کااعتراف امریکی صدر بش نے اس طرح کیا تھا کہ ہمیں سی آئی اے سے زیادہ بہتر معلومات سی این این سے مل رہی تھیں۔سی آئی اے نے خود یہ تسلیم کیا تھا کہ سی این این اور پینٹاگون کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور تعاون تھا۔یہاں تک کہ امریکی حکومت نے جنگ کے بعد جان ہولیمن اور برنارڈ شا کو پینٹاگون میں اعلیٰ مناصب بھی دے دیئے۔ کرسٹینا امان پور بھی امریکا کے اسی نوع کے مقاصد کے تحت دودن قبل ترکی میں بھیجی گئی تھیں۔
ترک بغاوت کے اسباب اور محرکات کو تاریخی تناظر میں جانچے اور پرکھے بغیر اور بغاوت سے قبل ترکی میں جو پس پردہ حالات رونما ہوئے ،اُسے پوری طرح تولے اور ٹٹولے بغیر جو تجزیہ کار اور قلم کار ترکی کی حکومت کے بعدازبغاوت اقدامات پر تبصرے کررہے ہیں ، وہ شاید معتدل تو کہلالیں مگر تیزفہم اور اور حقیقت پسند کبھی نہ کہلا سکیں گے۔ ترکی میں قبل ازبغاوت حالات کے کچھ رخ ابھی باقی ہیں جسے اگلی تحریر میں زیر بحث لائیں گے۔
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شامی جنہیں غلام بناکر رومن اٹلی میں پہنچا دیا گیا۔ اپنی حس و صلاحیت سے آقانے اُنہیں تعلیم آشنا ہونے دیااور پھر وہ اپنے غیر معمولی ذہن سے لاطینی مصنف بن کر اُبھرا۔خوبصورت فقروں، محاوروں اور ضرب الامثال...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کوئی اور بیرونی قوت نہیں، بلکہ خود جنونی ہندو ہوں گے۔ ‘‘ بھارتی آبادی کا اسی فیصد ہندو ہیں جن میں ہر گزرتے دن مذہبی جنون بڑھتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد بارہ برس کی سب سے طویل مدت گزارنے والے بھار...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر لی ہے جس میں آپ اُن کی تعریف کے سوا کچھ اور کر ہی نہیں سکتے!اگر حالات ایسے ہی رہے، اور تارکول کی سڑکوں کے ساتھ اقتصادی راہداری کی معاشی فضیلتوں کا جاپ جاری رہاتو لگتا ہے کہ وہ سررابرٹ والپول کا ریکارڈ ...
ہم وہ دن پیچھے چھوڑ آئے،جو دراصل ہمارے ساتھ چمٹ چکا ہے۔ ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے اور قومی حیات سے لے کر ہمارے شرعی شب وروز پر مکمل حاوی ہو چکا ہے۔یہ مسلم ذہن کے ملی شعور کی سب سے بڑی امتحان گاہ کا خطرناک ترین دن ہے۔ امریکامیں نوگیارہ سے قبل جاپان کی طرف سے7دسمبر1941ء کو پرل ہاربر پر ایک حملہ ہوا تھا۔ تب امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ تھا، مگر تقریباً چھ دہائیوں کے بعد جب امریکی تجارتی سرگرمیوں کے مرکز ورلڈ ٹریڈ ٹاور اور دفاعی مرکز پینٹاگون کو نشانا...
وقت کے سرکش گھوڑے کی لگامیں ٹوٹی جاتی ہیں۔ کوئی دن جائے گا کہ تاریخ اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ اجتماعی حیات کو بدعنوانوں کے اس ٹولے کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو اپنا جواز جمہوریت سے نکالتے ہیں مگر جمہوریت کے کسی آدرش سے تو کیا علاقہ رکھتے ، اس کے اپنے بدعنوان طریقۂ اظہار سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ الامان والحفیظ! تاریخ میں حکمرانوں کے ایسے طرز ہائے فکر کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ جو اپنی بدعنوانیوں کے جواز میں ریاست تک کو برباد کرنے پر تُل جائیں۔ پاناما لیکس کوئی چھوٹا معاملہ نہیں۔...
ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا اُنہیں ہرگز ترکی کے حوالے نہیں کرے گا۔اُن کے اپنے الفاظ اس ضمن میں یہ تھے کہ "امریکا ترکی کی جانب سے باضابطہ درخواست کے باوجود اُنہیں بے دخل نہیں کرے گ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک فوجی افسروں کی گرفتاری سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد اسے امریکا کی جانب سے دھمکی قرار دیا جاسکتاہے جبکہ ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے ہی اس ...
تاریخ پر اب تاریخ گزرتی ہے مگر کبھی تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو ایک رائے بہادر یار جنگ کی ملتی ہے، جسے اُنہوں نے کسی اورسے نہیں خود قائداعظم محمد علی جناح کے سامنے ظاہر کیا تھا:’’پاکستان کو حاصل کرنا اتنامشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا۔" اب دہائیاں بیت گئیں اور ایک آزاد ملک کا مطلب کیا ہوتا ہے اس کا وفور بھی کہیں غتربود ہو گیا۔ گستاخی معاف کیجئے گا، 14؍ اگست اب کچھ اور نہیں، بس عادتوں کی ایک ورزش ہے۔یومِ آزادی کے ہر شہری پر دو حق ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس...
مروہ شبنم اروش ترجمہ: محمد دین جوہر تمہید [ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجزیوں کی شورہ پشتی متوقع تھی، لیکن استعماری متجددین اور جدیدیت پرست مذہبی حلقوں کے تجزیے تو بددیانتی کے ”شاہکار“ بن گئے۔ یہ کئی اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ ان تجزیوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ امریکااور یور...
چرچل نے کہا تھا: رویہ بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر یہ ایک بڑا فرق پیدا کرتا ہے۔ ‘‘دہشت گردی کے متعلق ہمارا رویہ کیاہے؟ اگر اس ایک نکتے پر ہی غور کر لیاجائے تو ہماری قومی نفسیات ، انفرادی عادات اور اجتماعی حرکیات کا پورا ماجرا سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار آج سے تو نہیں ہے۔1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے روایتی جنگوں میں نہیں بلکہ غیر روایتی میدانوں میں مقابل ہوں گے۔ غیر واضح چہروں اور نامعلوم ہاتھوں کی لڑائی کا...
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے ساتھ خفیہ و خصوصی تعلقات ہیں، جن کے بارے میں اسانج کا کہنا ہے کہ وہ ثابت کرتے ہیں کہ ہلیری نے گولن کے حامیوں کی حمایت کی اور یہ حرکت ترکی کے مستقبل کی ممکنہ امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے خدشا...
ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن عوام کی بھرپور مداخلت کی وجہ سے حکومت بغاوت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ شہدائے جمہوریت کی یاد میں حکومت نے طاقت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ بحیرۂ مرمرہ کے کنارے پر ینی قاپی کے علاقے میں دنیا...