وجود

... loading ...

وجود
وجود

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

منگل 16 اگست 2016 قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار عاصمہ جہانگیر، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ، اعتزاز احسن ، مولانا فضل الرحمان ، لیاقت بلوچ اور سراج الحق بھی کر چکے ہیں۔البتہ مولانا فضل الرحمان بھی آڑے ہاتھوں لیے گیے۔پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جہاں ارکان کو آئینی حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی مسئلے پر اپنی آراء کا آزادی سے اظہار کر یں۔کسی رکن کی کوئی بات حقائق کے بر خلاف ہو تو احسن طریقے سے اطمینان بخش جواب دیا جاتا ہے اور ارکان کے سوالات اور تحفظات دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے ۔جمہوریت ، آئین و قانون اور حق گوئی کے بزعم خویش چیمپئن شیخ رشید احمد تو مغلظات پر اُتر آئے ۔کوئٹہ آکر موصوف نے جس زبان کا استعمال کیا، اس کی اجازت کسی طور نہیں دینی چاہئے تھی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شیخ رشید اور عمران خان دُکھی و رنجیدہ خاندانوں سے تعزیت کرنے اُن کے گھروں کو جاتے یا کم از کم وکلاء کے نمائندوں سے ہی تعزیت کرتے ۔سول ہسپتال کا دورہ کس کھاتے میں کیا گیا؟ جہاں دھماکے کا ایک بھی زخمی موجود نہ تھا۔ جائے وقوع کے چند سیکنڈ کے دورے کی غایت محض سیاسی تھی ۔اور میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر محمود خان اچکزئی کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ کہہ کر تبریٰ بھیجا ۔گویا اِن کی کوئٹہ آمد کا مقصد ہی یہ زبان استعمال کرنا تھا۔شیخ رشید احمد کو کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام کی روایات کا ذرا بھی ادراک ہوتا تو وہ اتنی گری ہوئی زبان ہرگز استعمال نہ کرتے۔کسی کو غدار اور ایجنٹ کہنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ،صبح و شام منتخب حکومت کے خلاف سازشوں میں کس کہ کہنے پر مصروف ہیں؟

یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ۔’’این ڈی ایس‘‘ ’’را‘‘ کی کٹھ پتلی ہے ۔پاکستان کے خلاف محاذ خالصتاً بھارت کی خواہش اور ہدایات پر کھولا گیا ہے ۔ستم یہ ہے کہ مرض اور اس کی تشخیص کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ سیاستدان اور دانشور فکر اور رائے کا جمود توڑنے کو تیار نہیں۔

قوم کو معلوم ہے کہ بارہ مئی 2007کو جب کراچی مقتل بنا تو اُس رات پرویز مشرف کے ساتھ جشن منانے والوں میں شیخ رشید بھی فضا میں مُکے بلند کر رہے تھے ۔وکلاء ، صحافیوں اور دیگر عام شہریوں کا اس آسانی سے قتل عام پولیس اور انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے ؟یقینا حکومتوں کی ناکامی شاملِ حال ہے۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ اس ناکامی کی وجوہات اور اسباب کا تعین ہم مدتوں سے نہیں کر پائے ہیں ، اگر فی الوقع دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہوتی تو مردم کُشی کے واقعات پیش نہ آتے۔سالوں شدت پسندی پروان چڑھتی رہی کسی کو اس کی بھنک نہ پڑی ۔جی جناب! بلوچستان میں نوے کی دہائی سے علیحدگی اور فرقہ کی بنیاد پر تخریب کاری اور دہشت گردی کی سوچ پروان چڑھنے لگی۔جو آج ایک سڑا ہوا ناسور بن چکی ہے ۔بتایا جائے کہ اتنے سالوں حکمران اور عوام کے محافظ کیا کرتے رہے ؟ہزارہ قبیلے کے افراد کا اجتماعی و انفرادی قتل عام ہوا اور سالوں سال ہوتا رہا ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف و تردد نہیں کہ ہزارہ قوم کی بلوچستان میں باقاعدہ اور منظم انداز میں نسل کشی کی گئی ۔ان کے بچوں اور خواتین تک کو نہیں بخشا گیا ۔معاش ، کاروبار، تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔پوری قوم قلعہ بند زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دی گئی ۔سچی بات یہ ہے اِن کا درد اور دُکھ محسوس بھی نہیں کیا گیا۔البتہ سیاسی مقاصد کی حد تک ضرور ہمدردی جتائی جاتی ۔بتایا جائے کہ بلوچ شدت پسندوں سے سنجیدہ اور با معنی مذاکرات کب اور کس نے کئے ہیں؟ نیز ان شدت پسند ملیشیاؤں کو پھیلنے اور جڑیں پیوست کرنے کیوں دیا گیا؟ یہ سب ناکامیاں نہیں تو اور کیا ہیں۔اس غفلت کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی عوام، علماء ،اساتذہ،طلباء ،ڈاکٹرز ،وکیل ،انجینئرز ،مزدور، پولیس ،ایف سی ،فوج گویا ہر ہر شعبہ زندگی کے لوگ جان سے گئے ہیں۔سیاستدان نشانابنے، قومی و سرکاری املاک اور تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا۔

یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ۔’’این ڈی ایس‘‘ ’’را‘‘ کی کٹھ پتلی ہے ۔پاکستان کے خلاف محاذ خالصتاً بھارت کی خواہش اور ہدایات پر کھولا گیا ہے ۔ستم یہ ہے کہ مرض اور اس کی تشخیص کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ سیاستدان اور دانشور فکر اور رائے کا جمود توڑنے کو تیار نہیں، نہ معاملات کا ادراک ہو سکا ہے نہ ماضی کی خامیوں سے بہتری کی راہ نکالنے کی جستجو کی گئی ۔ یہ ’’پراکسی وار‘‘ اگر ہے تو محض پاکستان کی جانب سے نہیں ، پاکستان در اصل دفاع کی پوزیشن میں ہے ۔افغان حکومت آزاد اور خود مختار نہیں ،جس دن اسے داخلی خود مختاری حاصل ہو گی تو میں پوری بصیرت اور کا مل یقین سے کہتا ہوں کہ اگلے لمحے پاکستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونا یقینی ہے۔ تب ایک خود مختار افغانستان اپنی زمین کسی کے مفادات و مقاصد کیلئے استعمال ہونے نہیں دے گا۔یہ امر تاریخ کے صفحات پر نوشتہ ہے کہ 1955ء میں افغانستان نے پشتونستان تحریک کو اُبھارنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد میں کامیابی پاکستان کے توڑنے میں پنہا ں تھی۔ سردار داؤد کے دور میں اس میں شدت آئی، چنانچہ جب وہ معاملے کی نزاکت اور پیچیدگی بھانپ گئے ، پاکستان سے بہتر تعلقات کی طرف بڑھنے لگے تو اُن کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی ۔کمیونسٹ نظام افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش ہوئی ۔چونکہ یہ انقلاب اور نظریہ عوام کے مزاج کے موافق نہ تھا ،یوں ببرک کارمل مسندِ اقتدار پر اس ہدایت کے ساتھ بٹھا ئے گئے کہ وہ ’’خلقی رجیم ‘‘ کی بعض نافذ شدہ اصلاحات فوری منسوخ کریں۔حکومت مخالف سیاسی قیدی زندانوں سے رہا کئے گئے ۔ علماء کو پھر سے قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ببر ک کارمل کے دور میں ریڈیو ، ٹی وی اور تقریبات کا آغاز بسم اللہ اور قرآن کی تلاوت سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنا قومی اور اسلامی تشخص اُجاگر کرنا شروع کر دیا اور خود کو ایک قوم پرست رہبر کے طور پر پیش کیا۔تاکہ بطور صدر افغان عوام کے لئے قابل قبول ہوں۔ یعنی ’’پرچمیوں‘‘ نے اپنے کمیونسٹ تعارف سے رجوع کر لیا۔ تاہم خلقی دھڑے کی نگاہ تب بھی سبز باغ پر جمی رہی۔ڈاکٹر نجیب اللہ نے مجاہد تنظیموں سے تعلقات بہتر بنانے کی مساعی کی ، اپنی تقریروں میں اکثر قرآن و حدیث مبارکہ کے حوالے دیتے ۔ کمیونسٹ فوجی قبضے کے بعد افغانستان کا جھنڈا سُرخ رنگ میں تبدیل ہو چکا تھا ، ببرک کارمل نے پھر سے تین رنگ کا جھنڈا افغان قومی پرچم قرار دیا۔گویا یہ معروضی حقائق کا ادراک تھا ۔

پاکستان کے پشتون قومی زعما ء کو فکر و نظر کے جمود کو اب توڑنا چاہئے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کافی حد تک بھارت کی پیدا کردہ ہے ۔جس کے جاسوسی ادارے پاکستان کے اندر مردم کشی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ یاد رہے کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں ، اصلاح کی گنجائش بہر حال ہر ادارے میں پائی جاتی ہے ۔اور ہمیں بھی اپنی پیدا کردہ خرابیوں پر بھی کھلے دل کے ساتھ نہ صرف ہمہ پہلو غور بلکہ بولنے کی ضرورت ہے ۔کہا کہ خیبر پختوانخوا افغانستان کا حصہ تھا اور اگلے لمحے سیاق و سباق پر غور کئے بغیر’’ تبریٰ ‘‘بھیجنا شروع ہوا، اور محمود خان اچکزئی کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دی گئی اور آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ۔اس میں شک ہی نہیں کہ خیبر پختونخوا شمالی بلوچستان بشمول کوئٹہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ تھے ۔دونوں جانب آباد لوگ ایک ہی نسل، زبان ، مشترک ثقافت ،بود وباش و روایات اور ایک مذہب و عقیدے میں جڑے ہوئے ہیں۔یقینا اب دونوں جانب کے عوام دو الگ ممالک کے شہری ہیں ۔ لیاقت بلوچ کا یہ کہنا صائب ہے کہ’’ محمود خان اچکزئی کی حُب الوطنی پر شک کی گنجائش نہیں ہمیشہ آئین کے اندر رہتے ہوئے بات کی ہر ایک کا اپنا رد عمل ہو سکتا ہے کسی کی دل شکنی سے قومی یکجہتی متاثر ہو سکتی ہے ۔‘‘ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صوبوں کے اختیارات رول بیک کئے جا رہے ہیں، ملک میں صوبائی خود مختاری کی یہ جنگ ایک طویل تاریخ کی حامل ہے ۔نفرتوں کی ایک وجہ ان اختیارات کا نہ ملنا ہے ۔ ایسے میں تبریٰ بھیجنے کا یہ ’’اوچھا چلن ‘‘قومی احترام اور ہم آہنگی کو زک پہنچا رہا ہے ۔


متعلقہ خبریں


بلوچستان: ضلع شیرانی میں چیک پوسٹ پرحملہ، 4 اہلکار شہید وجود - اتوار 02 جولائی 2023

بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں ایف سی چیک پوسٹ پردہشت گرد حملے میں 4 اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں حملے میں ایک ایف سی اور3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، تفصیلات  کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ فورسز اور دہشت گ...

بلوچستان: ضلع شیرانی میں چیک پوسٹ پرحملہ، 4 اہلکار شہید

ایک ملزم سے فوری بیان دلوانا اور باقیوں کو فرار کروانا سوالیہ نشان ہے، شیخ رشید وجود - جمعه 04 نومبر 2022

سابق وزیر داخلہ و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ایک ملزم سے فوری بیان دلوانا اور باقیوں کو فرار کروانا سوالیہ نشان ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری کردہ بیان میں شیخ رشید نے کہا کہ اسلام آباد کو گوانتا مو بے جیل بنا دیا گیا ہے جو جیل ہمارے لیے کل بن...

ایک ملزم سے فوری بیان دلوانا اور باقیوں کو فرار کروانا سوالیہ نشان ہے، شیخ رشید

بلوچستان میں پاک فوج کا ایک اورہیلی کاپٹر گرکرتباہ ، 2 میجرسمیت 6 اہلکار شہید وجود - پیر 26 ستمبر 2022

بلوچستان میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 میجر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹربلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں 2 پائلٹ سم...

بلوچستان میں پاک فوج کا ایک اورہیلی کاپٹر گرکرتباہ ، 2 میجرسمیت 6 اہلکار شہید

طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت وجود - جمعه 26 اگست 2022

مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...

طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت

بلوچستان: بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام تباہ، زمینی و فضائی راستے بند وجود - جمعه 26 اگست 2022

بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے، تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا...

بلوچستان: بجلی، گیس اور مواصلاتی نظام تباہ، زمینی و فضائی راستے  بند

پولیس کا کریک ڈاؤن ،150 پی ٹی آئی کارکن گرفتار وجود - منگل 24 مئی 2022

حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی اکثریت روپوش ہوگئی ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی لال حویلی پر پولیس نے چھاپہ مارا لیکن شیخ رشید ا...

پولیس کا کریک ڈاؤن ،150 پی ٹی آئی کارکن گرفتار

بلوچستان میں سیاسی پارہ تیز، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع وجود - بدھ 18 مئی 2022

وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی، تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کے دستخطوں سے جمع کروائی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا...

بلوچستان میں سیاسی پارہ تیز، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

اداروں کے ساتھ جنگ ہوئی تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں، شیخ رشید وجود - منگل 03 مئی 2022

سابق وزیرداخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کی اداروں سے جنگ ہوجاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ میں عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہوں گا، کیوں کہ میں عمران خان کو اس جنگ میں حق بجانب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ا...

اداروں کے ساتھ جنگ ہوئی تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں، شیخ رشید

عمران خان کا بال بھی بیکا ہوا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی، شیخ رشید وجود - جمعه 22 اپریل 2022

سینئر سیاستدان و سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا ہے کہ اگر عمران خان بال بھی بیکا ہوا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی اور ملک میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا، آصف زرداری نے اپنی بیوی کو قتل کرایا اور جعلی وصیت کے ذریعے اس کی سیاست پر قبضہ کیا، آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کے دونوں بھائی...

عمران خان کا بال بھی بیکا ہوا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی، شیخ رشید

سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ میں سمری تیار وجود - جمعه 18 مارچ 2022

سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ میں سمری کی تیاری شروع کر دی گئی۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزارت داخلہ میں (آج) جمعہ کو اہم اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس کی صدارت وزیر داخلہ شیخ رشید کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان سے وزیر داخلہ شیخ رشید (آج) جمعہ کو اہم ملاقات کریں گے جس کے ب...

سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ میں سمری تیار

حکومت نے برطانیہ سے سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی وجود - پیر 14 مارچ 2022

حکومت نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی زیر صدارت وزارت داخلہ میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ریٹرنز اینڈ ری ایڈمیشن اور مجرمان کی حوالگی کے معاہدوں سے متعلق خصوصی کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہوا...

حکومت نے برطانیہ سے سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی

عدم اعتماد کی تحریک سے قبل حکومتی اتحادی آمنے سامنے وجود - اتوار 13 مارچ 2022

وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ہی حکومت کی 2 بڑی اتحادی جماعتیں عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ق آمنے سامنے آ گئیں۔میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر داخلہ و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مسلم لیگ ق کا نام لئے بغیر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 5 سیٹوں والے پن...

عدم اعتماد کی تحریک سے قبل حکومتی اتحادی آمنے سامنے

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر