وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی دوسری زقند

هفته 12 مارچ 2016 ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی دوسری زقند

AbdulHaiBalochPhotoFile-1364961413-496-640x480

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کے بزرگ قوم پرست سیاسی رہنما ہیں۔ زمانہ طالبعلمی سے قوم پرست سیاست سے وابستہ ہیں۔ ان کا شمار صوبے کے ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے کہ جن کی جدوجہد کا ایک مقصد معاشرتی و سیاسی فضاء کی ہمواری ہے جو سرداری اور نوابی کے اثرات سے پاک ہو۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سرداروں اور نوابوں کی ہمرکابی سے خود کو دور بھی نہیں کرپائے ہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی جوانوں جیسی پھرتی دکھاتے ہیں ، بڑے متحرک ہیں۔ قیادت کرنے کی طمع بھی بہرحال ہے جو انہیں بے چین کرتی ہے ۔ اسی بے چینی نے ان کو ایک بار پھر’’ زقند‘‘ لگانے پر مجبور کیا ۔ یعنی نیشنل پارٹی سے طویل سفر ختم کرکے اپنا دھڑا الگ کردیا۔ یہ اعلان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے28فروری2016ء کو ضلع مستونگ میں ایک اجتماع کے موقع پر کیا۔ اس جماعت کا نام بھی ’’نیشنل پارٹی‘‘ ہوگا اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ مرکزی آرگنائزر مقرر ہوئے۔

ڈاکٹر عبدلحئی بلوچ نے اپنے ارادے کو عملی صورت دینے میں کافی دیر کردی حالانکہ نیشنل پارٹی کے اس کنونشن ،جس میں پارٹی انتخابات ہوئے تھے اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صدر منتخب ہوئے ، تب سے ڈاکٹرحئی کا ذہنی اضطراب محسوس کیا جاسکتا تھا ۔

وہ کہتے ہیں کہ نظریاتی و فکری سیاسی کارکنوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور پارٹی کے اندر مخصوص لابی کام کررہی ہے جس پر مجبور ہوکر نظریاتی ورکروں کو پھر سے منظم کرنے کی خاطر اپنا راستہ الگ کردیا۔ ڈاکٹر حئی نے مستونگ کی آرگنائزنگ کمیٹی بھی قائم کردی اور مستونگ ہی میں پہلے عوامی اجتماع کے انعقاد کا اعلان کردیا۔

ڈاکٹر عبدلحئی بلوچ نے اپنے ارادے کو عملی صورت دینے میں کافی دیر کردی حالانکہ نیشنل پارٹی کے اس کنونشن ،جس میں پارٹی انتخابات ہوئے تھے اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صدر منتخب ہوئے ، تب سے ڈاکٹرحئی کا ذہنی اضطراب محسوس کیا جاسکتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ پارٹی صدارت انہیں دی جائے چنانچہ وقتاً فوقتاً جماعتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے اور نوبت علیحدگی تک پہنچ گئی۔ نیشنل پارٹی نے الوداع کہہ دیا تو ڈاکٹر عبدالحئی بڑے سیخ پا ہوئے حالانکہ یہ تو ہونا تھا ۔جب الگ جماعت اور تنظیم سازی شروع کی تو نیشنل پارٹی سے تعلق فطری طور پر ٹوٹ گیا ۔ ان کا نیشنل پارٹی کی قیادت پر ’’پرواسٹیبلشمنٹ‘‘ کا الزام ہے۔ دیکھا جائے تو خود بھی اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی جماعتوں کے دام محبت میں گرفتار رہے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل ایک’’ زقند ‘‘ 1987 میں بھی لگا چکے ہیں ۔ اس وقت وہ پاکستان نیشنل پارٹی سے وابستہ تھے اور مرحوم غوث بخش بزنجو پارٹی کے صدر تھے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ ملکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے تنظیم قائم کردی۔ اس عذر و جواز کے ساتھ کہ ایسا نوجوانوں کو متحرک اور منظم کرنے کی غرض سے کیا گیا۔ یہ جواز پی این پی یا غوث بخش بزنجو کو قبول نہ تھا چنانچہ متوازی تنظیم کے قیام کی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ان کے سیاسی دوستوں کی رکنیت ختم کردی ۔ ظاہر ہے کہ الگ جماعت کی گنجائش تھی ا ور نہ ہی پارٹی آئین اس کی اجازت دیتا تھا۔ دراصل ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے ایسا جان بوجھ کر کیا ، وہ چاہتے تھے کہ ان کا اخراج ہو کیونکہ انہوں نے الگ سیاسی جماعت کے قیام کا فیصلہ کرلیا تھا اور اگلے لمحے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر اعلان کیا ۔ انہیں بلوچ طلباء کی حمایت حاصل تھی یا یو ں سمجھئے کہ اس دور میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا سیاسی سفر بلندیوں پر تھا۔ پاکستان نیشنل پارٹی کو ضرب لگی ،1988ء کے عام انتخابات میں پی این پی کے مقابلے میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ (یعنی بلوچستان نیشنل الائنس )کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ جب پاکستان نیشنل پارٹی جنرل ضیاء الحق کے دور میں نگراں حکومت کا حصہ بنی تب ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی جماعت کو مزید چار چاند لگ گئے۔ ویسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور آمرمخالف سیاست کا رجحان بلوچ نیشنل ازم کے اندر معروف تھا۔ یہی طرز سیاست ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی فطری طور پر اپنائے ہوئے تھے۔ یہ امر پیش نظر ر ہے کہ ان کی فکر اور نظریاتی اساس پر مصلحتیں بھی غالب آتی رہی ہیں۔ عبدالحئی بلوچ کی سیاسی رقابت نواب اکبر خان بگٹی اور سردار اختر مینگل سے بڑھی۔ اس طرح بلوچستان نیشنل پارٹی الائنس تشکیل پا گئی۔ یعنی1988ء کے عام انتخابات میں اسی الائنس کے تحت حصہ لیا گیا اور گیارہ نشستوں کے ساتھ بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی کرلی اور قومی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل ہوئیں۔ ظفر اﷲ جمالی کی حکومت میں الائنس حکومت کا حصہ نہیں تھی ۔ اسمبلی ٹوٹ گئی بعد ازاں ہائی کورٹ کے حکم پر بحال ہوئی۔ یوں الائنس ، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے باہم ملکر حکومت بنالی۔ نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس حکومت میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بھی شامل تھا۔ آگے جاکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نے سالانہ کنونشن میں ’’بلوچستان نیشنل موومنٹ‘‘ کا روپ دھار لیا۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر نواب اکبر بگٹی سے اختلاف پیدا ہوا تو راہیں الگ ہوگئیں۔ انہی دنوں نواب بگٹی نے جمہوری وطن پارٹی کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی۔ سردار اختر مینگل بھی علیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر حئی کی جماعت نواب ذوالفقار علی مگسی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئی ۔ نواب مگسی نواز شریف کی مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔گویا ان کی جماعت اپنے وجود تک ہر حکومت کا حصہ بنی رہی۔ نیشنل پارٹی کو2013ء میں جب وزارت اعلیٰ ملی اور نواز لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوئی تو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ انہیں کوستے رہتے۔ چنانچہ مختلف نشیب و فراز دیکھ کر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پھر سے میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی وارثوں کی جماعت سے انضمام پر مجبور ہوئے۔ یعنی 2004ء میں غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو کی ’’بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ اور’’بلوچستان نیشنل موومنٹ ‘‘باہم ضم ہوکر نئی جماعت، نیشنل پارٹی وجود میں لائی گئی ۔ اور پہلے ٹرم کیلئے ڈاکٹر عبدالحئی صدر منتخب ہوئے ۔آخرکار ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ نے اپنی راہیں جدا کر لیں ، سو ان کی نئی سیاسی جماعت کو بلوچ عوام میں پھر سے پزیرائی ملتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے ، البتہ یہ لمحہ نیشنل پارٹی کی قیادت کیلئے پریشانی کا باعث ضرور ہے۔


متعلقہ خبریں


’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے جلال نورزئی - جمعه 23 ستمبر 2016

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ا...

’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے

امریکا بھارت گٹھ جوڑ جلال نورزئی - منگل 13 ستمبر 2016

چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...

امریکا بھارت گٹھ جوڑ

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج جلال نورزئی - هفته 03 ستمبر 2016

پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی جلال نورزئی - منگل 16 اگست 2016

قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری جلال نورزئی - اتوار 14 اگست 2016

کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار جلال نورزئی - جمعه 12 اگست 2016

8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار

یہ طرز عمل درست نہیں ! جلال نورزئی - هفته 30 جولائی 2016

ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...

یہ طرز عمل درست نہیں !

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان جلال نورزئی - هفته 23 جولائی 2016

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل جلال نورزئی - هفته 07 مئی 2016

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب! جلال نورزئی - منگل 26 اپریل 2016

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب!

عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں جلال نورزئی - هفته 09 اپریل 2016

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک ...

عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں

بھارت کے چہرے سے پردہ سرک گیا جلال نورزئی - بدھ 30 مارچ 2016

یوم پاکستان اس بار بھی بھر پور طریقے سے منایا گیا۔اس دن گویا بلوچستان بھر میں فوج اور فرنٹیئر کور نے تقریبات کا اہتمام کیا۔ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ دن بھر پاکستان زندہ بادکے ملی نغموں سے گونجتا رہا۔ وادی زیارت کی قائداعظم ریزیڈنسی میں فوج اور حکومت نے پرچم کشائی کی تقریب منعقد ک...

بھارت کے چہرے سے پردہ سرک گیا

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر